تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     13-12-2024

ایک سیاسی جنرل

جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف چارج شیٹ نے ایک دفعہ تو سب کو حیران و پریشان کر دیا ہے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو بھی اتنے بڑے مقدمے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ چند ریٹائرڈ افسران اکثر نجی محفلوں میں یہ کہتے تھے کہ اس لیول پر کبھی کارروائی نہیں ہوگی کیونکہ اس سے ایک نئی روایت قائم ہو جائے گی اور آنے والے برسوں میں پھر ہر دوسرے فوجی افسر کا کورٹ مارشل ہونا شروع ہو جائے گا۔ لیکن لگتا ہے کہ موجودہ عسکری قیادت اس دباؤ کا شکار نہیں ہوئی کہ کل کلاں کو اس روایت کا سہارا لے کر کارروائیاں ہوں گی۔
سوال یہ ہے کہ فیض حمید اُس ریڈ لائن کو کیسے کراس کر گئے جس کے بارے میں وہ جانتے تھے کہ اس سے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ شاید فیض حمید کو یہ لگتا تھا کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے‘ لہٰذا وہ بدلے کے چکر میں بہت دور تک نکل گئے۔ اگر آپ اس پورے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کریں تو آپ کو لگے گا کہ جنرل (ر) فیض حمید کے ساتھ جو وعدے کیے گئے تھے وہ پورے نہیں ہوئے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ یہ وعدے کس نے کیے تھے اور وہ کون سے ایسے وعدے تھے جو پورے نہ ہونے کی صورت میں انہوں نے اپنی جان بھی داؤ پر لگا دی تھی؟ ہوا کچھ یوں تھا کہ جنرل باجوہ دراصل جنرل کیانی سکول آف تھاٹ سے تعلق رکھتے تھے اور اُن کے قریب بھی رہے۔ جنرل باجوہ نے پہلے دن سے سوچ رکھا تھا کہ وہ تین سال بعد گھر نہیں جائیں گے۔ ان کے ذہن میں کچھ منصوبے تھے جو وہ تین سال میں پورے نہیں کر سکتے تھے۔ انہیں ان کاموں کے لیے چھ سال درکار تھے لیکن انہیں بہت جلد یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف انہیں مدتِ ملازمت میں توسیع نہیں دیں گے کیونکہ نواز شریف نے کسی بھی جنرل کو مدتِ ملازمت میں توسیع نہیں دی تھی۔ یہیں سے جنرل باجوہ کے ذہن میں عمران خان کا نام اُبھرا۔ اس سارے منصوبے میں جنرل (ر) فیض حمید کا کلیدی کردار بن رہا تھا جن کا جنرل باجوہ سے پرانا خاندانی تعلق تھا۔ یوں عمران خان کو وزیراعظم بنوا کر جنرل باجوہ نے 2019ء میں خان سے مدتِ ملازمت میں توسیع لینے کا منصوبہ بنایا۔ ساتھ ہی جنرل باجوہ کی نومبر 2022ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد فیض حمید کو نیا آرمی چیف بنانے کا منصوبہ بھی تیار کر لیا گیا۔ اس منصوبے میں فیض حمید کو ڈی جی سی سے پروموٹ کرکے ڈی جی آئی ایس آئی لگانا بھی شامل تھا۔ اگست 2018ء میں عمران خان وزیراعظم اور جون 2019ء میں فیض حمید ڈی جی آئی آیس آئی بنے تو جنرل باجوہ کو مدتِ ملازمت میں توسیع مل گئی۔ اب اس پوری ڈیل میں دیکھا جائے تو سب سے بڑا جھٹکا فیض حمید کو لگا کہ جب ان کے آرمی چیف بننے کا وقت آیا تو اس سے پہلے جنرل باجوہ اور ان کی ٹیم عمران خان کو ہٹانے پر تل گئے۔ جنرل باجوہ پر دباؤ تھا کہ وزیراعظم عمران خان تو ابھی سے فیض حمید کو آرمی چیف بنائے بیٹھے ہیں۔ دیگر سینئر افسران جو نومبر 2022ء میں آرمی چیف کی تعیناتی کی فہرست میں شامل تھے‘ وہ بھی اس بات پر اَپ سیٹ تھے کہ ان کے لیے Level playing field نہیں تھا۔ جنرل (ر)فیض حمید کیونکہ وزیراعظم عمران خان کو روز ملتے تھے اور ان کے سیاسی مخالفوں کو فکس کرنے کا کام کررہے تھے لہٰذا وزیراعظم سمجھتے تھے کہ وہ بہترین جنرل ہیں۔ باقی جرنیلوں سے ان کا براہِ راست رابطہ نہ تھا‘ یوں وہ ان کی خوبیوں سے واقف نہ تھے۔ ہر ڈی جی آئی آیس آئی وزیراعظم کے قریب ہو جاتا ہے کیونکہ عہدے کی وجہ سے اسے وزیراعظم کو براہِ راست بہت سارے معاملات پر رپورٹ کرنا ہوتا ہے۔ وزیراعظم ڈی جی آئی سے اکثر سیاسی ایشوز بھی حل کراتا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ خان صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ انہیں تو قومی اسمبلی میں کسی بل پر جب ممبرانِ اسمبلی کے ووٹ کی ضرورت پڑتی تھی تو انہیں ایجنسیوں کی خدمات حاصل ہو جاتی تھیں۔
جنرل (ر) فیض حمید نے عمران خان کے کہنے پر سیاسی مخالفین اور میڈیا اینکرز اور مالکان تک‘ سب کو فکس کر دیا تھا۔ اُس وقت اگر ٹویٹر پر عمران خان کے خلاف کوئی ٹویٹ ہوتا تھا تو بھی فیض حمید کی ٹیم کو کہا جاتا کہ وہ فون کرکے ٹویٹ ڈیلیٹ کرائیں۔ وزیراعظم آفس میں عمران خان کی سوشل میڈیا ٹیم یہ کام کراتی تھی۔ سکرین شاٹس بھیجے جاتے تھے‘ دھمکی آمیز فون کیے جاتے تھے۔ اگر کچھ صحافی آگے سے مزاحمت کرتے تھے تو ان کے مالکان کو کہا جاتا تھا کہ وہ اسے کہیں کہ ٹویٹ ڈیلیٹ کرے یا خود کو نوکری سے فارغ سمجھے۔
فیض حمید نے جو چسکا عمران خان کو لگا دیا تھا اس کے بعد وہ کسی اور کو چیف بنانے کا سوچ ہی نہیں سکتے تھے۔ فیض حمید ان لوگوں میں سے تھے جو ہمیشہ 'یس باس‘ کہتے ہیں۔ باس کے منہ سے جو بھی لفظ نکلے‘ فوراً اس پر عمل کرنا ہے۔ باس کو انکار نہیں کرنا‘ نہ ہی اسے قانون قاعدہ سمجھانے کے چکر میں پڑنا ہے۔ بس کام کر کے اس کی رپورٹ دینی ہے۔ اس سلسلے میں اگر کوئی دوسرا نام ذہن میں آتا ہے تو وہ مرحوم رحمن ملک تھے۔ وہ بھی اس لیے اپنے سیاسی باسز میں مشہور تھے کہ وہ Go Getters تھے جو اوپر سے کسی فون پر کہے گئے کام سے انکار نہیں کرتے تھے۔ ایسے افسران سیاسی حکمرانوں کو بہت اچھے لگتے ہیں جو ایک فون پر کام کرکے انہیں رپورٹ کریں‘ بہانے نہ تلاش کریں۔ اس لیے فیض حمید ہوں یا رحمن ملک مرحوم‘ انہوں نے خوب ترقی کی اور اپنے باس کے قریب رہے۔ ان کا اعتماد حاصل کیا اور جب بھی ان کے باس کو موقع ملا انہوں نے اِنہیں نئے عہدے پر ترقی دی۔ فیض حمید ڈی جی سی سے ڈی جی بنے اور پھر انہوں نے آرمی چیف لگنا تھا۔ رحمن ملک بھی ایف آئی اے کے ایک افسر سے ترقی کرتے کرتے ایک دن اُس ایف آئی اے کے اوپر وزیر داخلہ لگے اور وہ ایک طاقتور وزیر داخلہ سمجھے جاتے تھے۔ لیکن ان کے ساتھ بھی وہی فیض حمید والی ٹریجڈی ہوئی کیونکہ آخری دنوں میں وہ زرداری صاحب کا اعتماد کسی وجہ سے کھو بیٹھے تھے اور انہیں سینیٹ کا ٹکٹ نہ دیا گیا۔ فیض حمید بھی اپنے باس جنرل باجوہ کا اعتماد کھو بیٹھے اور آرمی چیف نہ بن سکے۔
فیض حمید تو نواز شریف کے وزیراعظم ہوتے ہوئے عمران خان کے بہت قریب آچکے تھے۔ وہ تو جہانگیر ترین کے کرائے پر لیے گئے ایک خفیہ گھر میں عمران خان سے چالیس ملاقاتیں تک کر چکے تھے۔ ان خفیہ ملاقاتوں کے لیے ہی جہانگیر ترین نے وہ گھر کرائے پر اسلام آباد میں لیا تھا جس کا کسی کو علم نہ تھا۔ نواز شریف کے وزیراعظم ہاؤس میں آخری دنوں اس گھر میں عمران خان اور جنرل فیض کی خفیہ ملاقاتیں تواتر سے ہونے لگی تھیں۔ جنرل فیض ڈی جی سی ہوتے ہوئے عمران خان کی آنکھوں کا تارا بن چکے تھے۔ ان چالیس سے زائد خفیہ ملاقاتوں میں ہونے والے راز و نیاز نے ہی عمران خان کے لیے وزارتِ عظمیٰ کا راستہ کھولا۔ جنرل باجوہ کو مدتِ ملازمت میں توسیع ملی لیکن اس سارے کھیل کا مرکزی کردار فیض حمید تھے جنہوں نے یہ سب کچھ ممکن کر دکھایا تھا‘ انہیں کیا ملا؟ ان کے ساتھ دھوکا ہوا۔ اس ڈیل کے تین کرداروں میں سے جنرل باجوہ اور عمران خان تو اپنا حصہ لے چکے تھے لیکن جنرل فیض کے ساتھ ہاتھ ہو گیا۔ اُدھر عمران خان کو بھی لگا کہ جنرل باجوہ نے ان کے ساتھ بھی ہاتھ کیا ہے اور شریفوں اور زرداریوں کے ساتھ مل گئے ہیں۔ یوں جنرل فیض اور عمران خان جنرل باجوہ کے خلاف ہو گئے اور یوں ایک نیا خطرناک کھیل شروع ہوا اور جنرل فیض حمید نے ریٹائرمنٹ کے بعد خاموش زندگی گزارنے کے بجائے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved