سکرینوں پر نظر جمائے‘ موبائل پر تھرکتی انگلیوں کا رقص دکھاتے لوگوں نے کبھی اس دور کے بارے میں سوچا ہے جب لمبی‘ پتھریلی‘ ناہموار راہوں کی دور دراز مسافتوں پر چلتے تھکن سے بے حال قافلے کسی سرائے میں اترتے تھے۔ یہاں ان کے گھوڑوں کیلئے دانہ‘ بھوسہ اور پانی وافر ہوتا تھا۔ مسافروں کو انگاروں پر بھنے دنبے کا گوشت‘ تازہ پسی ہوئی گندم کی نرم روٹی اور ٹھنڈا پانی میسر ہوتا تھا۔ رات اترتی تھی تو الاؤ کے گرد بیٹھے جہاں گرد اپنے سفر کی داستانیں سناتے تھے اور نووارد انہیں تجسس اور خوف کے ملے جلے جذبات کے ساتھ خوابناک کیفیت میں سنا کرتے تھے۔ یہ داستانیں انہیں کچھ دیر کیلئے سخت مسافت اور ذاتی دکھوں سے دور لے جاتی تھیں۔کچھ دنوں کی گہری لمبی نیند انہیں تازہ کرتی تھی اور سوداگروں اور بنجاروں کے واقعات انہیں سونے جیسی زمینوں کیلئے مہمیز کرتے تھے۔ پھر وہ اپنی منزلوں کیلئے نکلتے تھے اور گھوڑوں‘ خچروں‘ اونٹوں‘ کشتیوں اور بحری جہازوں پر سوار ہوکر نادیدہ دنیاؤں تک پہنچتے تھے۔ سفر میں وہ منزلیں بھی ہوتیں جہاں اپنی ٹانگوں کے سوا کوئی سواری نہ ہوتی‘ تیز بارش اور برفباری میں پوستینوں اور کھالوں کے سوا کوئی پناہ نہ ہوتی تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایسے سفر سے لوٹ کر گھر پہنچنے پر بنجارا دوبارا نکلنے کا حوصلہ ہی نہ کرے لیکن ایسا ہوتا نہیں تھا۔ راستہ ایک زنجیر کی طرح ان کے پاؤں سے بندھا گھر آتا تھا اور وہ واپس کھنچا جاتا تھا۔
سوداگر کہہ لیں‘ بنجارا کہہ لیں۔ ایک ہی قبیلے کے دو نام ہیں۔ اجنبی زمینوں‘ ناآشنا ملکوں اور نامعلوم تہذیبوں کو سوداگروں اور بنجاروں سے زیادہ کسی نے دریافت نہیں کیا۔ ان سے زیادہ کسی نے انہیں باہم نہیں جوڑا۔ یہ دنیا کے اولین سیاح تھے اور آج بھی لوگوں کو جوڑنے کی صلاحیت ان سے زیادہ کسی کے پاس نہیں ہے۔ دنیا میں بڑے بڑے فاتحین کے نام موجود ہیں۔ لیکن فاتحِ زمانہ تو وہ ہے جو دلوں کو فتح کرتا ہے۔ بنجاروں سے زیادہ ''ملک خدائے ماست‘‘ کو کسی نے نہیں اپنایا۔ یہ بنجارے اپنی اپنی داستانیں رکھتے ہیں۔ یہ سب سے بڑے سیاح ہیں اور سب سے بڑے سفرنامہ نگار۔ یہ داستانیں ہی دنیا کے پہلے سفرنامے ہیں۔ اس گھر کی داستان جو بہت بڑا اور بہت متنوع ہے۔ میرا گھر۔ میں جو ایک چھوٹا سا بنجارا ہوں۔ میں بھی اپنی داستان سنانا چاہتا ہوں۔
بنجارے سے بڑا‘ کشادہ‘ ہوادار اور رنگا رنگ گھر کس کا ہو سکتا ہے؟ صحرا‘ مرغزار‘ سمندر‘ دریا‘ پہاڑ‘ جھیلیں‘ ندیاں‘ جھرنے‘ آبشاریں سب اسی گھر میں شامل ہیں۔ اپنے کمرے سے نکلا‘ زین کَسی‘ بھری ہوئی خورجین لٹکائی‘ ہوا رفتار گھوڑے پر بیٹھا اور اس جگہ جا اترا جہاں زمردی پہاڑوں کے دامن میں سبزے کے ہرے قالین بچھے ہیں‘ لہریں ساحل کی ریت چوم کر پلٹتی ہیں اور نشیلے جھونکے پھولوں سے ڈھکی بیلوں کی زلفیں بکھیرتے ہیں۔ سورج نے ذرا ڈھلان پر لڑھکنا شروع کیا اور سنہرے کانچ کی کرنیں آبِ رواں میں رنگ اور زاویے بدلنے لگیں۔ گھوڑے کو چرنے کے لیے چھوڑا‘ خورجین سے خشک گوشت اور میدے کی خطائی جیسی کعک نکالی‘ چھاگل میں قریبی ٹھنڈے میٹھے چشمے کا پانی بھرا۔ ذرا دیر میں سوار اور رہوار دونوں نئے سفر کیلئے تازہ دم۔ اب کبھی اس وادی میں آنا ہو یا نہ ہو‘ کسے خبر۔ لیکن اَن گنت جھیلیں اور بیشمار منظر ابھی بنجارے کے انتظار میں ہیں۔ اگر کچھ کمی ہے تو وقت کی ہے۔ وقت جو بنجارے کے پاس محدود ہے۔ جس میں اپنے ہی گھر کی راہداریوں‘ حجروں اور شیش محلوں کی سیر نہیں کی جا سکتی۔ ہر غرفے کا منظر جدا ہے اور الف لیلہ کی داستانوں کی طرف جھانکتے ہزار جھروکے طلسمی منظر لیے اپنی طرف بلاتے ہیں۔کچھ کم ہے تو ٹک ٹک کرتا وقت‘ جو تیزی سے گزرتا جاتا ہے۔
بنجارے سے بڑا‘ متنوع‘ بیشمار نقوش‘ خد وخال اور ہزار زبانوں والا گھرانہ کس کا ہو سکتا ہے؟ مرد‘ عورتیں‘ بچے‘ بوڑھے‘ خوش طبع‘ زندگی سے چھلکتے‘ جینے سے بیزار‘ سنکی۔ ہر طرح کے لوگ جیسے کسی بڑے خاندان میں ہوتے ہیں۔ ایک ہی گھر میں بھانت بھانت کی باتیں اور ہزار طرح کے قصے۔ محبت‘ گرم جوشی‘ بے نیازی‘ بے مروتی۔ ان سب سے چھلکتا کنبہ۔ ایک گھر میں رہتے ہوئے یہی سب کچھ تو ہوا کرتا ہے۔ گھر سے نکل کر بنجارااور بھلا کہاں جائے گا؟ بس یہ کہ اپنے کمرے سے نکلا اور آنگن میں اس ہجوم کا حصہ بن گیا جو ہماہمی میں زندگی گزارتا ہے۔ کسی کے پاس وقت ہی وقت ہے اور کسی کے پاس ایک پل بھی نہیں۔ کسی سے ملنے کی خواہش کھینچتی ہے اور کسی سے بچ کر گزرنے کا راستہ تلاش کرنا ہے۔ کوئی بنجارے کیلئے کانٹے لیے بیٹھا ہے اور کوئی پنکھڑیاں۔ یہیں وہ تلاش کرتی آنکھیں ملتی ہیں جنہیں بنجارا تلاش کر رہا تھا۔ وہ دل زدگان جو کہیں کہیں ملتے ہیں۔ وہ دل نشین جن کے ساتھ ایک ساعت بھی گزاریں تو لمبی عمر جیسی سرشاری دے جائیں۔
مجھ میں بھی اک بنجارا بستا ہے لیکن کبھی خیال نہیں آیا تھا کہ اپنی داستان سفرناموں کی صورت میں شائع ہو گی۔ اور داستان بھی وہ جو ختم کرنے کے بعد پھر شروع ہو جاتی ہے۔ ''مسافر‘‘ کے بعد اب دوسرا سفرنامہ ''بنجارا‘‘ شائع ہوا ہے تو وہ سب سفرنامے یاد آ رہے ہیں جنہوں نے میرے دل میں ہزاروں رنگ بھر دیے۔ جنہوں نے براق پہاڑ‘ دھند بھری جھیلیں اور گھاس کی خوشبو سے مہکتی وادیاں اپنے عدسوں میں محفوظ کرنے کی خواہش زندہ رکھی۔ وہ سب کتابیں‘ وہ سب تصویریں جنہوں نے اپنے بھید مجھ تک پہنچائے اور کہا کہ تم اپنے بھید اور اپنے رمز نقش کرو۔ بتدریج وقت نے آسانیاں پیدا کیں اور ان میں بہت سے دیس اور ملک اس طرح دیکھنے کا بھی موقع ملا جیسے ان کے اپنے باشندوں نے بھی نہیں دیکھے تھے۔ بہت سے منظر میں نے وہاں محفوظ کیے اور بہت سے وہ ہیں جو مسلسل اپنی طرف نادیدہ زنجیروں سے کھینچتے رہتے ہیں۔ اور ان میں وہ ملک بھی تو ہیں جہاں بار بار جانا ہوا لیکن ان کے سفر قلم تک نہیں آئے۔ آپ جانتے ہیں نا‘ نہ بات قلم کی ہے‘ نہ زبان کی۔ بات تو اس اندر والے شخص کی ہے جو کبھی لکھنے پر مائل ہوتا ہے اور کبھی خاموش ہوکر بیٹھ جاتا ہے۔ دل کی ایک نہیں سنتا۔ ٹک ٹک کرتا وقت کب کیا کروٹ بدل لے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کس علاقے میں جانے کے حالات ہی نہ رہیں‘ دنیا غارت گروں سے بھری پڑی ہے اور کس شہر کا حسن کسی غارت گر کے ہاتھوں کب مرجھا جائے‘ کیا معلوم۔ اور یہ سب برقرار بھی رہے لیکن آپ کا جسم کب آپ کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دے۔ کب زندگی آپ کو مزید مہلت دینے سے انکار کر دے‘ کسے خبر۔ سو مسئلہ کسی پرائے ملک کا نہیں۔ اپنا گاؤں‘ اپنا قصبہ‘ اپنا شہر‘ اپنا ملک۔ اس میں بہت کچھ ہے بنجاروں کیلئے۔ مسئلہ دور ونزدیک کا نہیں‘ مسئلہ ہاں یا نہیں کا ہے۔ ایک سیاح‘ ایک بنجارا‘ ایک فطرت کا عاشق اگر کسی کے اندر نہیں تو... کہنے دیجیے کہ زندہ تو وہ نہیں ہے‘ بس جی رہا ہے۔ اس رنگ بھری‘ بھید بھری اور حسن سے چھلکتی دنیا میں کیا صرف جیے جانا زندگی ہے؟
بنجارے کے لان میں دو خوبصورت مرمریں پتھر پڑے ہیں جو وہ پٹہکہ‘ وادیٔ نیلم‘ دریا کنارے سے اٹھا لایا تھا۔ ایک الماری میں چند سیاہ‘ زرد‘ چمپئی اور سرمئی سیپیاں رکھی ہیں جو ولانو‘ فلوریڈا کے اوقیانوسی ساحل سے چنی تھیں۔ ابان جھیل‘ بولو‘ ترکیہ کے کنارے سے توڑی ہوئی خوشبودار گھاس کی پتیاں ہیں۔ ملٹن‘ کینیڈا کے سرخ پیڑ سے گرا ہوا میپل کا پتا‘ ڈارلنگ ہاربر‘ سڈنی کی چاکلیٹی بطخ کا پر اور لوٹس ٹیمپل‘ شکاگو کا نرگسی پھول۔ یہ سب شیشوں والی اُس الماری میں بھی ہیں جو اصل میں دل میں سجی ہوئی ہے۔ اور ہاں! اُس کے نام کے ابتدائی حروف کاڑھے ہوئے رومال کیسے بھولے جا سکتے ہیں جو حسین‘ لمبی‘ مخروطی انگلیوں نے دہلی میں دیے تھے اور حیران کر دیا تھا۔ یہ سووینیرز‘ یہ یادگاریں نہ مرجھاتی ہیں‘ نہ مٹیالی پڑتی ہیں اور نہ ان کے رنگ اُڑتے ہیں۔
اور ان سب کو دینے کیلئے بنجارے کے پاس کیا ہے؟ کیا وہ ایسے لفظ لکھ سکتا ہے جو نہ مرجھائیں‘ نہ مٹیالے پڑیں اور نہ رنگ خراب ہوں۔ ایسے لفظ کہاں ملتے ہیں؟ کس استاد سے؟ کس مکتب سے؟ کون سی لغت سے؟ تلاش باریاب نہیں ہوتی...اور ٹک ٹک کرتا وقت تیزی سے گزرتا جاتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved