گنگا رام کون تھا اور جدید لاہور کی صورت گری میں اس کا کیا کردار تھا؟ اس سوال کا جواب اتنا مشکل نہیں۔ لاہور کی چند خوبصورت عمارتیں‘ جو جدید لاہور کی پہچان ہیں‘ میں سے بیشتر سر گنگا رام کے دستِ ہنر کا اعجاز ہیں۔ جدید لاہور کی صورت گری کے ساتھ ساتھ گنگا رام نے لاہور میں بہت سے اہم فلاحی اداروں کا آغاز کیا۔ گنگا رام کون تھا؟ اُس کے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی؟ کیا وہ خاندانی طور پر امیر آدمی تھا؟ اُس نے کامیابیوں کا سفر کیسے طے کیا؟ یہ عزم‘ ہمت‘ حوصلے‘ محنت اور لگن کی ایک لازوال کہانی ہے۔ اس کہانی کی تفصیل ایک نایاب کتاب Harvest from the desert: the life and work of Sir Ganga Ram میں ملتی ہے۔ یہ کتاب 1940ء میں شائع ہوئی اور اس کے مصنف کا نام بابا پیارے لال بیدی تھا جو بی پی ایل بیدی کے نام سے مشہور تھا اور جس کے بیٹے کبیر بیدی نے اداکاری کی دنیا میں نام کمایا۔
گنگا رام کی پیدائش مانگٹانوالا میں ہوئی‘ جو لاہور سے 66 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ گنگا رام کے والد دولت رام پولیس کے محکمے میں سب انسپکٹر تھے۔ گنگا رام کی پیدائش کے کچھ عرصے بعد ہی دولت رام امرتسر چلے گئے جہاں انہوں نے ایک عدالت میں کاپی رائٹر کے طور پر کام شروع کر دیا۔ گنگا رام کو ایک مقامی سکول میں داخل کرا دیا گیا جہاں سے اس نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ دولت رام اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتے تھے۔ ان کی نگاہِ انتخاب گورنمنٹ کالج لاہور پر ٹھہری۔ اُس زمانے میں لاہور کے گورنمنٹ کالج کا وہی مقام تھا جو انگلینڈ میں آکسفورڈ یونیورسٹی کا تھا۔ وہ 1869ء کا سال تھا جب گنگا رام نے گورنمنٹ کالج لاہور کی فضاؤں میں قدم رکھا۔ کالج میں اس کا قیام دو سال کا تھا۔ اس دوران اس نے آرٹ اور سائنس کی تعلیم حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج کی تربیت نے گنگا رام کی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا۔ کالج میں باقاعدہ منعقد ہونے والی سرگرمیوں نے اس میں مقابلے کی اُمنگ جگائی۔ گورنمنٹ کالج سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد گنگا رام کی نگاہیں کامیابی کے نئے آسمان تلاش کرنے لگیں۔ اسے زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑا۔ جلد ہی اسے ایک روشن منزل کا بلاوا آ گیا۔ ایک روز اسے خبر ملی کہ اسے انجینئرنگ کی تعلیم کے لیے معروف تعلیمی ادارے ٹامسن کالج آف سول انجینئرنگ روڑکی میں سکالرشپ مل گیا ہے۔ٹامسن کالج سول انجینئرنگ کا ایک نامور ادارہ تھا‘ یہاں اس کا قیام 1871ء سے 1873ء تک رہا۔
انجینئرنگ کے اس ممتاز ادارے میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اب وہ اپنی صلاحیتوں کو عملی میدان میں آزمانا چاہتا تھا۔ جلد ہی اسے PWD میں ملازمت مل گئی۔ اس نے کچھ عرصہ یہاں کام کیا لیکن یہاں پر اس کے کام کا کینوس بہت محدود تھا۔ اسے تو اپنے ہنر کو آزمانے کے لیے وسیع آسمان چاہیے تھا۔ تب اس نے ایک بڑا فیصلہ کیا۔ 1873ء میں گنگا رام نے حکومت سے لیز پر 50 ہزار ایکڑ زمین لے لی۔ یہ منٹگمری کے علاقے کی بنجر زمین تھی۔ گنگا رام نے اس زمین پر ایک ہائیڈرولک پلانٹ لگایا اور بنجر زمین کو سیراب کرنا شروع کر دیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے منظر بدلنے لگا۔ تین سال بعد اسی بنجر زمین پر سرسبز کھیت لہلہا رہے تھے۔ اس پروجیکٹ کی کامیابی سے اس کے مالی وسائل میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ اس نے سوچا کہ اس قدر دولت کا بہترین مصرف کیا ہونا چاہیے؟ تب اس کے ذہن میں اپنی دولت کو فلاحی کاموں پر صرف کرنے کا خیال آیا۔
پھر اس کی زندگی میں ایک نیا موڑ آیا جب اُسے لاہور میں پہلے اسسٹنٹ انجینئر اور بعد میں ایگزیکٹو انجینئر کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا۔ یہ 1885ء سے 1907ء تک کا دورانیہ تھا۔ گنگا رام اپنے تخلیقی ڈیزائنوں‘ڈیزائن کی تفصیلات اور پروجیکٹ مینجمنٹ کے لیے جانے جاتے تھے۔ لاہور وہی شہر تھا جہاں گورنمنٹ کالج میں ان کی زندگی کے بہترین دن گزرے تھے۔ اب لاہور کے خوابوں میں رنگ بھرنے کا وقت آگیا تھا۔ کسی بھی شہر کا چہرہ اس کی عمارتیں ہوتی ہیں۔ سر گنگا رام نے لاہور کا چہرا سجانے کا کام شروع کر دیا۔ آج جدید لاہور کی عمارتیں دیکھیں تو ان میں گنگا رام کے خوابوں کے رنگ نظر آتے ہیں۔ ان عمارتوں میں لاہور ہائیکورٹ‘ گنگا رام ہسپتال‘ میو کالج آف آرٹس (موجودہ NCA) اور لاہور میوزیم شامل ہیں۔ گنگا رام کا یہ دور لاہور کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ لاہور کے علاوہ اس نے پٹیالا کی ریاست میں بھی بطور سٹیٹ انجینئر اور سپرنٹنڈنٹ آف پبلک ورکس کے طور پر کام کیا۔ اس دوران گنگا رام نے وہاں سڑکیں اور پل بنائے اور چند خوبصورت عمارتوں کی تعمیر پر کام کیا جن میں موتی باغ پیلس‘ سیکرٹریٹ بلڈنگ دہلی‘ وکٹوریہ گرلز سکول‘ عدالتیں اور پولیس سٹیشن شامل ہیں۔
گنگا رام کا ایک اور یادگار پروجیکٹ گنگاپور کا قیام تھا۔ یہ کئی سو ایکڑ پر مشتمل بنجر زمین تھی جسے گنگا رام نے آبپاشی کے جدید طریقوں سے سرسبز و شاداب بنا دیا۔ گنگا پور گاؤں تک وسائل کی فراہمی کے لیے اس کے تخلیقی ذہن نے ایک انوکھا طریقہ اپنایا۔ ریلو ے سٹیشن بوچیاں سے گنگاپور کا فاصلہ تقریباً دو میل کا تھا۔ گنگا رام نے ریلوے سٹیشن سے گنگا پور تک پٹڑی بچھائی جس پر ٹرین کی بوگی کو گھوڑے کھینچتے تھے اور یوں ضروری مشینری کو گاؤں تک ٹرانسپورٹ کیا جاتا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد بھی کئی برس تک اس پٹڑی پر مسافر آتے جاتے رہے۔
گنگارام کو اس کی خدمات کے عوض بہت سے اعزازات ملے۔ اسے 'رائے بہادر‘ اور 'سر‘کے خطاب کے علاوہ آرڈر آف انڈین ایمپائر اور رائل وکٹورین آرڈر بھی دیا گیا۔ سر گنگا رام ایک طویل اور بامقصد زندگی گزارنے کے بعد 10جولائی 1929ء میں لندن میں انتقال کر گیا۔ وصیت کے مطابق اس کی چِتا کی راکھ کا ایک حصہ گنگا میں بہا دیا گیا۔ راکھ کا دوسرا حصہ لاہور میں راوی کے کنارے دفنا دیا گیا اور اسی مقام پر اس کی سمادھی تعمیر کی گئی۔ سر گنگا رام کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے لاہور کی ایک شاہراہ پر گنگا رام کا ایک مجسمہ نصب کیا گیا۔ یہ اُس شخص کی خدمات کا اعتراف تھا جو ایک ذہین تخلیق کار‘ ماہرِ تعمیرات‘ اصلاح کار اور انسان دوست شخصیت تھا۔
ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ہوتے ہی ہر طرف فسادات کی آگ بھڑک اُٹھی۔ لاہور میں فسادات کی آگ کی ابتدا کچھ علاقوں سے ہوئی اور پھر یہ آگ ہر طرف پھیل گئی۔ سرحد کے دونوں جانب سے لوگ ہجرت کر رہے تھے۔ لاہور سے بڑی تعداد میں ہندو اور سکھ سرحد پار چلے گئے تھے۔ ان میں سر گنگا رام کا خاندان بھی شامل تھا۔ لیکن گنگا رام کا مجسمہ مال روڈ پر ابھی تک باقی تھا۔ انہی دنوں کے پس منظر میں اردو کے معروف افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے اپنی کتاب ''سیاہ حاشیے‘‘ میں تقسیم کے دنوں کے مختصر افسانے لکھے ہیں۔ اُن میں سے ایک کا عنوان ''جوتا‘‘ ہے جو سر گنگا رام کے مجسمے پر بلوائیوں کے حملے سے متعلق ہے۔ ''ہجوم نے رُخ بدلا اور سر گنگا رام کے بت پر پل پڑا۔ لاٹھیاں برسائی گئیں‘ اینٹیں اور پتھر پھینکے گئے۔ ایک نے منہ پر تارکول ڈال دیا۔ دوسرے نے بہت سے پرانے جوتے جمع کیے اور ان کا ہار بنا کر بت کے گلے میں ڈالنے کے لیے آگے بڑھا مگر پولیس آگئی اور گولیاں چلنا شروع ہوئیں۔ جوتوں کا ہار پہنانے والا زخمی ہو گیا چنانچہ مرہم پٹی کے لیے اسے سرگنگارام ہسپتال بھیج دیا گیا‘‘۔ اس تحریر میں منٹو کی تحریر کی روایتی کاٹ اور تعصب کی کوکھ سے جنم لینے والی منافقت پر گہرا طنز ہے۔ منٹو کی یہ تحریر سر گنگا رام کی ان خدمات کا اعتراف بھی ہے جن کا فیض ابھی تک لوگوں کی زندگیوں میں جاری و ساری ہے۔ سچ کہتے ہیں کہ نیکی اور روشنی کے سفر کا کوئی اَنت‘ کوئی کنارہ نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved