تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     12-12-2024

کیا پاکستان واقعی ایک زرعی ملک ہے؟

آرتھرائٹس کی وجہ سے اس مسافر کے گھٹنوں کا برا حال ہے۔ ڈاکٹر حیدر قیصرانی میرے گھٹنوں کے ایکسرے کو دیکھ کر حیرانی سے پوچھتے ہیں کہ آپ اس حالت میں اتنا چل کیسے لیتے ہیں؟ میں الٹا ان سے سوال کرتا ہوں کہ آپ ڈاکٹر ہیں‘ آپ کو مجھ سے زیادہ علم ہونا چاہیے کہ میں ان خراب گھٹنوں کے ساتھ اتنا کیسے چل لیتا ہوں لیکن میرے گھٹنوں سے بھی کہیں زیادہ خراب حالت اس وقت کاشتکار کی ہے۔ سال 2024ء جتنا کاشتکار کیلئے خراب اور مشکل رہا‘ اس کی مثال نہیں ملتی۔ آصف نے جب یہ کہا کہ اس نے اپنی ہوش میں زراعت کیلئے اس سے زیادہ بُرا سال نہیں دیکھا تو ڈاکٹر بندیشہ نے کہا کہ 1983ء کا سال اس سے بھی زیادہ برا تھا۔ آصف ہنس کر کہنے لگا: ڈاکٹر صاحب میں نے اپنے ہوش کے زمانے کی بات کی ہے۔ آپ کے ہوش سنبھالنے والے سن و سال کا ذکر نہیں کیا۔
کاشتکاری شاید سب سے مشکل‘ سب سے زیادہ بے اعتبار اور خطرات سے بھرا ہوا پیشہ ہے۔ مشکل اس طرح کہ کوئی وقت نہیں جب کاشتکار سکھ کا سانس لیتا ہو۔ بروقت کاشت شروع کرنی ہے۔ دیر کر دی تو فصل کی پیداوار پر منفی اثر پڑے گا۔ زمین کی تیاری اور پھر کاشت کا آغاز کرنا ہے۔ بھلا کاشت کہاں آسان ہے؟ پانی کا بندوبست کرنا ہے۔ اگر اپنا ٹریکٹر نہیں تو کرائے پر لینا ہے‘ بیج کا بندوبست کرنا ہے‘ کھیلیں بنانی ہیں‘ وَتر لگانا ہے‘ کاشت شروع کرنی ہے‘ کھاد کا اہتمام کرنا ہے۔ جیب میں رقم نہیں تو ادھار کا انتظام کرنا ہے۔ جڑی بوٹیاں مارنی ہیں‘ کیڑوں کا حملہ مانیٹر کرنے کی غرض سے پیسٹ سکاؤٹنگ کرنی ہے۔ زرعی ادویات خریدنی ہیں۔ بروقت سپرے کرنا ہے وگرنہ ساری محنت اور پیسہ برباد ہو جائے گا۔ گوڈی کرنی ہے‘ فصل کاٹنی ہے اور پھر آڑھتی سے لے کر مل والے تک نے اس کا استحصال کرتے ہوئے اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا ہے۔
بے اعتبار اس طرح کہ ابھی کاشت سے فارغ ہوا کہ بارش آ گئی۔ ساری کاشت ضائع چلی گئی۔ دوبارہ سے ہل چلایا‘ بیج ڈالا اور پھر قدرت پر بھروسا کرکے بیٹھ گیا۔ خرچہ ڈبل ہو گیا اور پچھیتی کاشت کی وجہ سے فصل کی پیداوار بھی کم ہو گئی۔ فصل تیار تھی کہ طوفانِ بادوباراں آ گیا۔ ساری فصل ڈھے گئی۔ علاقہ بارانی ہے تو سارا دارومدار بارش پر ہے۔ بارش نہیں ہوئی یا بروقت نہیں ہوئی تو سب کچھ ملیا میٹ ہو گیا۔ ژالہ باری ہو گئی تو سب کچھ تباہ ہو گیا۔ فصل کٹنے کے بعد بارش ہو گئی تو سنبھالنے کی جگہ نہیں ہے۔ نہ کوئی گارنٹی ہے اور نہ کوئی انشورنس‘ سارے کا سارا کام اللہ توکل ہے۔ نقصان ہو گیا تو کوئی ازالہ نہیں ہے۔
خطرہ ابھی ٹلا نہیں۔ قدرتی عوامل ٹھیک رہے۔ محنت بھرپور رہی‘ زرعی مداخل بہترین ڈالے‘ فصل بمپر ہو گئی‘ مارکیٹ میں آئی تو ٹکے ٹوکری ہو گئی۔ آڑھتی‘ مل مالک اور خریدار نے بھرپور فصل دیکھ کر خرید سے ہاتھ کھینچ لیا۔ سٹور کرنے کی نہ کوئی جگہ ہے اور نہ ہی کوئی بندوبست۔ کاشت سے فصل کی تیاری تک بیج‘ کھاد‘ زرعی ادویات والوں سے فصل پر ادائیگی کے وعدے پر سب ادھار پر لیا تھا۔ وہ سر پر آن کھڑے ہیں۔ گزشتہ ادھار اتارنے کے علاوہ اگلی فصل کی کاشت سر پر آن کھڑی ہے۔ اس کا سارا بندوبست کرنا ہے۔ وہ کم قیمت پر فصل فروخت کرنے پر مجبور ہے۔ اب اگلی فصل کے ساتھ کیا ہوتا ہے یہ بھی اتنا ہی غیریقینی اور خطرے سے بھرا ہوا ہے جتنا وہ بھگتا کر فارغ ہوا ہے۔
گزشتہ گندم کی فصل کے ساتھ جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ سرکار نے 3900روپے من قیمت خرید مقرر تو کردی مگر خود خریداری کیلئے میدان میں نہ آئی۔ میدان خالی تھا اور فصل بھرپور تھی۔ فصل بھرپور اس لیے تھی کہ اچھا ریٹ دیکھ کر کاشتکار نے گندم کی فصل پر نہ صرف بھرپور محنت کی بلکہ زرعی مداخل بھی دل کھول کر ڈالے۔ چودہ ہزار روپے فی بوری پر بلیک میں ڈی اے پی خریدی اور اپنی فصل میں ڈالی۔ امید تھی کہ فصل بھرپور ہوگی تو اچھے ریٹ کی وجہ سے چار پیسے بچ جائیں گے لیکن سارے خواب چکنا چور ہو گئے۔ حکومت نے گندم کی خریداری سے ہاتھ کھینچ لیا۔ منڈی میں گندم کے ڈھیر لگ گئے۔ کھیتوں میں پڑی گندم خراب ہونے لگ گئی۔ مجبوراً آڑھتی اور فلور ملز کے استحصال سے بھرپور ریٹ پر گندم فروخت کرنا پڑ گئی۔ ریٹ گر کر تین ہزار سے بھی نیچے تک آ گیا۔ کہاں 3900روپے من کی توقع تھی اور کہاں 2800سے 3200روپے فی من تک فروخت کرنا پڑ گئی۔ الٹا پلے سے پیسے دینے پڑے۔ پھر توقع تھی کہ چلیں یہ نہ سہی‘ اگلی فصل سے کچھ نفع ہو جائے گا لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ مکئی کی فصل کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ مکئی کی فصل کا خرچہ لگ بھگ ایک لاکھ 40ہزار روپے فی ایکڑ ہے اور ریٹ نکلا 1700روپے فی من۔ اگر بھرپور فصل 1100من ہوئی تو آمدنی ایک لاکھ 87ہزار روپے ہوئی۔ اس میں زمین کا ٹھیکہ شامل نہیں۔ جس نے ٹھیکے پر زمین لی تھی اسے پلے سے پیسے پڑ گئے۔
یہ دنیا کا شاید واحد کاروبار ہے جس میں مارکیٹ پر فروخت کنندہ کا رتی برابر نہ اختیار ہے اور نہ ہی کنٹرول۔ ساری مارکیٹ کو خریدار کنٹرول کرتا ہے۔ فصل زیادہ ہو گئی تو ٹکے ٹوکری ہو گئی۔ کم ہونے کی وجہ سے ریٹ زیادہ ہوا تو مل مالکان نے اپنی مطلوبہ جنس باہر سے درآمد کر لی۔ ملک کا زر مبادلہ اور کاشتکار‘ دونوں گئے بھاڑ میں۔ مل مالک نے بھرپور منافع کما لیا اور کاشتکار پھر رُل گیا۔
مجھے سب کچھ اس لیے یاد آ گیا ہے کہ آج نیٹ پر اخبار پڑھتے ہوئے ایک خبر نظر سے گزری کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی ایک اور شرط منظور کرتے ہوئے گندم کی امدادی قیمت مقرر کرنے کی پالیسی ترک کردی ہے۔ یعنی اب گندم کے کاشتکار سے گندم خریدنے کیلئے کم از کم قیمت مقرر نہیں کی جائے گی اور سارا معاملہ اوپن مارکیٹ پر چھوڑ دیا جائے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ آڑھتی اور مل مالکان پر مشتمل مافیا نے فصل بھرپور ہونے پر خریداری میں سستی کے ذریعے یا خریداری روک کر کاشتکار کو اپنی مرضی کے مطابق ریٹ دے کر اس کا استحصال کیا اور فصل کم ہونے کی صورت میں باہر سے مال درآمد کرکے مقامی کاشتکار کی کمر توڑ دی۔ اگر کبھی قسمت سے کاشتکار کو اس کی فصل کا اچھا ریٹ مل گیا تو مل مالکان نے اپنی جنس کی قیمت بڑھا کر منافع میں اپنے ہاتھ رنگ لیے۔ یعنی چٹ بھی میرا اور پٹ بھی میرا۔
اس وقت ملک کی زراعت کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ اچھے بیجوں کا ہے۔ دنیا بھر میں زرعی سائنسدان ایسے ایسے محیر العقول کارنامے سرانجام دے رہے ہیں کہ بندہ دنگ رہ جائے جبکہ ہمارے ہاں زرعی سائنسدانوں نے چوری کے غیرملکی میٹریل سے جو بیج تیار کرکے بلیک میں بیچ کر اندھا نفع کمایا وہ مقامی زمین اور موسم سے تال میل نہ رکھنے کی وجہ سے یا تو نقصان دہ ثابت ہوئے یا ان کی لائف اتنی مختصر اور ناپائیدار ثابت ہوئی کہ وہ اپنی جگہ ہی نہ بنا سکے۔ موسمیاتی تبدیلی‘ زمین میں نامیاتی مادوں کی کمی‘ پانی کا مسئلہ اور فصلوں کا لمبا دورانیہ وہ مسائل ہیں جن کو حل کرتے ہوئے ان کے مطابق بیجوں کی تیاری عمل میں نہ لائی گئی تو اگلے چند سالوں میں غذائی قلت قحط کی صورت اختیار کر سکتی ہے مگر حکومت کو اپنی کرسی اور اقتدار کو دوام دینے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں۔ اس معاملے میں ویسے تو گزشتہ ستر سال سے ہی ایک نہ ختم ہونے والا ڈرامہ چل رہا ہے لیکن گزشتہ ایک عشرے سے تو حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے بال نوچنے اور اقتدار کے ملاکھڑے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر رہی۔ اللہ جانے یہ سلسلہ کہاں جا کر ٹھہرے گا اور ہم کس روز ملکی اور قومی مسائل پر حقیقی توجہ دینا شروع کریں گے؟ ہم بچپن سے پڑھ اور سن رہے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ کیا زرعی ملک واقعی ایسے ہوتے ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved