طاقت کا نشہ اور تکبر حکمرانوں کے دماغ میں بیٹھ جائے تو اَن گنت انسانی المیے ان کے لیے اپنی بقا کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ طاقت کی بنیاد اگر کسی انقلاب پر ہو تو ایسے حکمران غیرمشروط اطاعت اور وفاداری کے علاوہ کچھ سننا یا دیکھنا نہیں چاہتے۔ ان کی سوچ کے ہر زاویے کو‘ چاہے وہ معاشرے کے لیے تباہ کن کیوں نہ ہو‘ اور اس کے نتیجے میں لاکھوں زندگیاں تباہ کیوں نہ ہو جائیں‘ سچ نہ ماننا اور اس کے سامنے سر تسلیمِ خم نہ کرنا بغاوت اور غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ اپنے ہی لوگوں اور معاشروں کی جتنی تباہی گزشتہ صدی کے انقلابوں اور ان کے بعد بننے والی حکومتوں نے مشرقِ وسطیٰ میں مچائی‘ وہ اس خطے کی تاریخ کا ناقابلِ فراموش سیاہ باب ہے۔ آج عراق‘ شام‘ لیبیا‘ یمن اور لبنان کو دیکھیں۔ غزہ میں نسل کشی‘ جو ایک سال سے زیادہ عرصہ سے پوری دنیا ٹیلی وژن سکرینوں پر دیکھ رہی ہے‘ کے بارے میں سوچنا اور کچھ لکھنا ہمیں تو ڈپریشن میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اسرائیل جو کچھ غزہ میں کر رہا ہے‘ اس سے زیادہ بھیانک نسل کشی بشار الاسد نے اپنے حریفوں کے خلاف بہارِ عرب کی لہر سے پیدا ہونے والی بیداری اور جمہوری تحریک کو کچلنے کے لیے تیرہ سال تک روا رکھی۔ 2012ء کی بہارِ عرب میں نوجوان آگے تھے‘ اور ان کا مطالبہ ایک ہی تھا۔ تیونس سے لے کر شام اور مصر کے بازاروں‘ ریگستانوں اور قصبوں میں حکومت عوام کی منشا کے مطابق بنے اور بنیادی انسانی حقوق سب کو نصیب ہوں۔ مصر اور تیونس نے عوام کے جذبے اور جنوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے‘ مگر شام کے بشار لاسد نے وہی کیا جو اس کے والد حافظ الاسد نے1982ء میں اخوان المسلمین کی تحریک کو کچلنے کے لیے کیا تھا۔ اس تحریک کا گڑھ حماۃ تھا‘ اور اُس سال کے اوائل میں دمشق میں کئی بم دھماکوں اور سرکاری افسروں کی ہلاکت کے واقعات پیش آ چکے تھے۔ صدر نے فوجوں کو شہر کا گھیراؤ کرنے کا حکم دیا کہ کوئی باہر نہ نکل سکے اور تین ہفتوں تک توپوں اور جہازوں سے گولے برسائے جاتے رہے۔ حماۃ اسی طرح ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا جس طرح ہم آج اسرائیل کے ہاتھوں غزہ کو تباہ ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ 20 ہزار لوگ صرف اسی ایک شہر میں جاں بحق ہو گئے۔
شام کی تاریخ اور اس کے معاشرے کی ساخت قدرے پیچیدہ ہے‘ مگر اس طرح لسانی گروہوں کی تقسیم ایران‘ عراق اور لبنان میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد جب سلطنتِ عثمانیہ کے ٹکڑے کرکے اسے دنیائے عرب میں بانٹا اور انہیں نئے ممالک کی شناخت اور حیثیت دی گئی تو اس کارروائی کے ذمہ دار برطانیہ اور فرانس کے دو سفارتی اہلکاروں کے سامنے کوئی منطقی فارمولا نہ تھا۔ ہر نئے ملک میں وفادار عرب قبائل کے سرداروں کو شاہی خلعت پہنا کر مسند نشین کر دیا گیا۔ سب ایک دوسرے کے رشتے دار تھے۔ نوجوان عربوں کے خیالات عرب قومیت کے حوالے سے یکسر مختلف تھے۔ وہ ایک عرب قوم‘ زبان‘ ثقافت اور تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے اتحاد‘ یکجہتی اور تجدید کے فلسفوں پر یقین رکھتے تھے۔ بادشاہت ان کے نزدیک فرسودہ نظام تھا اور نئے زمانوں کے لیے رنگوں سے میل نہیں کھاتا تھا۔ ماضی کی اس یادگار کو دفن کرنے کی تگ و دو کرنے والی بعث تحریک نے ہر طبقے کے نوجوانوں کو متاثر کیا۔ ان میں سے کچھ‘ جو معاشرے کی عام سطح سے اٹھ کر قومی فوج میں افسر مقرر ہوئے تھے‘ نے موقع ملتے ہی بادشاہوں اور پرانی طرز کی حکومتوں کا تختہ الٹ دیا۔ مصر میں سب سے پہلے حرکۃ الضباط الاحرار (فری آفیسرز موومنٹ) نے 1954ء میں شاہ فاروق کا تختہ الٹا اور اقتدار جمال عبدالناصر کے ہاتھ آ گیا۔ اس کے بعد عراق میں 1958ء اور سب سے آخر میں شام اور پھر لیبیا میں۔ عرب قومیت اور اشراکیت جدید تحریک کے بنیادی ستون تھے۔ انقلابی گروہ کچے گھروں‘ دیہاتی علاقوں سے اٹھ کر آئے تھے اور بالا طبقات کے غلبے‘ لوٹ کھسوٹ اور ان کی مغربی ممالک کے ساتھ قربت کے علاوہ فلسطین پر اسرائیلی ریاست کے قیام کے مخالف تھے۔
یہ انقلاب نچلی سطح سے اور عوام کی طاقت سے نہیں‘ اوپر سے اور بندوق کی طاقت سے آئے تھے۔ میرے نزدیک ایسے سب انقلاب جعلی ہوتے ہیں۔ ان کی سوچ روایتی طاقتور حلقوں سے مختلف نہیں ہوتی۔ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ عوام کو حکومت سازی اور اقتدار کی جائزیت قائم کرنے میں حصہ دار بنانے کی ضرورت نہیں کہ انہیں کچھ پتا نہیں۔ یہ کام انقلابیوں کا ہے اور وہ بہتر سمجھتے ہیں کہ ان کے حق میں کیا اچھا ہے اور کیا نہیں۔ بادشاہوں کی بھی تو یہی سوچ تھی۔ یہ جمہوری تبدیلی نہیں تھی۔ انقلابی تبدیلی‘ جو مبہم رہی اور کوئی اس کو سمجھ سکا اور نہ سمجھ سکتا تھا‘ پُراسرار رہی۔ اس کے دو نتائج نکلے؛ ایک تو اقتدار کی اندورنی رسہ کشی نے جنم لیا اور ایک دوسرے کو ٹھکانے لگانے میں توانائیاں صرف ہوتی رہیں‘ اور جب کوئی اقتدار پر بیٹھ گیا تو پھر اسے ملک الموت یا پھر امریکہ اور اس کے علاقائی حلیفوں نے ہی رخصت کیا۔ صدام حسین اور معمر القذافی کیسے گئے‘ آپ کو معلوم ہی ہے۔ ایک پھانسی پر لٹکا‘ اور دوسرے کو لوگوں نے پکڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ شام کے حافظ الاسد نے ایک خاندان کی بادشاہت ختم کر کے اپنے خاندان کی بادشاہت قائم کر لی تھی۔ جب بسترِ مرگ پر تھے تو تین میں سے سب سے بڑے بیٹے کو عرب روایت کے مطابق اپنا جانشین مقرر کر دیا۔ وہ ایک حادثے میں جاں بحق ہوا تو 2000ء میں 34 سالہ بشار الاسد کو باپ کی جگہ تخت نشین کرا دیا گیا۔ شامی مار کھاتے رہے‘ کبھی خاموش‘ کبھی کسی تحریک میں جانبازی دکھاتے اور آزادی کے خواب دیکھتے ہزاروں غائب ہو جاتے اور عقوبت خانوں میں ڈال دیے جاتے۔ انسانی آزادی کی پامالی کوئی انقلاب روا رکھے تو پھر فسطائیت اور مطلق العنانی کس چیز کا نام ہے۔
بشار الاسد نے اپنے ملک کی تباہی اور آبادیوں کی بربادی کی حد کر دی۔ اپنی فوج‘ پولیس‘ خفیہ ایجنسیاں اور عقوبت خانے کافی نہیں پڑ رہے تھے۔ بہارِ عرب کی لہر نے زور پکڑا تو ایران اور لبنان سے لشکر مدد کو آئے۔ وہ بھی آزادی یا بغاوت کو کچلنے میں ناکام رہے تو روسی فضائیہ کے جنگی طیاروں کی مدد لی گئی۔ شام کی پرانی تہذیب کے کھنڈرات سے دہشت گرد تنظیموں نے بھی جنم لیا‘ اور عراق کے شام کے علاقوں تک ان کا تسلط قائم ہو گیا۔ عجیب بات تھی کہ اس انقلابی ملک میں روس‘ ترکی‘ ایران اور امریکہ نے اپنے فوجی اڈے قائم کیے ہوئے تھے۔ وہ سب شام کے کسی ایک فریق یا دشمن کی حکومت کے حامی تھے۔ صرف دو ہفتے پہلے کی بات ہے کہ باغیوں کے حلب شہر پر قبضے کے بعد حماۃ اور حمہ کی طرف پیش قدمی کی خبریں آنے لگیں‘ اور اگلے ہی روز بشار الاسد رات کی تاریکی میں ایک روسی ساخت کے طیارے میں خاندان اور شام کے خزانوں کو ساتھ لے کر ماسکو فرار ہو گیا۔ ہر جعلی انقلاب‘ ہر فسطائی عرب حکمران کا انجام المناک ہی ہوا ہے۔ وہ خود تو گئے‘ اور انہوں نے جانا ہی تھا‘ مگر عرب قومیت‘ بیداری اور حقوق کی تحریکوں کو کچلنے کے لیے جو مظالم انہوں نے ڈھائے‘ تحریر میں لاتے ہوئے قلم لرز اٹھتا ہے۔ شاید شام کے عسکری اور لسانی گروہ وہ کچھ نہ کریں جو ہم نے یمن‘ عراق اور لبنان میں دیکھا ہے۔ ابھی تک تو اقتدار کی منتقلی ایک منظم طریقے سے عمل میں آئی ہے۔ جب فوج‘ جو ریاست کا ستون ہوتی ہے‘ گر گئی اور اس کے اثاثے چند دنوں میں اسرائیل نے کسی رکاوٹ کے بغیر تباہ کر ڈالے تو ہماری نیک خواہشات شامیوں کے ساتھ ہیں اور ہمیں ان کے نئے جذبے پر ہی بھروسا کرنا ہوگا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved