اقتدار اور طاقت ایسی چیزیں ہے جو انسان کو نشے میں چُور کر دیتی ہیں اور اسے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ہر صاحبِ اقتدار کوشش کرتا ہے کہ اپنے اقتدار کو طول دے اور اس کیلئے ہر جائز و ناجائز قدم اٹھایا جاتا ہے۔ اچھائی اوربرائی کا فرق مٹا دیا جاتا ہے اور انسانوں پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے جاتے ہیں۔ ہر آمر سب سے پہلے سچ بولنے والوں کو چپ کراتا ہے‘ اس کے بعد مظلوموں کو ڈراتا اور اپنے مخالفین کو نشانِ عبرت بناتا ہے۔ جب اس کی دہشت ہر دل میں بیٹھ جاتی ہے تو پھر اس کی پُرتعیش حکمرانی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ آمر بڑے بڑے محلوں میں رہتا ہے‘ نجی جیلیں اور ٹارچر سیل بناتا ہے اور اپنے خلاف آواز اٹھانے والوں کو قید کرا دیتا ہے۔ اکثر وہ علاقائی عدم استحکام کو بھی فروغ دیتا اور ہمسایہ ملکوں کے ساتھ جنگیں چھیڑتا ہے۔ جنگیں آمروں کیلئے بزنس کا ذریعہ ہوتی ہیں اور بے قصور عوام ان کا ایندھن ہوتے ہیں۔ آج تک ہم نے جتنے بھی آمر دیکھے‘ لگ بھگ سبھی بہت ظالم‘ جابر اور مطلق العنان تھے۔ وہ خوف پھیلا کر حکمرانی کرتے رہے۔ شاہانہ پروٹوکول‘ مہنگی سواریاں‘ فارم ہائوسز‘ آف شور اکائونٹس‘ اندرون وبیرونِ ملک جائیدایں‘ دولت میں بے تحاشا اضافہ‘ دنیا کے ہر کونے میں اثاثے‘ ہر آمر کی یہی شناخت رہی ہے۔آمرانہ طرز کے ممالک میں آزادیٔ رائے ختم ہو جاتی ہے اور ہر طرف خوف کا راج ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ جب باغی سر اٹھاتے ہیں یا دشمن گروہ متحرک ہوتے ہیں تو ملک میں خانہ جنگی شروع ہو جاتی ہے۔ مگر یہ آمر سفاکی اور ظلم کے ساتھ اپنی آمریت کو دوام دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا کہ آٹھ‘ دس سال تو یہ حکمرانی کر لیتے ہیں مگر اس کے بعد ان کا زوال شروع ہو جاتا ہے اور تاریخ میں یہ محض ایک نشانِ عبرت کے طور پر یاد رکھے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود دیگر حکمران ان سے سبق نہیں سیکھتے اور اسی ڈگر پر چلتے رہتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے طویل ظلم و جبر کے اقتدار کا سورج غروب ہوا۔ بنگلہ دیش کے عوام نے جب شاہی محلات پر دھاوا بولا تو دنیا بنگلہ دیش کے حکمرانوں کی دولت وامارت دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ عوام محلات سے سامان کو مال غنیمت کی طرح لوٹ رہے تھے۔ ان محلات سے تمام قیمتی اشیا لوٹ لی گئیں۔ حسینہ واجد اور اس کے والد شیخ مجیب کے مجسمے توڑ دیے گئے۔ لوگ حسینہ کے جبر اور ظلم سے تنگ آ چکے تھے۔ اس نے اپنے مخالفین کو سالوں جیل میں قید کر رکھا تھا اور جماعت اسلامی سمیت اپوزیشن کے کئی رہنمائوں کو پھانسیاں دیں۔ عوام معاشی طور پر بدحال ہوتے گئے تو نوجوانوں میں بغاوت نے جنم لیا اور یوں حسینہ واجد کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ حسینہ واجد نے فوری طور پر اڑان بھری اور بنگلہ دیش چھوڑ کر بھارت میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئی۔
حال ہی میں ایک اور آمر کا سورج ڈوب گیا ہے۔ بشار الاسد 2000ء میں اپنے والد کے انتقال کے بعد شام کا سربراہ بنا تھا۔ اس کے والد حافظ الاسد نے 1963ء میں مارشل لاء لگا کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ بشار الاسد کے اقتدار میں آنے کے بعد جمہوریت کے لیے دبی دبی آوازیں اٹھنا شروع ہوئیں تو اس نے اپنے مخالفین پر بدترین کریک ڈائون کیا۔ پہلے تو بات صرف چند آوازوں تک محدود تھی لیکن پھر مظاہروں تک آ گئی اور حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ 2011ء سے شام میں باقاعدہ خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ موروثی حکمران ہمیشہ اپنے اقتدار کا سوچتا ہے‘ اسے ملک سے کچھ غرض نہیں ہوتی۔ بشار الاسد نے بھی یہی کیا۔ جب شام میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو اس دوران بہت سے گروپ ابھر کر سامنے آئے۔ بشارالاسد نے اپنے مخالفین کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا۔ اس جنگ میں چھ لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے اور لاکھوں خاندانوں کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ لاکھوں مہاجرین کی صورت میں ہمسایہ ممالک کے کیمپوں میں چلے گئے جبکہ کچھ محفوظ جگہ جانے کی تلاش میں سمندر میں ڈوب گئے‘ جن میں تین سالہ ننھا ایلان کردی بھی شامل تھا۔ اس کے والدین جنگ کی وجہ سے شام سے نکلے تھے لیکن موت نے اس خاندان کو نگل لیا اور سمندر کی لہریں ایلان کا مردہ وجود ترکیہ کے ساحل پر چھوڑ گئیں۔ اس واقعے نے پوری دنیا کو رنجیدہ کر دیا تھا۔ ترکیہ نے بعد میں بڑی تعداد میں مہاجرین کو اپنے ملک میں آنے کی اجازت دے دی۔ اس سانحے نے شام کے حالات کو دنیا کے سامنے لانے میں اہم کردار ادا کیا۔
اسی طرح داعش نے مشرقی شام کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرکے عوام پر ظلم ڈھانا شروع کر دا اور 2014ء میں شام اور عراق کے سرحدی علاقوں میں نام نہاد خلافت کے قیام کا دعویٰ کیا جس سے شام کی خانہ جنگی کی آگ مزید بھڑک اٹھی۔ گوکہ 2017ء میں داعش کو شکست کا سامنا کرنا پڑا مگر اس کے باوجود شام اور عراق میں اب بھی داعش کے جنگجو ہزاروں میں ہیں۔ مارچ 2020ء میں شام میں جنگ بندی عمل میں آئی مگر حالات سنبھل نہیں سکے۔ 2021ء میں نام نہاد الیکشن کے بعد بشار الاسد ایک بار پھر شام کا صدر بن گیا۔ تاہم وہ عالمی دنیا میں اپنی مقبولیت اور دوست کھو چکا تھا۔ 2023ء میں جنگی جرائم میں ملوث ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی عدالت نے اس کے وارنٹ بھی جاری کیے تھے۔ اب یکایک حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ طاقتور ترین صدر کو چھپ کر اپنے ہی ملک سے بھاگنا پڑ گیا۔ اس کے طیارے کی منزل روس تھی۔ وہ اپنے محل میں لگژری گاڑیاں‘ پیسے اور اپنی امارت چھوڑ کر محض اپنی جان بچا کر بھاگ نکلا۔ اقتدار میں اس نے خوب پیسہ کمایا اور دنیا بھر میں اس خاندان کی جائیدادیں ہوں گی لیکن جہاں سے وہ یہ پیسہ بنا رہے تھے‘ یعنی ان کا اپنا ملک‘ وہ اب ان کے پاس نہیں رہا۔ نہ ہی وہ طاقت‘ رعب ودبدبہ اور نہ ہی وہ نجی جیلیں میسر ہوں گی جہاں وہ اپنے مخالفین کو قید کرا دیا کرتے تھے۔ اقربا پروری‘ کرپشن اور موروثیت نے اس خاندان کو عوام میں ناپسندیدہ بنا دیا۔ اس کے جابرانہ فیصلوں نے عوام کے دلوں میں اس کے خلاف شدید نفرت پیدا کر دی۔ گزشتہ ماہ ہیئۃ التحریر الشام نامی گروپ نے حملہ کیا تو پہلے حلب پر کنٹرول حاصل کیا اور پھر دس دنوں میں دمشق کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد بشار الاسد کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔ اسد خاندان کی پچاس سالہ حکمرانی کا خاتمہ کرنے والے ابو محمد الجولانی ہیں۔ نائن الیون کے بعد وہ القاعدہ کا بھی حصہ رہے مگر پھر شام میں اسد خاندان کے اقتدار کے خاتمے کے لیے القاعدہ سے ہٹ کر ایک نئے گروپ کی بنیاد رکھی۔ اسی گروپ نے بشار الاسد کوشکست دی ہے۔ اب شام میں عبوری حکومت قائم کر دی گئی ہے اور محمد البشیر کو عبوری وزیراعظم مقرر کیا گیا ہے۔ اس وقت بڑی تعداد میں اُن قیدیوں کو جیلوں سے آزاد کیا جا رہا ہے جو اسد خاندان کی مخالفت کی وجہ سے جیلوں میں قید تھے۔ اس کے ساتھ عوام نے حافظ الاسد کے مقبرے کو بھی نذرِ آتش کردیا ہے۔ نئی حکومت نے شخصی آزادی کے احترام کے بلند بانگ دعوے کیے ہیں‘ لیکن آگے ہوگا کیا یہ وقت ہی بتائے گا۔ اس تبدیلی کے اثرات مشرق وسطیٰ پر بھی پڑتے نظر آ رہے ہیں۔ ایران‘ روس‘ اسرائیل‘ ترکیہ اور امریکہ سمیت متعدد ملکوں کے حمایت یافتہ گروپ یہاں متحرک رہے ہیں۔ اب اسرائیل نے شام کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ دنیا کو مل کر اس خطے کے مسائل کا حل نکلنا ہوگا کیونکہ دہائیوں سے جاری جنگ نے یہاں کے عوام کو نڈھال کردیا ہے۔ فی الوقت تو شام کے عوام انقلاب آنے پر خوش ہیں اور حافظ الاسد خاندان کی نشانیاں مٹا رہے ہیں مگر یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ آئندہ کیا ہوگا‘ کیا اس ملک میں مزید شورش اور خانہ جنگی جنم لے گی یا یہ نیا نظام امن لائے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved