نظریۂ پاکستان کے علمبرداروں اور ان جیسے معتبرزُعما سے ہم گناہگاروں کو یہ معلوم ہوا کہ پروردگارِ عالم نے اس ملک کو کسی خاص مقصد کیلئے بنایا۔ 77سالوں میں تو پتا نہ چل سکا کہ وہ مقصد کیا ہے لیکن امید یہی ہے کہ کبھی نہ کبھی اس نازک سوال کا جواب ہمیں دستیاب ہو جائے گا۔ بہرحال اتنا تو کہا جاسکتا ہے کہ اس پاک سرزمین پر جتنے مدارس‘خانقاہیں اور اس قسم کے مراکز یہاں موجود ہیں‘ ارض ِ پاک کو تو دنیا میں اول مقام مہیا ہونا چاہیے تھا۔ دنیا ہمیں دیکھتی اورہماری پیروی کرتی‘ روحانی سکون حاصل کرنے کیلئے یہاں اتنے لوگ آتے کہ باقی دنیا کے سیاحت کے مراکز رشک بھری نظروں سے ہمیں دیکھتے۔ لیکن کوئی نہ کوئی مسئلہ تو ہے جس کا راز ابھی تک ہم گناہگار بھانپ نہیں سکے کہ ایک طرف اتنی عبادت گاہیں اور روحانی علوم کی درسگاہیں اور دوسری طرف ہمارا لوہے سے بنا ہوا کشکول اورسرزمینِ پاک کے باشندوں کے سینوں میں وہ تڑپ کہ کہیں کسی گناہگار ملک کا ویزا مل جائے اور یہاں سے کوچ کرنے کا موقع ملے۔ ظاہر ہے ہماری سمجھ سے بہت سے چیزیں بالاتر ہیں لیکن یہ سوال ہماری ناسمجھی میں سب سے آگے ہے۔
ہمارے مولانا صاحب مدارس کی رجسٹریشن کے بارے میں کتنے بیتاب اور بے چین ہیں۔ گو ہم گناہگاروں کی حمایت کوئی معنی نہیں رکھتی لیکن ہم جیسے بھی اس مسئلے پر اُن سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ مسئلے کی پیچیدگیوں سے ہم آشنا نہیں لیکن پھر بھی کہتے ہیں کہ رجسٹریشن ایسے ہی ہونی چاہیے جیسے مولانا صاحب فرما رہے ہیں۔ لیکن چبھتا ہوا سوال پھر وہی ہے کہ رجسٹریشن تو ایک طرف رہی‘ مدارس نہ صرف سرزمینِ پاک میں موجود ہیں بلکہ وافر مقدار میں۔ اتنا تو پھر پتا چلے کہ ان کی وجہ سے سائنسی میدان میں سرزمینِ پاک نے کتنی ترقی کی ہے‘ کتنے سیٹلائٹ ہم نے خلامیں بھیجے ہیں‘ اسرائیل کو نیست و نابود کرنے کیلئے کون سی طاقت ہم نے جمع کر رکھی ہے۔ اور کچھ نہیں تو کشکول ہمارا ٹوٹ جاتا‘ تیل کے کنویں کہیں سے پھوٹ پڑتے اور وقتاً فوقتاً سرزمینِ پاک کو برادر اسلامی ملکوں سعودی عرب اورمتحدہ امارات کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑتے۔ کتنا روحانی خزانہ سرزمینِ پاک میں جمع ہے لیکن جو سربراہ آتا ہے پہلا کام برادر اسلامی ملکوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کا ہوتا ہے۔آخرت کا اہتمام اپنی جگہ لیکن دنیا میں جو ہمارا حال ہے اُس کا کیا کیا جائے؟ وہ کیوں نہیں سنور رہا؟ اتنے مبلغ ‘ اتنے روحانی پیشوا ‘ اتنے علمائے کرام اور پھر بھی حالت ایسی کہ رونے بیٹھیں تو ماتم رک نہ پائے۔
ٹھیک ہے سیاستدانوں کا قصور ہے‘ لیڈرانِ کرام بھی اس ملک کی قسمت کے ساتھ کھیلتے رہے ہیں لیکن روحانی اثاثوں کے اثرات تو سب پر پڑنے چاہئیں۔ روحانی درسگاہوں کے ہوتے ہوئے یہاں کی سیاست‘ یہاں کا نظام‘ یہاں کی ہر چیز دودھ میں دُھلی ہونی چاہیے تھی۔ ترقی کی منازل ہم طے کر چکے ہوتے‘ دنیائے اسلام ہمیں حسرت کی نگاہوں سے دیکھتی‘ یہاں کے دورے ہوتے ہم سے کچھ سبق حاصل کرنے کیلئے۔ ہماری مثالیں دنیا دے رہی ہوتی۔ لیکن یہاں تو کام ہی اُلٹا ہے‘ اتنی روحانی قوت ہونے کے باوجود اقوامِ عالم میں ہمارا حال وہ ہے جو کسی چوراہے پر مستند بھکاریوں کا ہوتا ہے۔ یہ تضاد کم از کم گناہگارذہنوں کو سمجھ نہیں آتا۔
پیرخانوں کا ذکر تو رہ گیا۔ دیگر علاقوں کو چھوڑیے‘ میں چکوال کے پیروں اورروحانی ہستیوں کا ذکر شروع کروں تو کالم کی گنجائش کم پڑ جائے۔ ہر چپے پر روحانی شخصیات پائی جاتی ہیں۔ اور یہ صرف چکوال کی حالت نہیں بلکہ سرزمینِ پاک کے ہر علاقے اور خطے میں یہی کیفیت ہے۔ لیکن قسمت کیوں نہیں سنورتی‘ دودھ اور شہد کی نہریں یہاں سے کیوں نہیں نکلتیں؟ بے چارگی کا شائبہ جو سرزمینِ پاک کے ذکر سے اُبھرتا ہے وہ ختم کیوں نہیں ہوتا؟ ان گناہگارآنکھوں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ بڑے سیاسی لیڈروں کی انتظار گاہوں میں روحانی شخصیات بھی ایسے کھڑی ہوتی ہیں جیسا کہ ہم گناہگار۔ جس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ جو اوروں کے سامنے مجبور ہوں اُنہوں نے ہماری مجبوری کیسے دور کرنی ہے۔ ضیا الحق سے پہلے کے زمانے میں عرس وغیرہ کے موقعوں پرچوٹی کے ثقافتی مراکز کے باشندے حاضری دیتے اور ناچ اور دھمال وغیرہ کر لیا کرتے۔ رونق ہوتی تھی‘ ویلیں چلتی تھیں‘ خوشی کا سماں بندھ جاتا تھا۔ مرحوم مردِ مومن اس قوم کو پھر سے مسلمان بنانے چلے تو یہ شغل میلہ بھی ختم ہو گیا۔ اب کوئی ناچ گانا ہوتا ہے تو بند دروازوں کے پیچھے جیسا کہ سرزمینِ پاک کے ہر شعبے میں ہوتا ہے‘ یعنی ہر چیز کرنی ہے لیکن پردوں کے پیچھے۔ دیگر روحانی وسائل کے ساتھ ساتھ جس اہم چیز کا اضافہ ہوا ہے وہ منافقت ہے۔ اللہ معاف کرے جتنا منافقت کا کاروبار یہاں گرم ہو اہے شاید کہیں اور نہ دیکھا جا سکے۔
ایک اور نازک مسئلہ ہے اُس کی سمجھ بھی اب تک نہیں آئی۔ شراب کی لعنت جس پر 1977ء میں روح پرور اور مدبرانہ پابندی عائد ہوئی تھی اُس کے بعد تو سب کچھ دُھل جانا چاہیے تھا۔ تیل اور گیس کے کنویں نہ سہی نیکی اور پارسائی کے فوارے پھوٹنے لگتے‘ ارض ِ پاک کی تقدیر بدل جاتی‘ لیڈرانِ کرام کی لوٹ مارکی عادات بدل جاتیں‘ عوام الناس بھی صحیح راستوں پر چلنے لگتے‘ کشکول جو کہ ہمارا نشانِ امتیاز بن چکا ہے پاش پاش ہو جاتا۔ لیکن افسوس ہی کیا جاسکتا ہے کہ ایسا کچھ ہونے کے بجائے بدچلنی کی شاہراہوں پر زیادہ بھیڑہونے لگی۔ ہوایہ بھی کہ وطنِ عزیز میں بہت سی چیزوں میں لوگ زیادہ ہنرمند ہوتے چلے گئے۔ پارسائی تو ڈیرے نہ جما سکی لیکن پردہ داری بڑھ گئی‘ ہوتا تو وہی رہا جو ہوا کرتا تھا لیکن بند دروازوں کے پیچھے۔ نیک اور پارسا لوگ جن کی یہاں کوئی کمی نہیں اس بارے میں کیا کہتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے لیکن ہم جیسے گناہگاروں کی پریشانی میں اضافہ ہوا ہے۔ نہ راہیں آسان نہ وصالِ صنم۔
اس بات پر بھی خاصا تعجب ہوتا ہے کہ کئی ہمارے لیڈرانِ کرام جو مسندِ اقتدار پر ایک کیا کئی باریاں لگا چکے ہیں روحانی فرائض ادا کرنے کے نہایت ہی پابند ہیں‘ لیکن اس راز کے پیچھے کیا ہے کہ قوم کو چونا لگانے میں ایسے ماہر ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ٹالسٹائے کی مشہور کہانی ہے '' انسان کو کتنی زمین چاہیے؟‘‘ یہ سوال یہاں کے راسخ العقیدہ طبقات سے پوچھنا چاہیے۔ مال بنانے کی کوئی حد ہونی چاہیے لیکن یہاں یوں لگتا ہے کہ کوئی حدیں مقرر نہیں کی گئیں۔ کیا کہا تھا ہماری ہردلعزیز چیف منسٹر نے؟ باہر کو تو چھوڑیے میری یہاں کوئی جائیداد نہیں۔ یہ تاریخی بیان جب بھی یاد آتا ہے بے اختیار ہنسی چھوٹ پڑتی ہے۔ ایسا ایسا چونا کہ آئی ایم ایف اور ایلون مسک ان سے کوئی سبق لے۔ ایلون مسک کے تو خلا میں ساڑھے چھ ہزار سیٹلائٹ گھومتے ہیں‘ ہمارے بڑے سوداگر بغیر ایسی کسی ایجاد کے پوری قوم کو چونا لگانے کے ماہرنکلے ہیں۔ صرف سیاسی سوداگر نہیں ‘ کہیں سے خبر جزیروں کی کہیں سے غیرملکی جائیدادوں کی۔ پارسائی انہی کے کام آئی۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ اس ملک میں ایک نظامِ تعلیم ہو لیکن حاکم طبقات کتنے سمجھدار ہیں ‘ غریبوں کیلئے مدارس اور اپنے لیے مختلف تعلیم۔ لاچار طبقات کو روحانی معاملات میں الجھائے رکھو جبکہ اپنا اُلو سیدھا رکھو۔ مزے کی بات یہ کہ بڑے بڑے عالم بھی اس تفریق پر خاموش رہناپسند کرتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved