کینیا میں میرو قبیلے کے علاقے میں گھنے جنگل کے درمیان ایک کھلی اور صاف شفاف سڑک دیکھ کر خاصا تعجب ہوا۔ دوستوں نے جو شہر کا نام بتایا‘ وہ بھی میں نے پہلی بار سنا تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وہاں ایک چھوٹا سا مدرسہ اور ایک خوبصورت مسجد ہے۔ آبادی زیادہ نہیں‘ مگر مدرسے میں مختلف افریقی قبائل کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں اور مسجد بھی انہی طلبہ کی وجہ سے آباد ہے۔ وہ مقام ہم سے تقریباً تیس کلومیٹر کے فاصلے پر تھا‘ لہٰذا ہم نے وہاں جانے کا فیصلہ کیا فاصلہ تھا۔
ہم اس شہر میں پہنچے تو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ چھوٹا شہر ہونے کے باوجود سڑکیں اور راستے صاف ستھرے تھے۔ مسجد میں گئے تو ایک خوبصورت یورپی نوجوان سے ملاقات ہوئی جس کی لمبی بھورے رنگ کی بھرپور داڑھی بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ موصوف سے ہماری پہلے سے کوئی جان پہچان نہیں تھی۔ میں نے تعارف کرایا تو وہ صاحب بہت خوش ہوئے اور کہا کہ آپ کا نام سن رکھا تھا‘ آج پہلی بار ملاقات ہوئی ہے۔ میں نے سوال کیا کہ آپ مسلمان کیسے ہوئے؟ اس پر وہ ذرا مسکرائے اور پھر اپنے قبولِ اسلام کا پس منظر بیان کیا۔
پہلے پہل وہ کچھ سوچ میں پڑ گئے‘ پھر کہنے لگے کہ میں سیاحت کیلئے اپنے وطن یونان سے ترکی گیا۔ ترکی کے مختلف سیاحتی مقامات دیکھے اور دل خوش ہوا۔ پھر ترکی کی نیلی مسجد (Blue Mosque)استنبول میں گیا کیونکہ اس کے بارے میں سیاحتی معلومات میں بہت کچھ لکھا ہوا تھا۔ جب میں اس مسجد میں داخل ہوا تو میرے دل کی عجیب کیفیت ہو گئی۔ میں نے سوچا کہ اتنی خوبصورت عبادت گاہ‘ جو دلوں کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہے‘ سے تعلق رکھنے والا مذہب کتنا خوبصورت ہو گا۔ بغیر کسی حیل و حجت کے میں نے دل سے اسلام قبول کر لیا‘ حالانکہ مجھے یہ تک معلوم نہ تھا کہ مسلمان ہونے کیلئے کیا کیا چیزیں ضروری ہوتی ہیں؟ میں اپنے طور پر مسلمان ہو کر واپس یونان چلا گیا۔ وہاں ایک مصری میڈیکل ڈاکٹر سے ملا اور انہیں اپنی کہانی سنائی۔ وہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے مجھے کلمہ پڑھایا جو میں نے یاد کر لیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پھر انہی صاحب کی رہنمائی میں نماز یاد کی اور اس کے بعد ان کی وساطت سے مصر میں اسلام کی تعلیم حاصل کی۔ وہاں سے فراغت کے بعد میرے اساتذہ نے مشورہ دیا کہ میں افریقہ کے کسی ملک میں جا کر اسلام کی دعوت کا کام کروں۔ پس میں کینیا آیا اور بعض عرب دوستوں کے مشورے اور مدد سے یہاں پہنچ گیا۔ انہی دوستوں کے تعاون اور مدد سے یہ مرکز بنا اور الحمدللہ چل رہا ہے۔ یہی میری زندگی کی اصل داستان ہے۔ مجھے اس نومسلم مبلغ کا نام یاد نہیں‘ البتہ یہ یاد ہے کہ اس کے نام کے ساتھ 'عبد‘ لگتا تھا‘ شاید عبدالقیوم یا عبدالرحیم یا کچھ اور! یہ واقعہ زندگی کے اُن یادگار واقعات میں سے ہے جن کا تذکرہ میں کئی بار اپنے احباب کی محفلوں میں کر چکا ہوں۔ برطانیہ کے شہر راچڈیل میں بھی ترکی کی اسی مسجد کی نسبت سے نیلی مسجد کے نام سے ایک خوبصورت مسجد ہے‘ جہاں کئی بار حاضری اور مختلف پروگراموں میں شرکت کا موقع ملتا رہا۔
مشرقی افریقہ کے اس خطے میں سیروسیاحت کے خوبصورت مقامات کے ساتھ قدرت کے بہت سے عجوبات بھی بہت پائے جاتے ہیں۔ ماؤنٹ کلمن جارو (Mount Kilimanjaro) تنزانیہ اورکینیا کے درمیان تنزانیہ کی حدود میں ایک بہت بلند پہاڑ ہے جو قدرت کے عجوبات میں سے ایک عظیم عجوبہ ہے۔ اس پہاڑ کے قریب سے خطِ استوا گزرتا ہے جو سال بھر تپش اور گرمی کے شعلے اگلتا ہے مگر یہاں سال کے بارہ مہینے برف جمی رہتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی بلندی 19 ہزار 340 فٹ ہے جو اسے گلیشیر سے ڈھانپ کر سرد ماحول اور موسم فراہم کرتی ہے۔ یورپی لوگوں کو شروع میں یقین ہی نہیں آتا تھا کہ خط استوا پر بھی برف جم سکتی ہے‘ مگر اسے دیکھ کر وہ حیران رہ گئے۔
اسی طرح دوسرا بلند پہاڑ ماؤنٹ کینیا ہے جو کینیا میں واقع ہے اور کلمن جارو کی طرح کافی اونچا یعنی 17 ہزار 60 فٹ بلند ہے۔ اس پر بھی ہر وقت برف جمی رہتی ہے اور خطِ استوا اس کے بھی قریب سے گزرتا ہے۔ یہ دونوں پہاڑ سیروسیاحت کی گائیڈز میں عجوبات میں شمار ہوتے ہیں۔ مجھے کئی مرتبہ ہوائی سفر کے دوران ان پہاڑوں کے اوپر سے گزرنے کا موقع ملا۔ آس پاس بیٹھے ہوئے مسافر بڑے شوق سے ان پہاڑوں کو دیکھتے تو انہیں تعجب ہوتا کہ یہ مسافر کتنا بے ذوق ہے کہ اتنے خوبصورت مناظر کو توجہ ہی نہیں دے رہا‘ حالانکہ میں تو ان مناظر کو بارہا دیکھ چکا تھا اور اب میرے لیے یہ کوئی عجوبہ نہیں تھے۔
1974ء سے 1985ء تک براعظم افریقہ کے بیشتر علاقوں کے دعوتی وتبلیغی سفر مسلسل جاری رہے۔ یہ زمانہ عمومی طور پر تو کینیا ہی میں گزرا مگر بیچ بیچ میں آس پاس کے ملکوں میں بھی کافی بھاگ دوڑ کرنا پڑی۔ یوگنڈا مشرقی افریقہ کا ایک ملک ہے۔ کینیا‘ یوگنڈا اور تنزانیہ‘ یہ تینوں ممالک برطانوی استعمار کی غلامی میں رہے۔ آزادی کے بعدان تینوں ممالک نے آپس میں ایک اتحاد کیا جس کا نام 'ایسٹ افریقن یونین‘ تھا۔ اس کی بدولت تینوں ملکوں کے باشندے ایک دوسرے ملک میں آزادی سے جا آ سکتے تھے۔ بعد میں یہ اتحاد مسائل کا شکار ہوا اور بالآخر ختم ہو گیا۔ کینیا میں قیام کے دوران یوگنڈا بارہا جانا آنا رہا۔
گو کہ آج بھی افریقہ کے حالات بہت اچھے نہیں ہیں اور اکثر ملک خانہ جنگی اور بدامنی کی لپیٹ میں ہیں مگر اس وقت یہ پورا خطہ ہی فسادات کی آگ میں جل رہا تھا۔ یوگنڈا کے حالات بھی اس وقت زیادہ اچھے نہ تھے۔ انتہائی خوف وہراس کے عالم میں‘ دوستوں کے روکنے کے باوجود یوگنڈا والوں کی دعوت پر میں وہاں روانہ ہو جاتا تھا۔ یوگنڈا میں اُس زمانے میں شدید بدامنی اور لاقانونیت کی وجہ سے میری واپسی تک احباب پریشان رہتے تھے کہ پتا نہیں زندہ واپس آئوں گا یا ''شہادت‘‘ کی خبر موصول ہو گی۔ یہ شہادت کا لفظ احباب استعمال کیا کرتے تھے‘ سو میں نے اسی کو دہرا دیا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس دور میں کبھی ڈر اور خوف کا احساس نہ ہوا تھا۔ بلاشبہ اس کا سبب اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور سلامتی پر توکل تھا۔
مشرقی افریقہ کا خشکی میں گھرا ہوا (Land Locked) ملک یوگنڈا غیر مسلم اکثریت اور غیر مسلم حکمران کے باوجود او آئی سی کا ممبر ہے۔ اس کی یہ ممبر شپ سابق فوجی حکمران عیدی امین کے دورِ حکومت کی مرہونِ منت ہے۔ عیدی امین نے 1971ء میں فوجی انقلاب کے ذریعے صدر ملٹن اوبوٹے (Miltonobote) کا تختہ الٹ کر حکومت پر قبضہ کر لیا تھا۔ ایک مسلم سربراہ حکومت کی حیثیت سے انہوں نے او آئی سی کی رکنیت حاصل کی۔ عیدی امین کی حکومت طویل خانہ جنگی اور تنزانیہ کی سرکاری فوجوں کی جانب سے مخالف قوتوں کی مسلح امداد کے نتیجے میں آخرکار11 اپریل 1979ء کو ختم ہو گئی۔ اس کے بعد سے آج تک عیسائی ملک پر حکومت کر رہے ہیں مگر اپنی مصلحتوں کی وجہ سے وہ مسلم ممالک کی تنظیم میں شامل رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس تنظیم نے دنیا بھر میں جو عالمی یونیورسٹیاں قائم کی ہیں ان میں سے ایک یوگنڈا کے سرحدی شہر مبالے میں ہے۔ دیگر یونیورسٹیاں پاکستان‘ ملائیشیا‘ بنگلہ دیش اور نائیجرمیں قائم کی گئی ہیں۔ یہ سب انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹیز کہلاتی ہیں۔
افریقہ میں لوگوں کو تعلیم سے بے انتہا دلچسپی ہے۔ پسماندہ براعظم ہونے کے باوجود خواندگی کا تناسب اکثر ممالک میں ساٹھ فیصد یا اس سے بھی اوپر ہے‘ گو کہ چند ممالک اس معاملے میں استثنا کا درجہ رکھتے ہیں۔ یوگنڈا‘ کینیا‘ تنزانیہ میں خواندگی کا تناسب ستر اور اسی فیصد کے درمیان ہے جبکہ اپنے پیارے پاکستان میں یہ 62 فیصد ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved