تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     04-11-2013

نظرثانی؟

طالبان کے ساتھ مذاکرات سے اہم تر مسئلہ اب پاک امریکہ تعلقات بن گئے ہیں۔میرا خیال ہے دورِ جدید میں پہلی مرتبہ کسی حکومت نے،اس باب میں، ایک واضح سمت میں پیش قدمی کا عندیہ دیا ہے۔وزیرداخلہ چودھری نثار علی کی پریس کانفرنس غیر مبہم ہے۔ جو بات وہ زبانِ قال سے کہہ رہے تھے،زبانِ حال (Body Language) بھی اس کی تصدیق کر رہی تھی۔ امریکہ کے حوالے سے،ماضی قریب میں مجھے(قال اورحال کی) یہ یکسانیت اہلِ اقتدار میں بہت کم دکھائی دی ہے۔مجھے خوشی ہو گی اگر حکومت اس معاملے میں ابہام سے باہر آجائے۔ بنیادی سوال ایک ہی ہے۔۔۔۔۔خطے کے تناظر میں پاکستانی اور امریکی مفادات میں جو تصادم ہے، اُسے کیسے دور کیا جائے؟ افغانستان سے سویت یونین کے انخلا کے بعد یہ تصادم پیدا ہوا اور ہم نے اس کے ساتھ جینے کی کوشش کی۔ہم ہر آنے والے دن اس دلدل میں پھنستے چلے گئے۔ہم نے اس تصادم سے جنم لینے والے تضادات کو نبھانے کی ناکام کو شش کی،آج اس کا نتیجہ ہے کہ ہم طالبان کی نظر میں مشکوک ہیں اور امریکی نگاہ میں بھی ۔یہ نتیجہ اس بات کی نا قابلِ تردید دلیل ہے کہ ہم نے ایک ناکام حکمت عملی اپنا ئی،اسے بدلے بغیر اب مزید پیش قدمی نہیں ہو سکے گی۔امریکہ کو2014ء تک اس خطے کے بارے میں بنیادی فیصلے کرنے ہیں۔ان ممکنہ فیصلوں کے خد وخال جو اب تک سامنے آئے ہیں،وہ پاکستان کے مفادات سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔اس لیے ہمیں بھی بنیادی فیصلے کر نا ہوں گے۔اگر حکومت نے اس کی ضرورت کا ادراک کر لیا ہے تویہ اچھا شگون ہے۔ یہ امریکی فیصلہ تو واضح ہے کہ انخلا کے بعد جو افغانستان امریکہ کے پیش نظر ہے،اس میں بھارت کا تو ایک کردار ہے لیکن پاکستان کا نہیں۔افغانستان میں اگرپاکستان کی کوئی اہمیت ہو سکتی ہے تو وہ طالبان کے ساتھ معا ملہ کرنے میں بطور مددگارہو سکتی ہے۔امریکہ اب اس باب میں پاکستان سے بے نیاز ہو کر فیصلہ کر نا چاہتا ہے۔اگر وہ طالبان کے کسی کردار کو دیکھ رہا ہے تو وہ اس کے لیے ان سے براہ راست معا ملہ کرے گا، پاکستان کے توسط سے نہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ طالبا ن کا کوئی کردار نہ چاہے۔دونوں صورتوں میں مجھے یہی دکھا ئی دیتا ہے کہ وہ پاکستان سے بے نیاز ہو نا چا ہتا ہے۔ ڈرون حملوں کے حوالے سے اس نے پاکستان کی ضروریات اور مسائل سے جس طرح صرفِ نظر کیا ہے،اس سے واضح ہے کہ اسے اب پا کستان کی زیادہ ضرورت ہے نہ پروا۔ طالبا ن کا افغانستان میں کوئی کردار نہیں رہتا یا امریکہ ان کے ساتھ براہ راست معا ملہ کرتا ہے،دونوں صورتوں میں پاکستان، مستقبل کے عالمی ایجنڈے کا حصہ نہیں ہوگا۔افغانستان میں پاکستان کا واحد اثاثہ طالبان ہیں۔یہ اثاثہ معلوم ہو تا ہے کہ اب پاکستان کے کام نہیں آئے گا۔اب پاکستان کے پاس دو راستے ہیں۔ایک یہ کہ وہ کسی متبادل عالمی ایجنڈے کا حصہ ہوجو امریکی ایجنڈے کے متبادل کے طور پرسامنے آئے۔یہ تب ہی ممکن ہے جب روس یا چین اس سمت پیش قدمی کریں۔اس میں بھی ہمارے لیے ایک مسئلہ ہے۔چین اور روس بھی یہ چاہیں گے کہ پاکستان کی سرزمین پر پنپنے والی وہ تحریکیں ختم ہوں جو ان ممالک میں اضطراب پیدا کر رہی ہیں۔اگر پاکستان ان کے مطالبے کو مان کر اقدام کر تا ہے تو پاکستان کواسی مزاحمت کا سامنا ہو گا جس کا اس وقت ہے۔ گویا یہ دائرے کا سفر بن جائے گا۔دوسری صورت یہ ہے کہ پاکستان حسبِ سابق امریکی کیمپ میں رہے۔ اس صورت میں امریکہ غیر مشروط وفاداری کا مطالبہ کرے گا۔وہ پاکستان کی اقتصادی اور مادی امداد کے لیے آ مادہ ہوگا لیکن جن معاملات میں دونوں کے مفادات کا تصادم ہے، ان میں وہ چاہے گا کہ پاکستان امریکی مفادات میں مزاحم نہ ہو۔ امریکی طرزِ عمل سے یہ واضح ہے کہ اسے اب پاکستان کی ضروریات سے زیادہ دلچسپی نہیں رہی۔ وہ ہم سے زیادہ اس بات سے باخبر ہے کہ پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات کی شدت کا کیا عالم ہے۔اسے معلوم ہے کہ ایک ڈرون حملہ کیسے اس کے خلاف نفرت میں اضافہ کر تا ہے۔اس کے باوصف وہ اپنی حکمت عملی میں کسی تبدیلی کے لیے آ مادہ نہیں۔ یہ اس بات کا واضح اظہار ہے کہ وہ اب پاکستان سے ماورا ایک حکمت عملی کو اختیارکیے ہوئے ہے۔میں جا نتا ہوں کہ خارجہ پالیسی میں ہر کسی کی مجبوری ہوتی ہے اور پاکستان امریکہ کی مجبوری ہے۔اب معلوم ہو تا ہے کہ امریکہ اس مجبوری سے جان چھڑانا چاہتا ہے۔اگر عمران خان اپنی سطحی جذباتیت پر قابو نہیں پائیں گے تو اس امکان ہے کہ امریکہ پاکستان کے خلاف مزید یک سو ہو جائے۔تاہم ایسابھی نہیں ہو گا کہ کل امریکہ ایک نئے چہرے کے ساتھ نمودار ہو۔وہ اس معاملے کو سفارت کاری کی زبان میں حل کرنے کی کوشش کرے گا لیکن اس کی بنیادی سوچ وہی رہے گی جس کا میں نے ذکرکیا۔ پاک امریکہ تعلقات کی یہی مشکلات ہیں جن کے باعث میں اسے دائرے کا سفر سمجھتا ہوں۔پاکستان کے پاس اگر کوئی اور راستہ ہے تو یہی ہے کہ وہ امریکی تائید سے یک سر بے نیاز ہو کرکوئی حکمت عملی اپنا ئے۔یہ کہاں تک ممکن ہو گا، یہ اسحاق ڈار صاحب بتا سکتے ہیں۔اگر پاکستان عالمی برادری میں متبادل تلاش کر نا چاہے گا تو ایسا متبادل اس وقت میسر نہیں ہے۔ایران خود دنیا کی طرف مراجعت کررہا ہے۔اب لاطینی امریکہ کے کچھ ممالک ہیں یا پھر شام۔روس اور چین کا میں ذکر کر چکا کہ ان کا بنیادی مطالبہ امریکہ سے مختلف نہیں ہوگا۔ایک راستہ یہ ہے کہ خود امریکہ بدل جائے اور پاکستان کے مطالبے پر ڈرون وغیرہ بند کر دے۔میں اس امکان کو پوری طرح رد نہیں کرتا کہ امریکہ عارضی تعطل پر آمادہ ہوجائے لیکن یہ حکمت عملی میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ہوگی۔ اگر یہ تجزیہ درست ہے تو پاکستان بظاہر ایک بند گلی میں کھڑا ہے۔مجھے لگتا ہے کہ پاکستان کوبالآخر وہی کچھ کرنا پڑے گا ، جس سے وہ اس وقت گریزاں ہے۔اس کے لیے لازم ہے کہ امریکہ اسے مہلت دینے پر آمادہ ہو۔اب یہ حکومت کا امتحان ہے کہ وہ یہ مہلت لے سکتی ہے یا نہیں۔نوازشریف صاحب کو اب ساٹھ سالہ قرض اتارنا ہے۔ تاریخ کے ایک ایسے موڑپر انہیں اقتدار ملا ہے کہ جب پاکستان اپنی اقتصادی، سیاسی اورسفارتی غلطیوں کے نتائج سے گزر رہاہے۔ہم نے جو بویا تھاوہ فصل تیار ہو چکی،یہ تو اب کاٹنا پڑے گی۔چودھری نثار صاحب نے جو کچھ کہا،اس کی اہمیت سے انکار محال ہے۔پاکستان کو امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرنی ہے۔ انہیں یہ معلوم ہو گا کہ جب ایک طرف سے نظر ثانی ہو تی ہے تو دوسری طرف سے بھی ہو تی ہے۔ پاکستان سرخرو ہو سکتا ہے اور اس کا صرف ایک حل ہے۔۔۔۔۔ اپنے تضادات سے نجات۔اگر مو جودہ قیادت یہ کر سکتی ہے توپھر اس کے لیے امکانات موجود ہیں۔ تضادات کے ساتھ زندہ رہنے کا انجام تو ہم نے بچشمِ سر دیکھ لیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved