16دسمبر1971ء سے 2024ء تک‘ 53 سال کا عرصہ بیت چکا۔ نصف صدی سے زیادہ مدت کا یہ زخم اب تک رِس رہا ہے۔ اب تک یہ حال ہے کہ یہ دن آتا ہے تو دو حصوں میں چیر کر چلا جاتا ہے۔ ان لوگوں کی بات تو ایک طرف جنہوں نے پاکستان بنانے میں حصہ لیا تھا یا پاکستان بنتے دیکھا تھا۔ ان کا زخم تو مرتے دم تک ہرا ہی رہا‘ لیکن ہماری نسل جو بعد میں پیدا ہوئی مگر جس نے مشرقی پاکستان کہتے‘ لکھتے‘ پڑھتے شعور کی آنکھ کھولی‘ اس کیلئے بھی بنگلہ دیش کا لفظ بولنا‘ لکھنا اور پڑھنا اب تک آسان نہیں ہے۔ ان بنگالی بہن بھائیوں سے جن کے ساتھ نہ کوئی رشتے داری تھی‘ نہ ہمسائیگی‘ نہ زبان ‘نہ پہناوے‘ نہ ثقافت کا رشتہ تھا‘ ان کے الگ ہو جانے پر اتنا دکھ؟ اگر ہر لحاظ سے وہ الگ تھے اور ہم الگ‘ تو وہ چلے گئے۔ پھر یہ دکھ کیسا چلا آتا ہے؟ پھر ایک ہزار کلومیٹر دور لوگوں کا غم اب تک دلوں میں کیوں ہے؟ بنگلہ دیش کی نسبت سری لنکا اور بھارت کے لوگ ہم سے زمینی اعتبار سے قریب تر ہیں‘ یہ اپنائیت ان کیلئے کیوں نہیں ہے؟ دورِ حاضر کے رنگ باز اس حقیقت کو جتنا بھی جھٹلائیں‘ اس پر جتنا بھی ملمع کر دیکھیں اس کی بنیاد اسلامی اخوت ہی نکلے گی۔ یہی بنیاد تھی جس نے 1916ء میں ترکی کے ساتھ ہمیں اس طرح کھڑا کر دیا تھا کہ مائوں بہنوں نے اپنے گلے کے ہار اور کانوں کے بُندے نکال کر ترک فنڈ میں جمع کرا دیے تھے۔ کیا رشتہ تھا ہمارا 1916ء میں ترکی سے؟ کتنا فاصلہ تھا دہلی اور استنبول میں‘ کبھی سوچا ہے؟1971ء کے وقت اور اس کے بعد سے کوئی ایک شخص بھی میں نے پاکستان میں ایسا نہیں دیکھا جسے اس سانحے کا دکھ نہ ہو۔مجھے نہیں معلوم کہ کسی ایک فرد نے بھی سقوطِ مشرقی پاکستان پر خوشی منائی ہو۔ کتابوں‘ مقالوں‘ بیانات‘ کمیشن رپورٹوں اور تجزیوں کا ایک انبار ہے جس میں اس واقعے کا بنیادی ذمہ دار سیاسی‘ عسکری‘ انتظامی فیصلہ سازوں کو قرار دیا گیا۔ ان غلطیوں کی نشاندہی کی گئی جو بنگالیوں کے معاملے میں 1947ء سے کی جاتی رہیں۔ عام طور پر ان سب کا رخ یہی ہے کہ بنگالی ان سب غلطیوں کے بعد علیحدگی پر مجبور تھے۔ خال خال کسی تحریر میں بنگالیوں کو قصوروار قرار دیا گیا۔ زیادہ جرم اپنوں ہی کا بتایا گیا اور ایک عام آدمی کا تاثر آج بھی وہی ہے۔ ہمارا خطاب مغربی پاکستان کے مسلمانوں سے رہا‘ بنگالی مسلمانوں سے نہیں۔
لیکن کیا حقیقت بھی یہی ہے کہ سقوطِ مشرقی پاکستان میں اہلِ بنگال کا کوئی قصور نہیں تھا؟ کیا یہ سچ ہے کہ تمام تر‘ یا زیادہ تر بنگالی علیحدگی چاہتے تھے اور اس پر مجبور ہو چکے تھے؟ کیا یہ درست ہے کہ سقوطِ مشرقی پاکستان پر بنگالی مسلمانوں کو کوئی دکھ نہیں تھا‘ وہ سب آزادی کی خوشیاں منا رہے تھے؟ یہ سوال معمولی نہیں۔ اہلِ بنگال سے کبھی مخاطب نہیں ہوا گیا۔ سو آج کا یہ کالم اہلِ بنگال ہی سے خطاب ہے۔ میں مغربی پاکستانیوں سے نہیں‘ مشرقی پاکستانیوں سے مخاطب ہوں۔ میں بنگلہ دیش کے 53 سال مکمل ہونے اور خاص طور پر موجودہ حالات پر ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس نصف صدی میں انہوں نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اہلِ بنگال! کیا کیا آپ نے؟
اہلِ بنگال‘ ان 53 سال میں کیا پایا آپ نے؟ آپ نے الگ ملک بنا لیا لیکن آج اس ملک میں آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ یہ ہم نے کیا کیا؟ حسینہ واجد کے زمانے میں جو زبانیں بند کر دی گئی تھیں‘ وہ پھر پوچھ رہی ہیں کہ سچ کیا تھا اور جھوٹ کیا؟ حقائق کیا ہیں اور مغالطے کیا؟ اور سب سے بڑا سوال یہ کہ کیا کھویا‘ کیا پایا؟ اہلِ بنگال! کیا کیا آپ نے؟ آپ نے الگ ملک بنا لیا‘ لیکن کیا آپ ایک الگ شناخت بنا سکے؟ ذرا غور کیجیے کہ آپ کی شناخت بنگالی قومیت یا زبان نہیں تھی۔ اگر بنگالی زبان‘ ثقافت اور قومیت الگ ملک کی بنیاد ہوتی تو آپ بھارت کے مغربی بنگال سے مل کر الگ ملک بناتے‘ جس کی زبان اور ثقافت بالکل آپ جیسی تھی‘ صرف مذہب کا فرق تھا۔ اگر آپ نے مغربی بنگال اور دیگر بنگالیوں کے ساتھ مل کر ایک ملک بنایا ہوتا تو بات سمجھ میں آتی کہ آپ بنگالی قومیت کے علمبردار تھے اور یہ منزل حاصل کر لی۔ آج 53 سال بعد بھی حال یہ ہے کہ وہ آپ سے نفرت کرتے‘ آپ کو حقیر سمجھتے اور آپ کے جھنڈے کی بے حرمتی کرتے ہیں۔ یہی حال بنگلہ دیش میں آپ کا ہے کہ آپ کولکتہ کے لوگوں کا نام سننا گوارا نہیں کرتے۔ یہ کیسی مشترک قومیت ہے؟ اگر اسلام آپ کی شناخت نہیں تو یہ غیریت کیسی؟
اہلِ بنگال کیا کیا آپ نے؟ اپنا جھنڈا بنایا تو اس میں مسلم شناخت کی سرے سے کوئی علامت ہی نہیں۔ ہر مسلم ملک کے جھنڈے میں کوئی علامت‘ کوئی رنگ ایسا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں رہنے والے مسلمان ہیں۔ پاکستان‘ ایران‘ ترکیہ‘ سعودی عرب‘ جھنڈے دیکھتے جائیے اور مسلم علامتیں پہچانتے جائیے۔ آپ کے جھنڈے میں کون سی علامت ہے آپ کی شناخت کی؟ ایک گہرے سبز پس منظر میں سرخ ابھرتا ہوا سورج‘ اس میں کون سی ایسی چیز ہے جو بتائے کہ آپ مغربی بنگال سے نظریاتی طور پر الگ ہیں؟
آپ نے قومی ترانہ بنایا تو ایسے شاعر کا جو بنگلہ دیش کا شہری ہی نہیں تھا اور جو کٹر ہندو تھا۔ ''امر شونار بنگلہ‘‘ تو رابندر ناتھ ٹیگور نے 1905ء کے پس منظر میں اُس وقت لکھا تھا جب برطانوی راج نے بنگال کی انتظامی تقسیم کی تھی۔ یاد رہے کہ برطانیہ نے بنگال کی مسلم اور ہندو اکثریت کے علاقوں کی بنیاد پر یہ تقسیم کی تھی۔ یعنی ملکوں کے فرق کے ساتھ کم وبیش وہی صورت جو اہلِ بنگلہ دیش اس وقت موجود ہے۔ یہ وہ رابندر ناتھ ٹیگور ہے جس نے مبینہ طور پر ڈھاکہ یونیورسٹی کے قیام کی مخالفت کی تھی اور جو بنگال کی تقسیم کا بڑا مخالف تھا۔ اے اہلِ بنگال کیا آج آپ کی اپنی پسند سے بنگال منقسم نہیں؟ کیا اس ترانے میں‘ جو آپ نے اپنی قومی شناخت کے طور پر اختیار کیا‘ ایک لفظ بھی آپ کی مسلم شناخت کا ہے؟ چلیے مسلم شناخت کو ایک طرف رکھیں‘ ایک لفظ بھی بنگلہ دیش کے نام سے موجود ہے؟ قومی ترانہ جسے ہر ملک اپنے فخر اور عزت کے طور پر اختیار کرتا ہے‘ کیا کروڑوں بنگلہ دیشیوں میں ایک فرد بھی اس قابل نہیں تھا کہ اپنی مسلم شناخت اور بنگلہ دیش کے لفظ کے ساتھ قومی ترانہ لکھ سکتا؟
اہلِ بنگال‘ 1947ء سے 1971ء تک آپ کو شکایت رہی کہ مغربی پاکستان ہمارے سیاسی‘ لسانی اور انتظامی حقوق نہیں دیتا‘ ہمیں ماتحت رکھتا اور ہمارے وسائل استعمال کرتا ہے۔ کیا آپ نے الگ ملک کے بعد یہ سب حقوق حاصل کر لیے؟ کیا آپ پر جبر وتشدد کی حکومت ختم ہو گئی؟ کیا آپ کی شناخت آپ کو مل گئی؟ کیا وہ اقتصادی ترقی اور مالی خوشحالی جس کے خواب آپ کو دکھائے گئے تھے‘ آپ کو میسر آ گئی؟ اقتصادی ترقی اور خوشحالی کا جو ڈھنڈورا حسینہ واجد کے زمانے میں بار بار پیٹا گیا‘ اس کی قلعی تو بنگلہ دیش کی عمومی بے چینی اور غربت سے ہی کھل جاتی ہے۔ میں اعداد وشمار میں گئے بغیر یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر یہ خوشحالی آپ کو میسر ہے تو آپ کے بچے خلیجی اور عرب ممالک میں ملازمتو ں پر کیوں مجبور ہیں؟ وہ اس ذلت آمیز رہن سہن پر کیوں مجبور ہیں جنہیں ایک عام پاکستانی اور بھارتی مزدور قبول ہی نہیں کرتا۔ پاکستانیوں اور بھارتیوں کو بھی وہاں بہت تکلیفیں ہیں لیکن بنگلہ دیشیوں سے کم۔ میرا سوال یہ ہے کہ حسینہ واجد کے بقول مالی طور پر خوشحال ملک اپنے بچوں کو اس مجبور زندگی سے کیوں نہیں نکال سکا؟کوئی ایک حقیقت تو لازماً مفروضہ تھی اور میرے نزدیک خوشحالی کا یہ ڈھنڈورا یک مفروضہ تھا۔ بات ابھی جاری ہے لیکن وقت ملے تو اپنے دل سے پوچھئے گا کہ اے اہلِ بنگال 1971ء میں آپ نے کیا کیا؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved