جمہوری نظام میں ایوان کی سیاست کو خاص اہمیت حاصل ہے‘ جو جماعت انتخابی نشستیں جیت کر ایوان میں پہنچ جاتی ہے وہ عوام کی نمائندہ جماعت بن جاتی ہے۔ اس کا اولین فریضہ ان لوگوں کے حق میں آواز بلند کرنا ہوتا ہے جنہوں نے اسے اپنے ووٹ سے منتخب کر کے ایوان میں بیٹھنے کے قابل بنایا ہوتا ہے۔ اگر منتخب نمائندے عوامی مسائل کو پسِ پشت ڈال دیں تو وہ حقیقی عوامی نمائندے کہلانے کے حقدار نہیں ہوتے۔ بڑی سیاسی جماعتیں حکومت بنانے اور قانون سازی میں چھوٹی علاقائی جماعتوں کی مرہونِ منت ہوتی ہیں حتیٰ کہ ایک رکنِ اسمبلی کی حامل جماعت بھی حکومت کیلئے مجبوری بن سکتی ہے۔ ماضی میں چیئرمین سینیٹ کے انتخاب اور اہم قانون سازی میں ایک ووٹ کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہو چکا ہے‘ پھر کیا وجہ ہے کہ ایوان کے اندر مجموعی طور پر 90 کے قریب ارکان ہونے کے باوجود پی ٹی آئی اپنی اہمیت کا احساس نہیں دلا سکی ؟ یہ ایوان کی سیاست کو نہ سمجھنے کا ہی نتیجہ ہے کہ پی ٹی آئی 26ویں آئینی ترمیم کے عمل کا حصہ نہیں بنی۔ یہ موقع اس لیے بھی اہم تھا کہ پی ٹی آئی کے بائیکاٹ سے آئینی ترمیم کا عمل رکنے والا نہیں تھا۔ مولانا فضل الرحمن کی طرح دور اندیشی کا مظاہرہ کرکے کچھ حاصل کیا جا سکتا تھا۔ جے یو آئی کو آج بھی حکومت سے تحفظات ہیں لیکن وہ آئینی ترمیمی عمل کا حصہ بنی۔ حالانکہ پی ٹی آئی کے مقابلے میں جے یو آئی کے بہت کم ارکان ایوان میں ہیں۔ پی ٹی آئی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہے مگر اسے علم ہی نہیں کہ اپوزیشن کا ایوان میں کیا کردار ہوتا ہے۔
پی ٹی آئی کا ڈی چوک میں ناکام احتجاج خاص و عام میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ احتجاج سے فرار کے بعد پی ٹی آئی کی صفوں میں خاموشی ہے۔ سمجھدار کھلاڑی ایسے مشکل وقت میں سٹریٹیجی تبدیل کر کے میدان میں اُترتا ہے‘ کیا پی ٹی آئی دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے اپنی سٹریٹیجی تبدیل کرنے کیلئے تیار ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں احتجاج کرتی ہیں تو کچھ حاصل بھی کرتی ہیں۔ کئی بار ایسا لگا کہ احتجاج بیکار گیا‘ جیسا کہ 2019ء میں جمعیت علمائے اسلام اور اگست 2024ء میں جماعت اسلامی کا لیاقت باغ میں احتجاج تھا۔ جے یو آئی اور جماعت اسلامی کے احتجاج کے انجام کو دیکھتے ہوئے یہ لاحاصل مشق لگتی تھی لیکن بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ دونوں احتجاج کسی نہ کسی معاہدے کے نتیجے میں ختم ہوئے تھے۔ جب احتجاج کرنے والی پارٹی اپنے مطالبات منوائے بغیر واپس جاتی ہے‘ اس پر تنقید ہوتی ہے کہ جیسے آئے تھے ویسے ہی خالی ہاتھ لوٹ گئے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ سیاست میں معاہدوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور وقت آنے پر ان کی پاسداری بھی کی جاتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن دانشمندی سے اپنے کارکنان کو محفوظ طریقے سے واپس لے گئے‘ ایسے ہی جماعت اسلامی نے بھی کیا۔ اس ضمن میں دیکھیں تو پی ٹی آئی ایک جذباتی پارٹی ثابت ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی نے پچھلے دو برس میں جتنے احتجاج اور جلسے کیے ‘ کسی دوسری پارٹی نے نہیں کیے مگر احتجاج کے ذریعے اپنی بات منوانا اور معاملے کو طول دے کر مذاکرات تک لے جانے کا اسے فن نہیں آتا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کارکنان کو تھکانے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا بلکہ بات کارکنان کو تھکانے سے کہیں آگے چلی گئی۔ کارکنان زخمی ہوئے‘ کئی کی جان جانے کی اطلاعات ہیں۔ اس تکلیف دہ صورتحال کے بعد بھی پی ٹی آئی نے کچھ حاصل نہیں کیا بلکہ مزید دو قدم پیچھے چلی گئی ہے۔ کچھ حلقے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی بند گلی میں داخل ہو چکی ہے۔ تصور کریں‘ پی ٹی آئی کے کارکنان اب کسی احتجاجی کال پر آسانی سے باہر نکل سکیں گے؟
پی ٹی آئی قیادت احتجاج کی ناکامی کا ملبہ حکومت پر ڈال کر وقتی طور پر تنقید سے بچ سکتی ہے تاہم جب تک احتجاج کے طریقہ کار کو تبدیل نہیں کیا جاتا‘ مطلوبہ نتائج کا حصول ممکن نہیں۔ ایک لمحے کیلئے تصور کریں کہ پی ٹی آئی اسلام آباد پہنچ کر پُرامن طریقے سے ڈی چوک میں پڑاؤ ڈال لیتی۔ ڈی چوک پہنچنے والے کارکنان سکیورٹی اہلکاروں سے الجھنے اور کنٹینر گرانے کے بجائے پُرامن انداز میں بیٹھ جاتے تو میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کے ساتھ لوگوں کی ہمدردی بھی انہی کے ساتھ ہوتی۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے لوگوں کی شمولیت سے پی ٹی آئی کا پلڑا مزید بھاری ہو سکتا تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں اسلام آباد کے اہم مقام پر موجود لوگوں کو نظر انداز کرنا حکومت کیلئے آسان نہ ہوتا۔ نتیجتاً مذاکرات کی راہ کھلتی اور حکومت کے پاس پی ٹی آئی کے مطالبات کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔ پی ٹی آئی نے مگر پُرامن احتجاج کے بجائے تشدد کا راستہ اپنایا اور منزل سے ایک بار پھر دور ہو گئی۔ پی ٹی آئی نے احتجاج کا وہ طریقہ کار اور سیاسی طرزِ عمل اختیار کیا ہے جو کسی زمانے میں مذہبی جماعتوں کا تھا۔ مذہبی جماعتیں اب وہ طریقہ کار ترک کر چکی ہیں‘ مگر پی ٹی آئی کو یہ طریقہ کار ترک کرنے میں وقت لگے گا۔ یہ جان لینا چاہیے کہ انتشار پسند رویوں کی سیاست میں جگہ ہے‘ نہ ہی انہیں قبول کیا جائے گا۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا احتجاج ایک شخصیت کے گرد گھوم رہا ہے حالانکہ ملک کے اندر اس سے کہیں بڑے مسائل ہیں۔ پی ٹی آئی کو ان مسائل پر بات کرنے یا احتجاج کرنے کی توفیق کیوں نہیں ہوئی؟ پی ٹی آئی نے خان صاحب کی رہائی کا بیانیہ اپنایا ہوا ہے مگر عوام میں اس بیانیے کو پذیرائی نہیں مل رہی کیونکہ ملک میں خان صاحب کی رہائی سے بڑے عوامی مسائل موجود ہیں۔ پی ٹی آئی کو اس بیانیے پر کاربند رہنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ عوامی خدمت ہی کسی جماعت کو عوام کی نظروں میں مقبول بناتی ہے۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی کے پاس کوئی جامع منصوبہ بندی ہے اور نہ ہی عوام کے سامنے پیش کرنے کیلئے کوئی قابلِ ذکر منصوبہ ہے۔ پی ٹی آئی جن حالات کا دوسروں کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے‘ یہ درحقیقت اس کی سیاسی عاقبت نااندیشی کا نتیجہ ہے جسے قبول کیے بغیر آگے بڑھنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی۔پی ٹی آئی نے خان صاحب کی رہائی کو کُل سیاست بنا لیا ہے‘ اسے خان کی رہائی کے بیانیے سے نکل کر بھی سوچنا ہو گا۔ سیاسی قیادت جیلوں میں جاتی رہتی ہے۔ اس وقت جو شخص ایوانِ صدر میں متمکن ہے‘ اُسے دو بار ملک کے صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ جیل کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد ان کی پارٹی وفاق میں حکومت کر چکی ہے جبکہ سندھ میں 2008ء سے مسلسل انہی کی پارٹی کی حکومت ہے۔ یہ اسی صورت ممکن ہو پایا کہ انہوں نے سیاسی مشکلات کا سامنا کیا اور مناسب وقت کا انتظار کیا۔ خان صاحب نیلسن منڈیلا کی مثالیں پیش کرتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی کے تقریباً 27 برس جیلوں میں گزارے۔ خان صاحب نے ایک جانب یہ تاثر دیا کہ وہ جیل کی مشکلات کو بڑے حوصلے سے برداشت کر رہے ہیں مگر دوسری طرف پارٹی احتجاج کا محور خان صاحب کی رہائی ہونا‘ ان کی کمزوری کو عیاں کرتا ہے۔ اس سے تاثر ملتا ہے کہ خان صاحب کسی نہ کسی طریقے سے جیل سے باہر نکلنا چاہتے ہیں۔ خان صاحب جلد یا بدیر جیل سے باہر آ جائیں گے۔ مقدمات کا سامنا کرتے ہوئے عدالتوں سے سرخرو ہوتے ہیں تو یقینا ان کا سیاسی قد کاٹھ بڑھ جائے گا۔ ڈی چوک پر ناکام احتجاج نے خان صاحب کو ایک مرتبہ پھر سوچنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ کیا وہ ٹھنڈے دماغ سے سوچتے ہوئے اپنی سٹریٹیجی تبدیل کریں گے یا پھر مزاحتمی بیانیے پر قائم رہیں گے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved