قومی سانحات بھلائے نہیں جا سکتے۔ دس سال قبل آرمی پبلک سکول کا دلدوز حادثہ اب بھی قلب و جگر کو زخمی کر دیتا ہے۔ وہ پھول اور کلیاں‘ جو انتہائی درندگی کے ساتھ مسل دی گئیں‘ والدین اور عزیز و اقارب کو کب بھول سکتی ہیں۔ اللہ ظالموں کو دنیا میں بھی عبرت کا نشان بنائے اور آخرت میں تو ظاہر ہے کہ اس خونِ بے گناہ کا حساب انہیں دینا ہی ہو گا۔ اس سانحہ کی طرح ایک اور بہت بڑا قومی سانحہ 53 سال قبل رونما ہوا۔ سقوطِ ڈھاکہ کا یہ واقعہ بھی ناقابلِ فراموش ہے۔ اسلام کے نام پر بننے والے ملک کو دو ٹکڑے کر دیا گیا۔ اس میں اپنوں کی غلطیاں اور دشمن کی چالیں سبھی شامل تھیں۔ ہتھیار ڈالنے کا سانحہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اب بھی میں اس دن کو یاد کرتا ہوں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ میں اُن دنوں اپنے گاؤں میں تھا جب ریڈیو کی خبروں میں یہ افسوسناک خبر سنی۔ قلب و جگر پر آرے چل گئے۔ دل میں خیال گزرا کہ ہتھیار ڈالنے سے فوجیوں کی جانیں تو بچ جائیں گی مگر ان رضاکاروں کا کیا ہو گا جو سالمیتِ پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگائے ہوئے تھے۔ وہ نوجوان بغیر کسی لالچ کے محض حب الوطنی کی خاطر جانوں کے نذرانے پیش کر رہے تھے۔
کئی مہینوں سے بھارتی فوجیں مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوجوں کے مقابلے پر مکتی باہنی (عوامی لیگی مسلح گروپ) کے ساتھ مل کر جنگ لڑ رہی تھیں۔ اس جنگ میں پاکستان کی بقا کے لیے البدر اور الشمس کے رضاکار نوجوانوں نے جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ ان کی قربانیوں کے باوجود بدقسمتی سے مغربی پاکستان سے رابطہ کمزور ہو جانے کی وجہ سے فوج بے بس ہو گئی اور بالآخر 16دسمبر 1971ء کو جنرل نیازی مرحوم نے بھارتی جرنیل جگجیت سنگھ اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ اسلامی تاریخ کا یہ درد ناک ترین لمحہ تھا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کے ہزاروں فوجی اور سویلین‘ جن کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا‘ بھارت کے جنگی قیدی بن گئے۔ البدر اور الشمس کے رضا کار بدترین قتلِ عام کا شکار ہوئے۔ ہر جانب ان کی لاشیں بکھر گئیں اور ان کے خاندانوں کو بھی بدترین انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔
البدر اور الشمس کے نوجوان اسلامی جمعیت طلبہ (اسلامی چھاترو شنگھو) کے تربیت یافتہ تھے اور جمعیت طلبہ کے تمام مرکزی‘ صوبائی اور علاقائی رہنماؤں سے میرے ذاتی روابط اور تعلقات رہے تھے۔ اس دن پوری پاکستانی قوم غم سے نڈھال تھی مگر تحریک اسلامی کے کارکنان اور قائدین کے دلوں پر تو مسلسل آرے چل رہے تھے۔ اس روز میں اپنے گاؤں میں تھا۔ دن بھر میں ایک کمرے میں بیٹھا مختلف مناظر کو یاد کر کے روتا رہا۔ کسی وقت قرآن پاک کی تلاوت کرتے اور اپنے بھائیوں کے لیے اللہ سے دعائیں کرتے کرتے آنکھ لگ جاتی‘ مگر کیفیت یہ تھی کہ آنکھ لگنے کے بعد بھی دردناک مناظر آنکھوں کے سامنے بار بار آتے اور آنکھ کھل جاتی۔ ہمارے گھر کے سب لوگ بھی پریشان تھے۔ یہ جمعرات کا دن تھا۔ جیسے کیسے دن گزرا اور رات آئی تو وہ رات بھی بڑی بھاری تھی۔ ایک ایک لمحہ پہاڑ معلوم ہوتا تھا۔ نیند آنکھوں سے غائب تھی اور غم کے طوفان چل رہے تھے۔
اگلے روز جمعۃ المبارک کے لیے تیاری کی ۔ ہینڈ پمپ سے تازہ پانی نکال کر غسل کیا۔ کوئی چیز کھانے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔ پیاری پھوپھی جان اور والدہ محترمہ کے پیار اور محبت کے طفیل بادلِ نخواستہ معمولی سا ناشتہ کیا اور دھوپ میں بیٹھ کر خیالات میں گم ہو گیا۔ میرے بہن بھائی سبھی بہت پریشان ہوئے۔ مسجد سے اذان کی آواز آئی تو تجدیدِ وضو کے بعد مسجد میں گیا۔ کچھ نمازی آ چکے تھے اور مزید مسلسل آ رہے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد تایا جان مرحوم نے اپنے مخصوص انداز میں فرمایا: ''ادریس! اُٹھو وقت ہو گیا ہے‘ تقریر کرو اور پھر خطبہ دے کر نمازِ جمعہ پڑھاؤ‘‘۔ میں بے سوچے سمجھے آپ کے حکم پر اُٹھ کر منبر پر بیٹھ تو گیا مگر خطبۂ مسنونہ کے چند الفاظ ادا کیے تو میری زبان رک گئی اور آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ میرے لیے مزید ایک لفظ کہنا بھی ناممکن ہو گیا۔ ایک منٹ یوں ہی گزر گیا۔ سب نمازی حیران تھے کہ کیا ہو گیا ہے۔ اس موقع پر محترم تایا جان مولانا حافظ غلام محی الدین اپنی جگہ سے اُٹھے اور آ کر مجھے محبت سے اشارہ کیا کہ میں منبر سے نیچے اُتر جاؤں۔
میں غم کے سمندر میں مسلسل غوطے کھا رہا تھا۔ تایا جان شفقت کے ساتھ میری طرف دیکھ رہے تھے۔ پھر آپ نے خطاب فرمایا اور اس میں مشرقی پاکستان میں ہونے والے مظالم‘ تحریک اسلامی کی قربانیوں اور آنے والے وقت کے خطرات پر روشنی ڈالی۔ ان کے خطاب کے دوران میں اپنی گرم چادر اوڑھے رو رہا تھا۔ میری چادر بھی اشکوں سے بھیگ گئی تھی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو سب نمازی مجھ سے ملنے لگے اور ہر ایک مجھے تسلی دینے لگا۔ بزرگ میرے سر پہ بار بار ہاتھ پھیرتے اور نوجوان مجھے گلے لگا کر میرے ساتھ روتے۔ ایک نمازی بابا محمد علی ٹھیکیدار تھے۔ وہ قریبی گاؤں کے رہنے والے تھے اور باقاعدگی سے جمعہ کی نماز ہماری مسجد میں آکر پڑھا کرتے تھے۔ ان کے ساتھ میری جان پہچان سکول کے زمانے سے تھی۔ اس دور میں مَیں اپنے گاؤں سے سکول کی طرف سفر کرتا تھا اور بابا جی بھی اپنے کاروبار کے لیے اسی جانب جایا کرتے تھے۔ ہم دونوں سائیکل پر ایک ساتھ نہر کی پٹڑی پر رواں دواں ہوتے۔ ان کا بنگلہ راستے میں آجاتا تو میں ان کو سلام کرکے سکول کی طرف آگے نکل جاتا۔ دوستی اس زمانے میں ہی پیدا ہو گئی تھی مگر بعد میں تو بہت ہی زیادہ قریبی تعلق قائم ہو گیا۔ وہ بار بار تایا جان سے پوچھتے: ''حافظ جی! حافظ ادریس کو کیا ہو گیا ہے؟ اس طرح تو کبھی پہلے اس کی حالت نہیں دیکھی‘‘۔ تایا جان نے انہیں بتایا کہ مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا ہے‘ اس کے نتیجے میں اس کے ہزاروں بنگالی ساتھی‘ جن سے اس کا قریبی تعلق ہے‘ مصیبت اور امتحان میں گرفتار ہو گئے ہیں۔ نہیں معلوم کتنے شہید ہو گئے اور کتنے ظلم کی چکی میں جیلوں میں پس رہے ہوں گے۔ ان محبوب تحریکی دوستوں کو یاد کر کے اس کی یہ کیفیت ہوئی ہے۔ ان دنوں کی یادیں اب بھی دل کو تڑپا دیتی ہیں۔
عبدالمالک شہید کے بعد کتنے ہی ساتھی شہادت کی وادی میں اُتر گئے۔ شاہ جمال چودھری‘ مصطفی شوکت عمران‘ محمد یونس‘ مطیع الرحمان نظامی‘ معین الدین چودھری‘ غلام سرور‘ جماعت کے تمام قائدین جو بعد میں پھانسی کے پھندے پر لٹکائے گئے‘ یہ سبھی شہدا اور غازیانِ اسلام بار بار آنکھوں کے سامنے آ جاتے!! اللہ سب کے درجات بلند فرمائے۔
ان سطور کی تحریر کے وقت ظلم کی دیوی حسینہ واجد کو اللہ نے بالآخر اقتدار سے محروم کر کے جس ذلت و رسوائی سے دوچار کیا ہے‘ دنیا بھر کے ظالم اس سے عبرت حاصل کریں۔ یہ مگر ہماری ایسی سوچ ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے 'ایں خیال است و محال است و جنوں‘۔ ہر ظالم سمجھتا ہے کہ میرا قلعہ مضبوط ہے‘ مگر مالکِ حقیقی کا حکم آ جائے تو کہیں پناہ نہیں ملتی! بنگلہ دیش کے حالات اب بھی مستحکم نہیں ہوئے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس برادر مسلم ملک کے حالات میں بہتری اور استحکام پیدا کر دے۔ یہ بات باعثِ اطمینان ہے کہ بنگلہ دیش کی موجودہ عبوری حکومت نے حکومت پاکستان کے ساتھ خیر سگالی کا اظہار اور برادرانہ تعلقات قائم کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اللہ اس سے دونوں ملکوں کے لیے خیر برآمد فرمائے‘ آمین!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved