تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     17-12-2024

بے سمت سفر

26 نومبر کے احتجاج کے بعد سے تحریک انصاف میں نیا بیانیہ تشکیل پا چکا ہے کہ ''گولی کیوں چلائی؟‘‘ جس طرح اس سے قبل پی ٹی آئی کے بیانیے کارکنوں اور پی ٹی آئی قیادت میں مقبول ٹھہرے‘ ویسے ہی اس بیانیے کو بھی پذیرائی مل رہی ہے۔ 26 نومبر کے احتجاج کے بعد عام تاثر یہی تھا کہ کچھ عرصہ تک پی ٹی آئی ناکامی کے اس بوجھ سے نہیں نکل سکے گی لیکن وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کے بیانات سے لگتا ہے کہ وہ نئے بیانیے سے فائدہ اُٹھا کر کارکنوں میں تحریک پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ مطلوبہ سیاسی مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ گولی وزیراعلیٰ پختونخوا کے محافظوں نے چلائی تھی اور کارکنوں کی اموات کی جو تعداد بتائی جا رہی ہے اس کے شواہد بھی موجود نہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف نے اتوار کے روز پشاور کے باغِ ناران میں ڈی چوک احتجاج کے دوران جاں بحق ہونے والے کارکنوں کے ایصالِ ثواب کے لیے دعائیہ تقریب اور قرآن خوانی کا اہتمام کیا۔ تقریب میں وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور اور پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان سمیت جماعت کی مرکزی اور صوبائی قیادت اور کارکنوں نے شرکت کی۔ بانی پی ٹی آئی نے پشاور میں بڑے اجتماع کی ہدایت کی تھی مگر یہ اجتماع ایک تقریب تک محدود رہا جس میں چند سو لوگوں نے شرکت کی۔ اس موقع پر علی امین گنڈاپور کا مخالفین پر تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ گولی کیوں چلائی‘ جس نے گولی چلائی اور جس نے حکم دیا اس کو جواب دینا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اگلی دفعہ پُرامن والی بات نہیں کریں گے‘ جب ہم اسلحہ لے کر نکلیں گے تو پھر دکھائیں گے کہ بھاگتا کون ہے۔ مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ شہدا کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیں گے اورحکومت کو جواب دینا ہو گا کہ گولی کیوں چلائی؟ خیال کیا جا رہا تھا کہ پی ٹی آئی ڈی چوک احتجاج میں جاں بحق ہونے والے کارکنان سے متعلق جو دعویٰ کر رہی ہے ان کی حتمی تعداد اور شواہد قوم کے سامنے ضرور پیش کرے گی مگر 20 دن گزرنے کے باوجود بات دعووں اور الزامات سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ پارٹی کی طرف سے جن 12 لوگوں کی فہرست پیش کی گئی ہے‘ ان کی تصاویر اور ہلاکت کے شواہد کیوں پیش نہیں کیے گئے کہ واقعی یہ لوگ احتجاج میں شریک تھے اور اسی جگہ ان کی موت ہوئی اور اس کی وجہ سکیورٹی اہلکاروں کی فائرنگ تھی؟ علی امین گنڈا پور کا بیان کارکنان کے ذہنوں میں نفرت گھولنے کے مترادف ہے‘ اگر کارکان اسی انتقام کے جذبے کے ساتھ دوبارہ اس تحریک کا حصہ بنتے ہیں تو پہلے سے کہیں زیادہ نقصان ہو سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کے نئے بیانیے اور قیادت کے دھمکی آمیز بیانات کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایسے ماحول میں مذاکرات کی بات آگے نہیں بڑھ سکتی کیونکہ مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا ہے تو تلخ بیانات سے گریز کرنا ہو گا۔
جب بھی مذاکرات کی بات شروع ہوتی ہے تو پی ٹی آئی مذاکرات سے دور چلی جاتی ہے‘ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اسے سمجھنے کے لیے افلاطون کی عقل کی ضرورت نہیں۔ پی ٹی آئی کا طرزِ سیاست اور قیادت کا تلخ رویہ اسے مذاکرات سے دور لے جاتا ہے۔ پی ٹی آئی قیادت میں کچھ لوگ اس رویے کو مزاحمتی بیانیے کا نام دیتے ہیں اور کسی صورت اسے ترک کرنے کو تیار نہیں۔ یوں مذاکرات کی کامیابی کے لیے جس ماحول کی ضرورت ہوتی ہے وہ بن نہیں پاتا۔ پی ٹی آئی قیادت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مذاکرات صرف بات چیت کا عمل نہیں بلکہ یہ ایک فن ہے جس میں مختلف نقطہ نظر رکھنے والے افراد مشترکہ مفادات تلاش کرکے متفقہ فیصلے پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب تنازعات پیچیدہ ہوتے ہیں تو مذاکرات کاروں کو حکمت عملی اور برداشت کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔کامیاب مذاکرات کار اسے سمجھا جاتا ہے جو مخالف کی بات ٹھنڈے دل و دماغ سے سنے۔ وہ صرف اپنی بات کرکے نتیجہ اخذ نہیں کرتا بلکہ دوسرے کی بات کو بھی سنتا ہے اور اس کی اہمیت کو سمجھتا ہے۔ اس سے دوسرے شخص کو احساس ہوتا ہے کہ اس کی بات کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ اسی طرح مذاکرات کار تنازع کے پیچھے چھپے اصل محرکات کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب دونوں فریق اپنے مشترکہ مفادات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں تو تنازع حل کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ مذاکرات کاروں کی توجہ روایتی حل کے بجائے تخلیقی حل کی تلاش پر مرکوز ہوتی ہے۔ بسا اوقات غیرروایتی حل تنازع کے حل میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ مذاکرات کار لچکدار رویہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ اپنی رائے پر ڈٹے رہنے کے بجائے حالات کے مطابق اپنی رائے تبدیل کرنے کے لیے بھی تیار رہتے ہیں۔ مذاکرات کے دوران جذبات کو قابو میں رکھنے کی خاص اہمیت ہے۔ غصے‘ نفرت یا دیگر منفی جذبات کا اظہار مقصد سے دور لے جا سکتا ہے۔ مذاکرات کاروں کے چہروں پر مسکراہٹ ہوتی ہے‘ وہ مخالفین کے ساتھ عزت اور احترام کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ مذاکرات کاروں کے اس طرزِ عمل سے مذاکرات کی کامیابی کے لیے مثبت ماحول بنتا ہے۔ سارے تنازعات کا ایک ساتھ حل تلاش کرنا مشکل ہوتا ہے‘ اس لیے ان تنازعات کو مرحلہ وار حل کیا جا سکتا ہے۔ اس سے مذاکرات کا عمل آسان اور منظم ہو جاتا ہے۔ اگر مذاکرات میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہو تو ثالث کی مدد لی جا سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کی مذاکرات میں ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہیں کوئی ثالث دستیاب نہیں ہو سکا یا پھر پی ٹی آئی خود ہی کسی ثالث پر اعتماد کے لیے تیار نہیں ہے۔ مذاکرات کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پہلی یا دوسری نشست میں معاملات حل ہو جائیں‘ اس میں کئی ماہ بھی لگ سکتے ہیں۔ سو مذکرات کاروں کو ذہنی طور پر طویل عرصے تک مذاکرات کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو مذاکرات کے لیے جس درجے کی سنجیدگی اور تحمل کی ضرورت ہے وہ پی ٹی آئی میں نظر نہیں آتی۔ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کو ابھی ابتدائی سطح پر بھی قرار نہیں دیا جا سکتا مگر پی ٹی آئی قائدین حکومت پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔ خان صاحب کے جیل جانے کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت اور کارکنوں کے بارے کہا جا سکتا ہے کہ یہ بے سمت چلے جا رہے ہیں۔ ان کے جذبات ہیں مگر انہیں خود معلوم نہیں ہے کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ کبھی بیان آتا ہے کہ ایوان کی سیاست کرنی ہے تو ذی شعور سمجھنے لگتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو دیر آید درست آید کے مصداق اگر اب بھی ایوان کا خیال آ گیا ہے تو یہ درست اقدام ہے۔ پارٹی چیئرمین ایوان میں برملا کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ ہمیں مذاکرات کا راستہ فراہم کرے تو سمجھا جاتا ہے کہ اگر پی ٹی آئی تصادم سے بچنے کے لیے راستہ مانگ رہی ہے تو اسے فراہم کیا جانا چاہیے مگر پھر پارٹی کے کچھ قائدین ایسے بیانات دے دیتے ہیں کہ حیرت ہونے لگتی ہے کہ اگر پارٹی جارحانہ اور مزاحتی موقف پر قائم ہے تو پھر پارلیمنٹ سے راستہ کیوں مانگا جا رہا ہے؟ مذاکرات یا مزاحمت؟ جب تک یہ تعین نہیں ہو جاتا ہے تب تک پی ٹی آئی کا ہجوم بے سمت دائروں میں گھومتا رہے گا اور یہ واضح ہے کہ بے سمت سفر کبھی ختم نہیں ہوتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved