تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     13-12-2024

سقوطِ دمشق : نیا منظر نامہ

دمشق میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی جشن شروع ہو گیا۔ لوگ سڑکوں پر رقصاں نظر آئے۔ ہزاروں کار سوار ہارن بجا بجا کر خوشی کا اظہار کرتے رہے۔ متعدد لوگ حافظ الاسد کے مجسمے گرانے میں مصروف نظر آئے۔ مٹھائیاں بانٹی گئیں۔ مساجد سے لاؤڈ سپیکر کے ذریعے تکبیر کے نعرے لگائے گئے۔ بات سمجھ آ رہی تھی۔ نصف صدی سے زائد عرصے سے قائم خاندانی آمریت ختم ہو رہی تھی۔ دمشق تاریخی لحاظ سے بہت اہم ہے۔ ہابیل اور قابیل والی بھائیوں کی لڑائی بھی دمشق کے قرب و جوار میں ہوئی تھی۔ تاریخی اُموی مسجد میں حضرت یحییٰ بن زکریاعلیہ السلام مدفون ہیں۔ پاس ہی سلطان صلاح الدین ایوبی کا مزار ہے۔ مسجد کے صحن کے ایک کونے میں وہ جگہ ہے جسے راسِ حسینؓ کہا جاتا ہے یعنی یہاں حضرت امام حسینؓ کا سر مبارک رکھا گیا تھا۔ پاس ہی حضرت زین العابدینؓ کا مصلیٰ ہے جہاں غم سے نڈھال امام عبادت میں مصروف رہے۔ اُموی مسجد کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا نزول یہیں پر ہو گا۔جب کربلا کا سانحہ ہوا تو دمشق اموی حکومت کا دارالخلافہ تھا۔ شہدائے کربلا کے سر یہیں مدفون ہیں۔ اہلِ بیت کے اسیر بھی یہیں لائے گئے۔ حضرت زینبؓ نے یزید کے دربار میں دلیرانہ خطبہ اسی شہر میں دیا۔ سیدہ زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کا مرقد بھی اسی شہر کے مضافات میں ہے اور مرجع خاص و عام ہے۔ میں نے خود اس مزار پر متعدد بار حاضری دی ہے۔ دمشق سالہا سال سے قائم قدیم ترین دارالحکومتوں میں سے ایک ہے۔ جب محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا تو اس وقت دمشق اسلامی سلطنت کا دارالخلافہ تھا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ تکبر‘ ضد اور اقتدار کا لالچ اس شہر کی سرشت میں شامل ہے۔ اس اقتدار کی طمع میں بشارالاسد نے پانچ لاکھ سے زائد شامیوں کے شہید ہونے کی ذرہ بھر پروا نہیں کی‘ اس سے کئی گنا زیادہ بے گھر ہوئے جو ترکیہ‘ اردن اور لبنان کے مہاجر کیمپوں میں اب تک پڑے ہوئے ہیں مگر بشار الاسد اقتدار سے چمٹا رہا۔
میں دمشق میں تین سال رہا ہوں‘ یہاں کے لوگ نہایت نفیس طبع اور مہذب ہیں۔ اسے مشرقِ وسطیٰ کا لکھنؤ بھی کہا جا سکتا ہے۔ تو پھر یہاں کے حکمران اتنے سنگدل کیسے ہو گئے؟ دراصل نہ تو اموی خاندان دمشق کا باسی تھا اور نہ ہی الاسد فیملی۔ دمشق کے لوگ صنعت و حرفت اور تجارت کیلئے معروف تھے۔ اسی وجہ سے یہاں کی اکثریت ہمیشہ صاحبِ ثروت رہی۔ دمشق سے تقریباً تین سو کلو میٹر دور لاذقیہ کا ساحلی علاقہ ہے۔ بحیرۂ روم پر واقع اس علاقے میں زیادہ تر پہاڑ ہیں۔ زمانۂ قدیم سے یہ لوگ دمشق اور حلب کے امیر لوگوں کے ملازم تھے۔ چونکہ لاذقیہ کے گرد و نواح میں روزگار کے مواقع خال خال تھے‘ لہٰذا یہاں کے لوگ فوج میں جانے لگے۔ عقیدے کے لحاظ سے یہ لوگ علوی ہیں جنہیں نُصیری بھی کہا جاتا ہے۔ اس عقیدے کے لوگ اپنے اعتقادات پر سرِعام بحث کرنے سے اجتناب کرتے ہیں‘ لہٰذا انہیں فرقۂ باطنیہ بھی کہا جاتا ہے۔ الاسد فیملی کا تعلق اسی علاقے اور اسی فرقے سے ہے۔ لیکن اپنے آپ کو عوام الناس میں مقبول بنانے کیلئے عیدین کی نماز حافظ الاسد اُموی مسجد میں سُنی امام کی اقتداء میں پڑھتے تھے۔ انہوں نے بعث پارٹی‘ عرب نیشنلزم اور سیکولر ازم کی چھتری تلے پناہ لی لیکن 1970ء کی دہائی میں بھی‘ جب میں وہاں تھا‘ اکثر کہا جاتا تھا کہ اگر آپ علوی ہیں اور آپ بعث پارٹی کے ممبر ہیں تو آپ قانون سے بالاتر ہیں اور شام میں فوجی اور سرکاری افسر بھی بعث پارٹی کے ممبر بن سکتے تھے۔ اس سارے نظام کا مقصد اسد فیملی کی آمریت کو دوام بخشنا تھا۔ لگ بھگ اسی فیصد شافعی سُنی اکثریت اپنے ہی ملک میں لاچار بن کر رہ گئی تھی۔ 54 سال تک جبر کی فضا میں زندہ رہنے والے اب یوں محسوس کر رہے ہیں کہ انہیں اصل آزادی بشار الاسد کے فرار ہونے کے بعد ملی ہے۔
اب آتے ہیں اس واقعہ کے خارجی اثرات کی جانب۔ سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل‘ ترکیہ اور امریکہ کو ہوا ہے۔ شام کے راستے لبنان میں حزب اللہ کو جانیوالی کمک اب بند ہو جائے گی۔ مشرقِ وسطیٰ میں روس کی پوزیشن کو ایک دھچکا لگا ہے۔ طرطوس میں واقع روسی بحریہ کے اڈے بند ہونے کے امکانات نظر آ رہے ہیں۔ لہٰذا بحیرۂ روم میں اب روسی جہاز بھی پہلے سے کم نظر آئیں گے۔ اسرائیل نے مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں سے اپنی افواج شامی علاقے میں متعین کر دی ہیں اور کہا ہے کہ یہ عارضی اقدام حفظِ ماتقدم کے طور پر کیا گیا ہے۔ ایران کی علاقائی پوزیشن مزید کمزور ہوئی ہے۔
ترکیہ شام کیساتھ اپنی سرحد پر بفر زون قائم کرنا چاہتا ہے جہاں شامی مہاجرین کو بسایا جائے گا اور کرد آبادی کی ترک مخالف سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے گی۔ گویا سکیورٹی کا بندوبست ترکیہ کے پاس ہوگا۔ شمال مشرقی شام پر امریکہ کا تسلط ہے۔ بشارالاسد کی حکومت پر امریکہ نے اقتصادی پابندیاں لگائی ہوئی تھیں۔ شامی حکومت اپنا تیل بھی فروخت نہیں کر سکتی تھی۔ یاد رہے کہ شمالی علاقے میں تیل کے ذخائر ہیں گو کہ یہ محدود ہیں۔ شامی حکومت پر پابندیاں لگا کر امریکی خود یہ تیل ایکسپورٹ کرنے لگے اور ان کا دعویٰ ہے کہ حاصل شدہ ریونیو ہم کردوں کی فلاح پر صرف کرتے ہیں‘ یہ بھی دلچسپ تاویل ہے۔ صدر بائیڈن کا کہنا ہے کہ شامی باغیوں کو ہتھیار اور مالی امداد ترکیہ اور خلیجی ریاستوں سے ملتی رہی۔ ھیئۃ التحریر الشام امریکہ کی نظر میں ایک دہشت گرد تنظیم ہے‘ جس کے لیڈر کے سرکی قیمت مقرر ہے۔ اب دیکھنا یہ بھی ہے کہ دمشق میں نئی حکومت مالی مشکلات سے نکلنے کے لیے امریکہ سے اپنے معاملات کیسے طے کرتی ہے۔شام میں نصف صدی سے زائد قائم رہنے والی موروثی آمریت کا قلعہ بالآخر ریت کا محل ثابت ہوا ہے۔ شام کی فوج اب بہت ہی بددل ہو گئی تھی۔ حکومت کا خزانہ خالی تھا۔ سرکاری ملازمین کو تنخواہ دینا حکومت پر بھاری پڑ رہا تھا۔ عوامی مقبولیت کے بغیر کوئی بھی حکومت کچھ عرصہ تو نکال سکتی ہے لیکن زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی۔
اب سوال یہ بھی ہے کہ اتنی غیرمقبول موروثی آمریت نصف صدی سے زائد عرصہ کیسے قائم رہی تو یہ ذہن میں رہے کہ عرب ڈکٹیٹر الیکشن ہمیشہ اپنی پسند کے کراتے تھے۔ نعرے فلسطین کی آزادی اور مساوات کے لگاتے تھے‘ لیکن خود کرپٹ تھے۔ میں جب شام میں تھا تو صدر حافظ الاسد کے بھائی رفعت الاسد کے متوازی فوج دمشق کے ارد گرد متعین تھی۔ ان دستوں کو ''سرایا الدفاع‘‘ کہا جاتا تھا۔ مقصد کسی بھی متوقع بغاوت کے خلاف اپنے بھائی کے اقتدار کا دفاع کرنا تھا۔ بعد میں حافظ الاسد کو یہ محسوس ہونے لگا کہ میرا بھائی عسکری طور پر بہت طاقتور ہو رہا ہے اور حکومت کیلئے خطرہ بن سکتا ہے‘ لہٰذا اسے بھاری رقم دے کر فرانس بھیج دیا گیا۔ حافظ الاسد کے زمانے میں شامی افواج لبنان میں داخل ہوئیں اور پھر تیس سال تک وہاں رہیں۔ لبنان کے تمام وسائل پر شام کا قبضہ تھا۔
تقریباً تمام عرب ممالک میں خفیہ ادارے بہت فعال ہیں۔ آزادیٔ رائے بہت محدود ہے۔ اپوزیشن کو مکمل کنٹرول میں رکھا جاتا ہے اور پھر لاوا یکدم پھٹتا ہے‘ جیسا کہ ہم شام میں دیکھ رہے ہیں۔ ایسی ہی صورتحال یمن اور لیبیا میں بھی ہوئی ہے۔ اکیسویں صدی میں عوام کو لمبے عرصے کیلئے دبانا ناممکن ہے۔ بشار الاسد‘ معمر قذافی‘ حسنی مبارک سب قصۂ پارینہ ہو چکے۔ حافظ الاسد سے اقتدار بیٹے کو منتقل ہوا۔ حسنی مبارک اور معمر قذافی بھی بیٹوں کو ولی عہد بنانے کا تہیہ کیے ہوئے تھے لیکن ان کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے اور یہ سب نشانِ عبرت بن گئے۔اگر نئی حکومت بہت تندہی سے کام کرے تو شام کی تعمیرِ نو میں دس سے پندرہ سال لگیں گے۔ اُسے چاہیے کہ ترکیہ اور خلیجی ممالک سے بنا کر رکھے تاکہ تعمیرِ نو کا کام مسلسل چلتا رہے ۔ اس سے ترکیہ کی تعمیراتی کمپنیوں کو بہت کام ملے گا۔ شامی عوام بہت زخم خوردہ ہیں۔ ان کی بحالی کیلئے کئی سال درکار ہیں۔ خدا کرے کہ نئی حکومت یہ کام جذبے اور خلوص سے کرے اور سیاسی بدلے چکانے میں نہ لگ جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved