تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     11-12-2024

جامعہ پنجاب میں فہم قرآن کی تقریب

پنجاب یونیورسٹی پاکستان کا ایک نمایاں تعلیمی ادارہ ہے جس میں سائنس‘ سوشل سائنسز‘ انجینئرنگ اور آرٹس کے بہت سے مضامین میں بیچلرز اور ماسٹرز ڈگری کے حصول کیلئے ملک بھر سے طلبہ داخلہ لیتے ہیں۔ جامعہ پنجاب میں داخل ہونے والے طلبہ اپنے آپ کو اس اعتبار سے خوش نصیب سمجھتے ہیں کہ وہ ایک ایسی درسگاہ میں داخل ہوتے ہیں جس کا ایک تاریخی اور علمی پس منظر ہے۔ بہت سی نمایاں شخصیات نے جامعہ پنجاب سے تعلیم حاصل کی اور دنیا بھر میں اپنے شعبے میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ میری بھی جامعہ پنجاب سے گہری وابستگی ہے کہ میں نے یہاں سے بہت سے مضامین میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی اور اس وقت بھی ڈاکٹریٹ کے آخری مراحل میں یہاں زیرِ تعلیم ہوں۔ جب میں جامعہ پنجاب میں ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رہا تھا‘ اس وقت جمعیت طلبہ کے ساتھی مختلف ڈیپارٹمنٹس میں میرے پروگراموں کا اہتمام کیا کرتے تھے اور جامعہ سے فراغت کے بعد بھی گاہے گاہے مجھے پنجاب یونیورسٹی میں حاضری کا موقع میسر آتا رہتا ہے۔ ہر سال طلبہ مختلف عناوین پر مجھے لیکچر دینے کیلئے دعوت دیتے ہیں اورطالب علموں کے پاس جاکر زمانۂ طالب علمی کی بہت سی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔ علم حاصل کرنے کیلئے جہاں مطالعہ اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے وہیں اہلِ علم کی مجالس میں شرکت کرنے سے بھی انسان کے علم میں اضافہ ہوتا ہے؛ چنانچہ اپنے زمانۂ طالب علمی میں مختلف علوم وفنون کے ماہرین کی آمد پر میں ہر صورت ان کے لیکچرز میں شامل ہونے کی کوشش کرتا تاکہ علم‘ آگہی اور شعور کی منازل کو طے کیا جا سکے۔
جمعیت کے دوست احباب ہر سال تین روزہ فہم قرآن کلاس کا انعقاد کرتے ہیں‘ جس میں ملک بھرسے ممتاز اہلِ علم شرکت کرتے ہیں۔ اس سال ایک مرتبہ پھر یونیورسٹی کے دوست احباب نے مجھے فہم قرآن کلاس میں شرکت کی دعوت دی۔ 4 دسمبر کو عشا کی نماز کے بعد شروع ہونے والی اس علمی مجلس میں شرکت کیلئے میں پنجاب یونیورسٹی پہنچا تو جمعیت کے دوست‘ ساتھی بڑی تعداد میں موجود تھے جنہوں نے نہایت گرم جوشی سے میرا استقبال کیا۔ فہم قرآن کلاس کیلئے جامعہ کے سپورٹس گرائونڈ میں ایک بڑی مارکی نصب کی گئی تھی۔ فہم قرآن کلاس میں ہر سال مختلف عناوین کو چنا جاتا ہے‘ اس سال میں نے طلبہ کے سامنے نبی کریمﷺ کی ذاتِ مبارک کے حوالے سے مسلمانوں پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں‘ ان کی مناسبت سے اپنی گزارشات رکھیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
(1) آپﷺ کی عظمت کا اعتراف: مسلمانوں کو نبی کریمﷺ کی عظمت کا تہِ دل سے معترف ہونا چاہیے اور ان کا یہ نقطہ نظر ہونا چاہیے کہ نبی کریمﷺ سید البشر اور افضل الخلائق ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میںصلحا‘ شہدا‘ صدیقین اور انبیاء کرام کا ذکر کیا اور اس کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے صاحبِ شریعت رسل اللہ کا ذکر کیا اور ان میں سے بعض رسولوں کی دوسروں پر فضیلت کا ذکر کیا۔ کتاب وسنت کے دلائل سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ جمیع کائنات میں سب سے افضل اور ممتاز ترین ہستی ہیں۔ اس لیے کہ آپﷺ کی رسالت ''عالمگیر رسالت‘‘ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ سبا کی آیت: 28 میں ارشاد فرماتے ہیں ''ہم نے آپ کو تمام لوگوں کیلئے خوشخبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس بات کو بھی واضح کیا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس پر نبوت ورسالت کو تمام فرما دیا اور اب آپﷺ کے بعد کسی نبی کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الاحزاب کی آیت: 40 میں ارشاد فرماتے ہیں ''(لوگو) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمد نہیں لیکن آپ اللہ کے رسول ہیں اورسلسلۂ نبوت کی تکمیل کرنے والے ہیں‘‘۔(2) آپﷺ سے والہانہ محبت: نبی کریمﷺ سے ہر مسلم اور ہر مومن کو والہانہ محبت ہونی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ التوبہ میں اپنی محبت‘ اپنے رسول کی محبت اور جہاد فی سبیل اللہ کی محبت کو ہر محبت پر فوقیت دینے کی تلقین کی اور جو ایسا نہیں کرتا اس کیلئے وعید سنائی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ التوبہ کی آیت: 24 میں ارشاد فرماتے ہیں ''آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں‘ تو تم انتظار کرو کہ اللہ اپنا عذاب لے آئے اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔ احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس سے ہر چیز سے بڑھ کے محبت نہیں کرتا۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ بیشک رسول کریمﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ تم میں سے کوئی بھی ایمان دار نہ ہو گا جب تک میں اس کے والد اور اولاد سے بھی زیادہ اس کا محبوب نہ بن جائوں۔(3) آپﷺ کی اطاعت اور اتباع: نبی کریمﷺ کی اتباع ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے اور جو شخص آپﷺ کی اتباع کرتا ہے وہ اللہ کی محبت کا حقدار بن جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ آل عمران کی آیت: 31 میں ارشاد فرماتے ہیں ''کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اطاعت کرو‘ خود اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا‘‘۔ جو شخص نبی کریمﷺ کی اطاعت کرتا ہے وہ درحقیقت اللہ کی اطاعت کرتا ہے۔ اس حقیقت کو سورۃ النساء کی آیت: 80 میں کچھ یوں بیان کیا گیا ہے کہ ''جس نے رسول کی اطاعت کی‘ درحقیقت اس نے اللہ کی اطاعت کی‘‘۔
(4) آپﷺ پر درود وسلام بھیجنا: والدین ہمارے محسن ہیں اور قرآن مجید میں ان کیلئے دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ والدین سے کہیں بڑھ کرنبی کریمﷺ کے احسانات ہم پر ہیں۔ جو شخص آپﷺ کی ذاتِ اقدس پر درود بھیجتا ہے‘ اللہ اُس پر رحمتوں کا نزول فرماتا ہے۔ مسند احمد میں حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھے گا اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا اور اس کے دس گناہ معاف فرمائے گا۔(5) آپﷺ کی تعریف وتحسین کرنا: اہلِ ایمان کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ آپﷺ کی توقیر‘ تعظیم اور تحسین کریں۔ حضرت حسان بن ثابتؓ نبی کریمﷺ کے دفاع کیلئے اشعار کہتے تو آپﷺ ان کیلئے دعا کیا کرتے تھے۔اس حوالے سے صحیح بخاری میں براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے غزوہ بنو قریظہ کے موقع پر حسان بن ثابتؓ سے فرمایا کہ مشرکین کی ہجو کرو‘ جبریل تمہاری مدد پر (مقرر) ہیں۔(6) آپﷺ کی ناموس کا دفاع: مسلمانوںکی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ جو شخص نبی کریمﷺ کی شان میں توہین یا اہانت کا ارتکاب کرے‘ اس شخص کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے اپنے جملہ ذرائع اور وسائل کو استعمال کریں۔ الحمدللہ پاکستان کا قانون 295C نبی کریمﷺ کی ناموس کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ چنانچہ توہین کا ارتکاب کرنے والے کسی بھی شخص کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکتا ہے۔(7) نظامِ مصطفی کے غلبے کی کوشش: نبی کریمﷺ ایک نظام لے کر آئے جس نے زندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی کامل رہنمائی کی اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کی حیاتِ مبارکہ ہی میں اس دین کو باقی ادیان پرغالب کر دیا۔ نبی کریمﷺ کے دین کو باقی ادیان پہ غالب کرنے کیلئے بھرپور اندازسے جستجو کرنا تمام اہلِ ایمان کی ذمہ داری ہے۔
اس موقع پر تمام شرکاء نے بڑی توجہ کے ساتھ اس خطاب کو سنا اور یہ تقریب اپنے جلو میں بہت سی خوبصورت یادوں کو لیے اختتام پذیر ہوئی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved