اکیسویں صدی میں جامعات کا کردار کسی بھی ملک کی سماجی و معاشی ترقی میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وہ ادارے ہیں جو جمہوری اقدار‘ سماجی انصاف اور فکر و اظہار کی آزادیوں کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن یہ صرف اُسی وقت ممکن ہے جب یونیورسٹیوں کو ایک سازگار ماحول میں کام کرنے دیا جائے‘ جہاں انہیں مناسب تعلیمی خود مختاری حاصل ہو اور ان کی قیادت ایسے سربراہ کر رہے ہوں جو تحقیق اور دانشورانہ روایت سے وابستہ ہوں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ جامعات کے اندر سوچ اور اظہار کی آزادی ہو۔ بدقسمتی سے یونیورسٹیوں کی تعلیمی خود مختاری کو حکومتی اقدامات کے ذریعے محدود کیا جا رہا ہے۔ یونیورسٹیوں پر تسلط حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ جامعات کے وائس چانسلرز کی تقرری ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جامعات میں وائس چانسلرز کا کردار مرکزی ہوتا ہے اور ان کی علمی رہنمائی میں جامعات ترقی کے نئے سنگِ میل عبور کرتی ہیں۔ سرکاری جامعات کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو ہمارے سامنے وائس چانسلرز کے ناموں کی ایک جھلملاتی کہکشاں نظر آتی ہے۔ پروفیسر اشتیاق حسین قریشی‘ پروفیسر حمید احمد خان‘ پروفیسر کرامت حسین‘ ڈاکٹر جمیل جالبی‘ علامہ آئی آئی قاضی‘ ڈاکٹر سلیم الرحمن صدیقی‘ پروفیسر منظور احمد اور شیخ ایاز جیسے لوگ یونیورسٹیوں کی قیادت کر رہے تھے۔ اُس دور میں یونیورسٹیوں میں سوچ اور اظہار کی آزادی تھی۔ اس ماحول کی تشکیل میں جامعات کے وائس چانسلرز کا مرکزی کردار تھا۔ پھر زمانہ بدلا اور تعلیم اور تعلیمی اداروں کی ہیئت اور مقاصد میں بھی تبدیلیاں آگئیں ۔ اب جامعات کے سربراہوں کے چناؤ کیلئے اخبارات میں اشتہارات دیے جاتے ہیں۔ ان اشتہارات کے جواب میں بہت سے امیدوار وائس چانسلر بننے کیلئے درخواستیں دیتے ہیں۔ محکمہ تعلیم ان درخواستوں کی شارٹ لسٹنگ کرتا ہے اور پھر انٹرویو کا مرحلہ آتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر حکومتیں وائس چانسلرز کے انتخاب کیلئے سرچ کمیٹیاں بناتی ہیں۔ یہ کمیٹیاں جامعات کے وائس چانسلرز کے انتخاب کیلئے امیدواروں کے انٹرویوز کرتی ہیں اور کامیاب امیدواروں کے پینل کو اعلیٰ تعلیمی محکموں کو پیش کرتی ہیں۔ لیکن ان کمیٹیوں کی تشکیل‘ ممبران کے چناؤ اور حکومت کی طرف سے ''مطلوبہ نتائج‘‘ حاصل کرنے کیلئے سرچ کمیٹیوں پر اثرانداز ہونے کی کوششوں پر مختلف حلقوں کی طرف سے اکثر سوال اٹھتے رہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ وائس چانسلرز کیلئے شارٹ لسٹ کیے گئے امیدواروں کا دوبارہ انٹرویو وزیراعلیٰ کے ذریعے کیا جاتا ہے تاکہ جامعات کے متوقع وائس چانسلرز کو یہ باور کرایا جائے کہ اصل طاقت حکومت کے پاس ہے اور اس حقیقت کا ادراک وائس چانسلرز کو جتنی جلدی ہو جائے‘ انکے حق میں اتنا ہی بہتر ہے۔ حال ہی میں پنجاب حکومت اور گورنر (چانسلر) کے درمیان وائس چانسلرز کے انتخاب پر تنازع نے اس قدر طول کھینچا کہ ایک طرف تو میڈیا میں جگ ہنسائی ہوتی رہی اور دوسری طرف پنجاب کی جامعات میں وائس چانسلرز کی تقرری میں غیرضروری تاخیر ہوئی۔
جامعات میں حکومتی دلچسپی صرف پنجاب تک محدود نہیں بلکہ دوسرے صوبوں میں بھی ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں جن سے جامعات کی تعلیمی خود مختاری بتدریج سکڑتی جا رہی ہے۔ حال ہی میں سندھ اور خیبر پختونخوا میں ایسے اقدامات کیے گئے جن سے تعلیمی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑا گئی۔ آئیے سب سے پہلے سندھ میں یونیورسٹی ایکٹ میں ان مجوزہ تبدیلیوں کا جائزہ لیں جن کی منظوری سندھ کی صوبائی کابینہ نے دے دی ہے اور اب یہ معاملہ منظوری کیلئے صوبائی اسمبلی میں گیا ہے۔ ان تبدیلیوں کا تعلق جامعات میں وائس چانسلرز کی تقرری اور ان کی مدتِ ملازمت سے ہے۔ سب سے بڑی مجوزہ تبدیلی یہ ہے کہ اب وائس چانسلرز کے امیدواروں کیلئے پی ایچ ڈی کی شرط ختم کر دی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اب بغیر پی ایچ ڈی ڈگری کے کسی بھی شخص کو وائس چانسلر مقرر کیا جا سکتا ہے۔ اس تبدیلی کے سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں کیونکہ اس سے بیوروکریٹس کیلئے یونیورسٹیوں‘ جو اعلیٰ تعلیم کے مراکز ہیں‘ کا کنٹرول حاصل کرنے کے دروازے کھل جائیں گے۔ اس فیصلے کی تہہ میں بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ ماہرینِ تعلیم میں انتظامی صلاحیتوں کی کمی ہوتی ہے اور بیوروکریسی کے انتظامی کیڈر سے تعلق رکھنے والے لوگ یونیورسٹی کو بہتر انداز میں چلا سکتے ہیں۔ یہ یونیورسٹی قیادت کا ایک محدود اور گمراہ کن تصور ہے۔ یہاں اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ یونیورسٹی کو چلانے کیلئے صرف انتظامی صلاحیتیں کافی نہیں ہیں۔ جامعات کوانتظامی صلاحیتوں کے علاوہ تحقیق اور جمہوریت میں رچی بسی ہوئی تعلیمی اور فکری قیادت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک اور اہم ترمیم یہ ہے کہ وائس چانسلرز کی مدتِ ملازمت اب چار سال ہو گی‘ جس میں مزید توسیع کی گنجائش ہو گی۔ توسیع کا یہ امکان وائس چانسلرز کو حکومت کی حمایت کرنے پر مائل کرے گا تاکہ ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع ہو سکے۔
خیبر پختونخوا میں بھی یونیورسٹی ایکٹ میں کچھ بنیادی ترامیم کی گئی ہیں۔ سب سے اہم ترمیم یہ ہے کہ اب گورنر کے بجائے وزیراعلیٰ یونیورسٹیوں کے چانسلر کے طور پر کام کرے گا۔ اس بڑی تبدیلی کے سنگین اثرات ہوں گے۔ اول یہ کہ گورنر کا وزیراعلیٰ کے اقدامات پر کوئی چیک نہیں ہو گا۔ دوم یہ کہ وزیراعلیٰ (چانسلر) کو یونیورسٹی سینیٹ کے سربراہ کے طور پر سینیٹ میٹنگز کی صدارت کرنا ہو گی۔ ایک یونیورسٹی عام طور پر سال میں کم از کم دو سینیٹ میٹنگز کا انعقاد کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وزیر اعلیٰ کو صوبے کی 34یونیورسٹیوں کی متعدد میٹنگز میں شرکت کیلئے اپنے انتہائی مصروف شیڈول سے وقت نکالنا ہوگا۔ ایکٹ میں ایک اور ترمیم یہ ہے کہ وائس چانسلر کے عہدے کیلئے شارٹ لسٹ کیے گئے امیدواروں کا پینل وزیراعلیٰ کو اب حروفِ تہجی کی ترتیب میں بھیجا جائے گا‘ جبکہ ماضی میں اسے میرٹ کے مطابق بھیجا جاتا تھا۔ یہ حکومت کی طرف سے وزیراعلیٰ کو اپنی صوابدید استعمال کرنے کیلئے قانونی کور دینے کے مترادف ہے۔ یونیورسٹی ایکٹ میں ایک اور ترمیم یہ ہے کہ وائس چانسلر کی مدت اب چار سال ہوگی جبکہ ماضی میں یہ تین سال ہوا کرتی تھی۔ یہ بظاہر امید افزا ترمیم ہے لیکن اس میں بھی ایک چال ہے وہ یہ کہ دو سال کے بعد وائس چانسلر کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا اور اس کی بنیاد پر وائس چانسلر کی مدت کو ختم کیا جا سکتا ہے یا اس میں توسیع دی جا سکتی ہے۔ یہ ترمیم وائس چانسلرز کے سروں پر ایک تلوار کی طرح لٹکتی رہے گی اور نتیجتاً وہ مستقل طور پر غیریقینی حالت میں کام کریں گے۔
یونیورسٹی ایکٹ میں ایک اور اہم ترمیم رجسٹرار کی تقرری کے بارے میں ہے۔ اس ترمیم کے مطابق یونیورسٹی میں ''موزوں‘‘ امیدوار کی عدم موجودگی میں وزیراعلیٰ کسی بیوروکریٹ کو یونیورسٹی کا رجسٹرار مقرر کر سکتا ہے‘ جو اپنے عہدے کے لحاظ سے سینیٹ‘ سنڈیکیٹ‘ سلیکشن بورڈ اور دیگر اہم اداروں کے سیکرٹری کے طور پر کام کرے گا۔ پچھلا یونیورسٹی ایکٹ سنڈیکیٹ کو رجسٹرار کے خلاف کارروائی کرنے کی اجازت دیتا تھا لیکن نئی ترمیم کے بعد اسکے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ ایکٹ میں ایک اور اہم تبدیلی یہ ہے کہ اب تمام ڈینز کے بجائے صرف ایک سینئر ترین ڈین سنڈیکیٹ کا حصہ ہو گا۔ اسی طرح سنڈیکیٹ میں اساتذہ کی نمائندگی کم اور حکومتی نمائندگی بڑھا دی گئی ہے۔یہ چند حالیہ اقدامات ہیں جن کا نشانہ جامعات کی تعلیمی خودمختاری ہے۔ ان اقدامات کے اعلان نے تعلیمی حلقوں میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔ حکومتی پالیسی سازوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ علمی دیانت داری‘ تعلیمی آزادی‘ تحقیق اور تنقیدی سوچ کے فروغ کیلئے یونیورسٹیوں‘ وائس چانسلرز‘ اساتذہ اور طلبا کو ایک سازگار ماحول کی ضرورت ہے جو غیرضروری حکومتی مداخلت اور نگرانی کی موجودگی میں ممکن نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved