تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     16-12-2024

نظامِ بندگی اور خطرات

ہمارے جیسے ملکوں میں بحران‘ معاشی ہوں یا سیاسی‘ خود رو جھاڑی کی طرح پیدا نہیں ہوتے۔ کہیں کسی بدنیتی‘ شخصی مفاد‘ عظمت کا خبط اور حکمرانوں کی فہرست میں اپنا نام اور سب سے بڑھ کر کرسیٔ اقتدار کے خواب ہوتے ہیں۔ آج کے زمانے میں جہاں نیم پختہ اور کمزور جمہوری سیڑھی تخت نشینی کے لیے میسر ہے تو اس پر چڑھنے والے گروہ‘ جماعتیں اور خواتین وحضرات لڑتے مرتے‘ اوپر جانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ایک آدھ جب اوپر جا کر بڑی کرسی سنبھال لیتا ہے تو نیچے آنے کے خوف میں وہ جبر واستبداد‘ مظالم اور ناانصافیوں کو اپنا روز مرہ کا معمول بنا لیتا ہے۔ کئی دوسرے حربے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ ریاست کی طاقت اور وسائل ہاتھ میں ہوں تو صرف سیاسی دشمنوں کو دبانے کے لیے ہتھیار کا کام دیتے ہیں۔ مؤثر اور مستعد جانثاروں‘ وفاداروں اور ہرکاروں کو خریدا اور اپنے اقتدار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے ایک ایسا نظام تشکیل پا جاتا ہے جس میں مخالفین کو خوف میں مبتلا رکھا جاتا ہے‘ اور اُن میں سے جو سر اٹھانے کی کوشش کرتا ہے‘ اُسے کچل کر رکھ دیا جاتا ہے۔ یہ سطور لکھتے وقت مشرق وسطیٰ کے کچھ ممالک ذہن میں آ رہے ہی اور خوف ہے کہ کہیں ہم نے اپنے آپ کو ان کے تاریک راستے پر تو نہیں ڈال دیا۔
آج ریاست شام کی ہزاروں مائیں‘ بہنیں اور بوڑھے باپ نوحہ کناں ہیں اور ان کے آنسو تھم نہیں پا رہے ہیں۔ ہزاروں نوجوان صرف زبان کھولنے کی پاداش میں کئی سال پہلے غائب کر دیے گئے اور شاید ہی کبھی واپس آ پائیں۔ خوشی اور جوش کا وہ منظر میری آنکھوں‘ حافظے اور روح میں ہمیشہ محفوظ رہے گا کہ آزادیٔ شام کی تنظیم نے جیل خانوں کے دروازے توڑے تو خوشی سے باہر کی طرف بھاگتے نوجوانوں اور ایک عرصہ سے قید بوڑھوں کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ آزاد ہیں۔ پورا شام نصف صدی کی بربریت پر گہرے غم اور آزادی کی خوشی کے جذبات سے سرشار ہے۔ مائیں‘ بہنیں اور بھائی ملک کے ہر کونے میں دوڑتے پھر رہے ہیں کہ کہیں ان کے غائب کردہ پیاروں کا سراغ مل جائے۔ اکثر گھروں میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔
ہم کبھی مشرق وسطیٰ کے آمروں کی طرح کا ملک نہیں تھے۔ سب کی بات نہیں ہو رہی‘ کم از کم ایک دو جیسے نہیں تھے جن کا نام لینے کی ضرورت نہیں۔ قیاس آرائی آپ پر چھوڑ دیتا ہوں۔ ہم ان سے اس لیے مختلف تھے کیونکہ ہمارے معاشرے میں بیداری تھی‘ سیاسی تحریکوں کا دیرپا اثر تھااور آزادیٔ فکر کی کچھ روایات باقی تھیں۔ بدقسمتی سے کچھ عرصہ سے یہ روایات دم توڑتی جا رہی ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ہم سیاسی بحران کا شکار ہیں۔ اس کو پیدا کرنے والے اور اس فضا میں ملک کو پیہم رکھنے والے سر پر منڈلاتے خطرات سے لاعلم ہیں یا تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے کرسی مضبوط کرنے کے لیے قانونی اور غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کا ردعمل ہر سماج اور ہر نوع کی ریاست میں ایک ہی ہوتا ہے۔ کچھ دیر کے لیے تو خوف کے مارے لوگ چپ سادھ کر جبر برداشت کرتے رہتے ہیں مگر روحِ آزادی کہیں نہ کہیں تڑپ ہی جاتی ہے اور لوگوں پر لاٹھیاں اور گولیاں برسا کر بھی مخالف تحریکوں کو نہیں دبایا جا سکتا۔ الاسد خاندان اور ان کے ہر کاروں نے جو کچھ اپنے ہی لوگوں کے خلاف اتنا عرصہ روا رکھا اس کی عصرحاضر میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ گزشتہ صدی میں ہٹلر‘ سٹالن اور دیگر سوویت حکمران اور ہمارے کسی زمانے کے ہیرو ماؤزے تنگ نے جو لاشوں کے انبار لگائے‘ انسانیت کے منہ پر سے وہ دھبے کبھی نہیں مٹ سکیں گے۔ آج کے دور میں ہمارے سامنے غزہ کی نسل کشی جاری ہے مگر مغرب کی طاقتور ریاستیں اسرائیل کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی نظر آتی ہیں۔ اس کا بھی ایک ردعمل ہو گا اور نئی دنیا کا سورج ایک دن ضرور طلوع ہو گا۔ مگر ہم تاریخ اور اس کے فطری عمل کو ایک نسل میں نہیں دیکھ سکیں گے۔
اپنے ملک کی طرف آتے ہیں کہ یہاں اگر ہمارے حکمران اور ان کے کارندے جو کچھ ایک عرصہ سے کر رہے ہیں‘ کرتے رہے تو ان کی حفاظت کے لیے نہ مغربی‘ نہ مشرقی طاقتیں ساتھ دیں گی۔ آج مجھے تو وہ تنہا نظر آتے ہیں۔ دعوے اس کے برعکس جو بھی کریں‘ داخلی‘ علاقائی اور عالمی حالات کے تناظر میں کوئی وزن نہیں رکھتے۔ اگر یہ تلخ نوائی پڑھنے والوں کی طبیعت پر گراں گزرے تو سرسری طور پر میں صرف چند باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔ اخباروں میں تو پڑھا ہو گا اور کچھ مناظر آپ نے ٹیلی ویژن پر بھی دیکھے ہوں گے کہ بلوچستان میں کتنی بار نوجوان کی بازیابی کے لیے مظاہرے ہو چکے ہیں۔ وہ اسلام آباد تک پیدل مارچ کرتے دس‘ پندرہ سال پہلے آئے تو خالی ہاتھ گئے۔ گزشتہ سال اس شہر میں ڈیرہ ڈالا تو بھگا دیے گئے۔ اب وہ وقتاً فوقتاً کوئٹہ‘ گوادر اور کراچی میں احتجاج کرتے رہتے ہیں۔ دنیا کی نظروں میں ان دھرنوں کی لیڈر ماہ رنگ بلوچ کی قدر ہے۔ ان کی حکمت عملی نے بلوچستان کے قبائلی سرداروں اور روایتی نمائندوں کو نمائشی مہروں کے درجے پر لا کھڑا کیا ۔ یہ بھی سوچیں کہ جب عوام کا اعتماد ووٹ کی طاقت پر سے اُٹھ جائے‘ یا ان میں احساس پیدا ہو جائے کہ بے شک وہ قطاروں میں سار ا دن کھڑے ہوکر پرچی ڈالنے کا انتظار کرتے رہیں آخر میں عوام میں مقبولیت نہیں بلکہ کسی دربار میں قبولیت سے ہی نمائندے منتخب ہوں گے تو پھر کچھ لوگ خطرناک راہوں پر چل پڑتے ہیں۔ برا نہ منائیں تو عرض کروں کہ محسوس یہ ہو رہا ہے کہ پشتون نوجوان حالیہ واقعات کی روشنی میں ہم سے کہیں دور نہ نکل جائے جہاں سے اس کی واپسی ممکن نہ رہے۔ ہر مرتبہ بلوچستان اور پشتون علاقوں میں وہ خطرناک راستہ کسی کی رعونت‘ ہٹ دھرمی اور غلط پالیسیوں کے ردعمل میں اختیار کیا گیا۔ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ یہ لوگ دشمن کے اشاروں پر کام کر رہے ہیں۔ وہ ایسا کرتے ہیں تو اس میں ہماری ناکامی شہ سرخی میں لکھی ہوئی ہے۔ ملک کے دیگر حصوں میں بھی نوجوانوں کے اندر بے چینی ہے‘ جسے آپ مفت فون‘ کمپیوٹر اور موٹر سائیکل کا لالچ دے کر ختم نہیں کر سکتے۔ ان کا‘ عوام کا اور ہم سب کو نظامِ نمائندگی میں‘ جو اَب نظامِ بندگی میں تبدیل ہو چکا ہے‘ جب تک تسلیم نہیں کریں گے‘ حالات جوں کے توں رہیں گے۔ ہر آنے والے دن کے ساتھ ملک میں مایوسی بڑھتی نظر آتی ہے۔ اگر طاقت کا استعمال ایسا ہی ہوتا رہا تو خوف پیدا کرنے اور سبق سکھانے کی مشقیں بے اثر ہو جائیں گی۔ نتیجہ اس سے بھی بدتر ہو گا کہ ریاستی اداروں پر اعتماد اور ان کا اثر زائل ہو گا اور ملک اور معاشرہ کمزور ہو گا۔ ہماری متنوع اکائیوں کے ریاست کے ساتھ رشتے میں جو دراڑیں پڑ چکی ہیں‘ اب بھی وقت ہے کہ ان پر توجہ دیں اور کم از کم پہلا قدم یہ ہو کہ اتحادی حکومت اور تحریک انصاف میں مفاہمت ہو‘ اور یہ ناممکن ہے جب تک کوئی فیصلہ آسمانوں سے نہ ہو۔ ڈر ہے کہ کہیں نظامِ بندگی سے اٹھتی چنگاریاں چمن کو جلا نہ ڈالیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved