مختلف دوست مختلف سوالات کرتے ہیں۔ کچھ دوستوں نے پوچھا کہ بلاول بھٹو نئے وزیراعظم کے طور پر سامنے لائے جا رہے ہیں؟ کچھ امریکی دوستوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ‘ ہر جگہ لاقانونیت ہے‘ سیاستدان کرپٹ ہیں۔ بلاول کے وزیراعظم بننے کے سوال پر میری رائے تھی کہ شہباز شریف کو کوئی خطرہ نہیں۔ مقتدرہ کو شہباز شریف سے بہتر کوئی نہیں ملے گا جو عمران خان اور نواز شریف کی طرح کسی واہ واہ یا بلّے بلّے کے چکر میں نہیں پڑتا۔ اپنے کام سے کام رکھتا ہے اور سب کو خوش رکھتا ہے۔ مقتدر حلقے اب دودھ کے جلے ہوئے ہیں‘ وہ کیونکر نواز شریف یا خان کے بعد بلاول کا تجربہ کریں گے؟
دوسری طرف جس دن امریکی دوستوں نے لاقانونیت کا تبصرہ کیا اُسی دن ایک امریکی سکول میں ایک طالبعلم نے اپنے کلاس فیلوز کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ ایک استاد بھی مارا گیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ فائرنگ کرنے والی ایک لڑکی تھی۔ ابتدائی رپورٹس کے مطابق فائرنگ کے بعد اس نے خود کو بھی گولی مار لی۔ امریکی سکولوں میں اوسطاً ہر ماہ شوٹنگ کا واقعہ پیش آتا ہے اور ہر دفعہ معصوم بچے مارے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود امریکی حکومت یا کانگریس اس قتلِ عام کی وجہ سے اسلحہ پر پابندی نہیں لگانا چاہتی‘ نہ ہی بندوق رکھنے کی عمر بڑھا کر پچیس سال کرنے کو تیار ہے۔ ہر بار گن لابی کی فتح ہوتی ہے۔ اب اسے قانون کی حکمرانی کہہ لیں یا گن لابی کی فتح یا کرپٹ سیاستدانوں کا کام کہ انہوں نے اس پابندی کو مسترد کر دیا ہے۔ بارک اوباما سکول شوٹنگ واقعات پر روتے دیکھے گئے تھے لیکن وہ بھی اسلحہ کنٹرول نہ کرا سکے۔ جو بائیڈن نے بھی بہت مذمتیں کیں لیکن کچھ نہ کر سکے۔
جہاں تک سیاستدانوں کے کرپٹ ہونے کی بات ہے تو خود ڈونلڈ ٹرمپ پر تیس‘ بتیس الزامات کا ٹرائل ہوا اور دیگر بہت سے الزامات بھی لگے۔ کچھ متنازع جنسی تعلقات پر سیٹل منٹس بھی ہوئیں۔ اس کے باوجود وہ دوسری بار امریکہ کے صدر بن گئے ہیں۔ میں نے امریکی دوست سے کہا: اب آپ کی اور ہماری سیاسی قیادت کے معیار میں زیادہ فرق نہیں رہا۔ چلیں ٹرمپ کو چھوڑیں جو بائیڈن کے بارے کیا خیال ہے جس نے اپنی صدارتی میعاد ختم ہونے سے ایک ماہ قبل اپنے بیٹے کو صدارتی معافی دے دی تاکہ وہ جیل میں سزا نہ بھگتے۔ بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ عدالتی کارروائی میں مداخلت نہیں کریں گے لیکن اب اپنے بیٹے کی سزا معاف کر دی۔ اس طرح ٹرمپ نے بھی اپنی بیٹی کے سسر کے جرم کو معاف کر دیا تھا۔ اب اس کو مشرقِ وسطیٰ کے لیے خصوصی نمائندہ مقرر کیا جا رہا ہے۔ ایک اور داماد کے باپ کو فرانس میں سفیر لگانے کی خبریں آ رہی ہیں۔ یہ دونوں ٹرمپ کے رشتہ دار ہیں‘ مطلب ٹرمپ نے وہی کام کیا جو پاکستان کے سیاستدان کرتے ہیں‘ جیسے شریف خاندان نے کیا اور اپنے رشتہ داروں کو اہم عہدے دیے۔ میں نے اپنے دوست سے کہا: اب بھی آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے سیاسی معاملات ہم سے بہتر یا آپ کی لیڈرشپ بہت اچھی ہے جو قانون اور قاعدے پر چلتی ہے‘ قریبی رشتہ داروں کو معافی دیتی ہے نہ انہیں بڑے عہدے دیتی ہے؟
امریکہ میں ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کو کہہ دیا گیا ہے کہ وہ چھٹی کرے جس کی سروس کے ابھی شاید تین سال باقی ہیں‘ کیونکہ وہ ٹرمپ کے چند معاملات کی انکوائری کر رہا تھا۔ یہ وہی کام ہے جو پاکستان میں کیا جاتا ہے‘ جیسے پیپلز پارٹی نے سابق ڈی جی ایف آئی اے طارق کھوسہ کے ساتھ کیا تھا‘ جنہیں زرداری صاحب کے سٹیل ملز کے دوستوں کے خلاف تحقیقات پر بدل دیا گیا۔ امریکہ میں بھی یہی صورتحال ہے۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ صدارت میں ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کومی کو بھی برطرف کر دیا تھا کیونکہ اس نے ٹرمپ کے خلاف جاری انکوائری میں وفاداری دکھانے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ وفاداری نہیں‘ ایمانداری کو ترجیح دے گا۔ ٹرمپ نے اگلے ہی دن اسے برطرف کر دیا۔ جو بائیڈن کے بیٹے پر الزام تھا کہ وہ یوکرین سے لاکھوں ڈالر اپنی فرم کے لیے لے رہا تھا۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں کہ امریکی سیاستدان بھی وہی کچھ کرتے ہیں جو دنیا بھر کے سیاستدان کرتے ہیں۔ لوگ کہیں گے کہ امریکی سسٹم بہت مضبوط ہے‘ وہاں کوئی غلط کام کر کے بچ نہیں سکتا۔ سوال یہ ہے کہ جب ٹرمپ نے اپنے رشتہ داروں کو نئی انتظامیہ میں جگہ دی‘ ایک بیٹی کے سسر کو ایک‘ تو دوسرے کو دوسرا عہدہ دیا تو پھر کہاں گیا سسٹم؟ سسٹم ٹرمپ کو یہ متنازع تعیناتیاں کرنے سے کیوں نہ روک سکا؟ یا جو بائیڈن کو یہ قانون اور سسٹم کیوں نہ روک سکا کہ وہ اپنے بیٹے کو معاف نہ کرے‘ الٹا ایسا قانون بنایا گیا ہے کہ صدر چاہے تو اپنے بیٹے کو بھی معاف کردے اور وہ جیل جانے سے بچ جائے۔ ذرا تصور کریں کہ پاکستان میں کوئی صدر یا وزیراعظم اپنے کسی بچے کو جیل جانے سے بچانے کے لیے اسے معافی دے دے تو ہمارے ہاں کیسا طوفان آ جائے گا۔ امریکہ میں ایک دن کی خبر اور پھر طویل خاموشی۔
ایک اور امریکی دوست کہنے لگا کہ اس نے پاکستان آنا ہے تاکہ اپنا آپریشن کرا سکے کیونکہ اسے امریکہ میں تاریخ نہیں مل رہی اور پھر اس کا خرچہ بھی بہت ہے۔ پاکستان میں یہی آپریشن بہت سستا اور اچھا ہو جاتا ہے۔ ایک اور دوست بولا: اگلے وزٹ پر پاکستان سے دانتوں کا علاج کرانا ہے کیونکہ پاکستان میں یہ علاج امریکہ کی نسبت بہت سستا ہے۔ میں نے حیرانی سے کہا:آپ تو پاکستان بارے مسلسل یہ کہتے ہیں کہ وہاں کچھ نہیں رکھا‘ اگر وہاں کچھ نہیں تو پھر آپ وہاں سے علاج کیوں کراتے ہیں؟
ابھی فرانس کے بارے ایک مضمون پڑھ رہا تھا۔ اس اہم یورپی ملک بارے پڑھ کر آپ کو پاکستان کے حالات بہتر لگنا شروع ہو جائیں گے۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ فرانس جیسے ملک کی سالانہ گروتھ صرف ایک فیصد ہے اور وہاں وزیراعظم ہر روز تبدیل ہو رہا ہے۔ رائٹ وِنگ پارٹیاں پورے یورپ میں الیکشن جیت رہی ہیں اور یہی کچھ امریکہ میں ہوا۔ مہنگائی نے لوگوں کا وہاں بھی جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔ فرانس کو بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔ اوپر سے یہ خطرہ ہے کہ چینی مصنوعات پر امریکی ٹیکس بڑھنے سے چین یورپ میں اپنی مصنوعات زیادہ بھیجے گا جس سے وہاں حالات مزید خراب ہوں گے اور مقامی انڈسٹری اور نوکریاں متاثر ہوں گی۔ رہی سہی کسر یوکرین جنگ نے پوری کر دی ہے‘ جسے شروع کرانے کی یورپ کو بہت جلدی تھی کہ افغانستان کے بعد دوسرا میدانِ جنگ مل جائے گا جہاں روس کو پھنسا کر اسے کمزور کیا جا سکتا ہے۔ اب یورپ کو جنگ سے نکلنے کا راستہ نظر نہیں آ رہا۔ جس یوکرین کو نیٹو میں لانے کیلئے جنگ شروع کی گئی تھی‘ اس نیٹو کا اب اپنا مستقبل خطرے میں ہے کیونکہ ٹرمپ چار سال پہلے بھی یہ کہتا تھا کہ نیٹو اپنا خرچہ خود اٹھائے‘ امریکہ کیوں اس کے اخراجات ادا کرے۔
ہر ملک اس وقت کسی نہ کسی دُکھ سے گزر رہا ہے لیکن وہی بات کہ ہمیں دنیا سے زیادہ اپنے ملک کے حالات کی فکر کرنی چاہیے کہ ہم یہاں رہتے ہیں۔ لیکن کیا کریں دنیا میں کوئی بھی اچھی یا برُی تبدیلی آئے تو وہ پاکستانیوں کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے‘ جیسے ٹرمپ کے جیتنے سے عمران خان کے حامیوں کو امید بندھ گئی ہے کہ ٹرمپ ان کے لیڈر کو اڈیالہ جیل سے رہا کرائے گا اور ان کا لیڈر باہر نکل کر ٹرمپ کے امریکہ سے پاکستانیوں کو آزادی دلائے گا۔ حکومت کہتی ہے کہ ہم نے اگر امریکی ہیرو شکیل آفریدی‘ جس نے اسامہ کی تلاش میں امریکہ کی مدد کی‘ کو آج پندرہ برس گزرنے کے بعد بھی رہا نہیں کیا تو عمران خان کوکیوں امریکی دبائو پر رہا کیا جائے گا۔ بہرکیف‘ ہماری ساری امیدیں اس وقت ٹرمپ سے جڑ گئی ہیں۔ ہر دور میں ہمیں ایک مسیحا اور ہیرو درکار ہوتا ہے‘ ہمارا نیا مسیحا اور ہیرو ٹرمپ ہے۔ دیکھتے ہیں ہمارا ٹرمپ کیا ٹرمپ کارڈ کھیلتا ہے۔ گیم آن ہے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved