آٹھ دسمبر کو صدر بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ شام کی داخلی سیاست کی سمت اور علاقائی سیاسی صورتحال پر اس کے اثرات کے بارے میں خدشات پیدا کرتاہے۔ ہیت التحریر الشام کی نئی قیادت ''بدلہ نہ لینے‘‘، ''تنوع کی قبولیت‘‘ اور ''داخلی ہم آہنگی اور استحکام‘‘ کے لیے کام کرنے پر زور دینے والے قابلِ قبول بیانات دے رہی ہے۔ تاہم سیاسی مبصرین کی نظر اس پر ہے کہ نئے حکومتی اتحاد کے اندر اور باہر نظریاتی طور پر مختلف گروہ داخلی ہم آہنگی کو کیونکر برقرار رکھتے ہیں اور قبائلی‘ نظریاتی تنوع اور مقامی و علاقائی طاقت کے عزائم سے بھرپور معاشرے میں اقتدار کو کس طرح بانٹا جائے گا۔معزول حکومت نے کئی سال پہلے ملک کے بہت سے علاقوں پر کنٹرول کھو دیا تھا‘ جہاں کچھ ہمسایہ ممالک اور مقامی نسلی گروہ جیسے کُرد یا سخت گیرنظریاتی گروہ جیسے دولت اسلامیہ اور القاعدہ نے اپنے قدم جمانا شروع کیے۔ زیادہ تر سیاسی مبصرین دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں کہ دیکھیں شام اس داخلی تنازع سے کیسے بچتا ہے جس کا افغانستان‘ عراق اور لیبیا نے وہاں پرانی حکومتوں کے ٹوٹنے کے فوری بعد تجربہ کیا۔
شام میں الاسد حکومت کے خاتمے میں دیگر ریاستوں کے لیے داخلی‘ علاقائی اور عالمی سطح پر اہم اسباق ہیں۔ آمرانہ اور شخصی حکومتوں کے لیے بھی کئی سبق ہیں۔ الاسد حکومت کی بنیاد حافظ الاسد نے رکھی تھی جو شامی فضائیہ کے ایک کمانڈر تھے‘ جنہوں نے نومبر 1970ء میں اقتدار سنبھالا اور وزیر اعظم بن گئے۔ انہوں نے مارچ 1971ء میں صدارت سنبھالی اور شام پر اپنا مضبوط کنٹرول قائم کر لیا جو 1970ء سے پہلے سیاسی ہلچل کا شکار تھا۔ جون 2000 ء میں ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے بشار الاسد نے جولائی 2000ء میں صدارت سنبھالی اور دسمبر 2024ء میں اپنے عہدے سے برطرف ہونے تک اقتدار پر فائز رہے۔ ان دونوں رہنماؤں نے جابرانہ اور آمرانہ نظام تشکیل دیا جو سیاسی اختلاف کو برداشت نہیں کرتا تھا۔ سیاسی نظام سیکولر تھا لیکن اس کی سکیورٹی اور انٹیلی جنس مشینری کسی بھی ایسے اقدام پر سختی سے کنٹرول رکھتی تھی جو سرکاری پالیسی سے انحراف کرتا تھا۔ ایک اہم سیاسی سبق یہ ہے کہ ریاستی جبر اور مکمل کنٹرول نظام کو زندہ رہنے کے لیے کچھ وقت فراہم کر سکتا ہے لیکن ایسے سیاسی نظام کا مقدر زوال ہے۔ اگر سیاسی نظام لوگوں میں رضاکارانہ وفاداری کے بجائے خوف کا مضبوط احساس پیدا کرتا ہے تو یہ ہمیشہ کے لیے برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی مشینری سالوں تک نظام کو چلانے میں کامیاب ہو سکتی ہے لیکن یہ لوگوں میں اتنی بیگانگی پیدا کرتی ہے کہ وہ اس کے زوال کا جشن مناتے ہیں۔
جبر اور طاقت عارضی طاقت فراہم کرتے ہیں۔ سیاسی نظام مضبوط بنیادیں تیار کر سکتا ہے اگر یہ سیاسی شرکت اور انسانی حقوق کی پاسداری کرے‘ رضاکارانہ سیاسی اور سماجی سرگرمی کی اجازت دے اور قانون کی حکمرانی کو نافذ کرے۔ اگرچہ الاسد حکومت تقریباً 54 سال تک قائم رہی‘ لیکن اس کا انجام تباہ کن تھا۔ نئی شامی حکومت معزول حکومت کی وراثت سے خود کو الگ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ شام نے اشرافیہ کا نظام قائم کیا تھا جو برطرف کردہ حکومت کیلئے وفاداری کے بدلے ہر قسم کے انعامات فراہم کرتا تھا۔ حکومتی طبقات کی خوشحالی اور فراوانی عام لوگوں کی غربت اور پسماندگی کے برعکس تھی۔ اگرچہ بشار الاسد کے دورِ حکومت میں کوئی بھوکا نہیں مرا‘ حکومتی طبقات اور عام لوگوں کی معیشت کے درمیان فرق بہت وسیع تھا‘ جس نے عدم مساوات اور سماجی ناانصافی کو بڑھایا۔
آج کی دنیا میں اگر کوئی سیاسی نظام سماجی و اقتصادی انصاف اور مساوات کو یقینی نہیں بنا سکتا تو یہ طے ہے کہ یہ مشکلات کا شکار ہو گا‘ چاہے یہ طویل عرصے تک قائم رہے۔ یہ لوگوں‘ علاقوں اور نسلی یا قبائلی اکائیوں میں بیگانگی پیدا کرتا ہے۔ وہ ریاست کی طاقت کے خوف کی وجہ سے خاموش رہ سکتے ہیں لیکن وہ حکمرانوں اور سیاسی نظام کے ساتھ دلی تعلق قائم نہیں کرتے۔ ایک ایسا سیاسی نظام جو رضاکارانہ عوامی حمایت سے محروم ہو مشکل حالات کا سامنا نہیں کرسکتا۔
کسی سیاسی نظام کی حقیقی طاقت ریاستی طاقت کے بے رحمانہ استعمال سے نہیں بلکہ لوگوں کی رضاکارانہ وفاداری حاصل کرنے سے آتی ہے۔ جتنا زیادہ لوگ سیاسی نظام کے ساتھ جڑت پیدا کرتے ہیں اتنا ہی زیادہ وہ بحران کی صورت میں اس کا دفاع کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔ عوامی حمایت کے بغیر سیاسی نظام اسی طرح ٹوٹ جاتا ہے جیسے بشار الاسد کا نظام ٹوٹا۔ لہٰذا ریاست کو چاہیے کہ معاشرے کو غیر امتیازی بنیادوں پر بنیادی خدمات فراہم کرے۔ اگر یہ لوگوں کی فلاح و بہبود کا خیال رکھے اور سیاسی تنوع اور سیاسی اختلاف کو قبول کرے تو ملک اندرونی طور پر مضبوط اور مستحکم ہوتا ہے اور حکمرانوں کو احترام حاصل ہوتا ہے۔
علاقائی سطح پر سبق یہ ہے کہ ایک ریاست کو ہمسایہ ریاست کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر قریبی ہمسایوں کے درمیان عدم اعتماد اور تنازع برقرار رہے تو اس کے ان سب کے لیے منفی مضمرات ہوں گے۔ اس کا منفی اثر ان ریاستوں پر زیادہ ہوگا جو داخلی تنازع اور اختلافی سرگرمیوں سے متاثر ہیں یا جن کے لوگ حکومت سے خوفزدہ ہیں۔ ایسی ریاست بیرونی مداخلت کے لیے حساس ہوتی ہے ‘جو اس کی داخلی بقا کے چیلنجز کا سامنا کرنے کی صلاحیت کو مزید کمزور کرتی ہے۔ معزول شامی حکومت کے اپنے تمام ہمسایوں کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں تھے۔ تمام ہمسایہ حکومتیں بشار الاسد کے نظام سے نفرت کرتی تھیں اور کسی نے بھی ان کی اقتدار سے رخصتی پر افسوس نہیں کیا۔اپنے ان مسائل کی وجہ سے شام ایک بڑی طاقت پر بہت زیادہ انحصار کرتا تھا جو دور تھی‘ یعنی روس۔ روسی فوج نے 15-2014 ء میں بشار الاسد کی سیاسی بقا کے لیے مدد کی جب وہ داخلی بغاوت کا سامنا کر رہے تھے۔ ایران نے بھی کچھ غیر فوجی حمایت فراہم کی۔ یہ حمایت اس وقت دستیاب نہیں تھی جب موجودہ باغیوں نے نومبر 2024 ء میں حملہ کیا۔ یوں شامی حکومت تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی۔
شامی حکومت کا زوال عالمی سطح کی سیاست کے لیے بھی اسباق فراہم کرتا ہے۔ بڑی طاقتیں خاص طور پر امریکہ براہِ راست یا بالواسطہ کسی حکومت کو ہٹا سکتی ہیں لیکن وہ کسی ملک میں حکومت کو ہٹانے کے بعد امن اور استحکام کو یقینی نہیں بنا سکتیں۔ امریکہ نے افغانستان‘ عراق اور لیبیا میں حکومتوں کو ہٹانے کے لیے اپنے یورپی اتحادیوں کے تعاون سے فوجی طاقت کا استعمال کیا تاہم امریکہ ان ممالک میں اپنی پسند کی حکومتیں قائم نہیں کر سکا۔ یہ تمام ریاستیں غیر یقینی مستقبل سے دوچار ہیں لیکن امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی ان کی ناکامی کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ شام میں امریکہ نے 2011ء تا2015 ء میں اسد مخالف شدت پسندوں کی حمایت کی جس نے شامی حکومت کو غیر مستحکم کر دیا‘ لیکن وہ کھڑی رہنے میں کامیاب رہی۔ شام میں تازہ ترین واقعات میں امریکہ کی حمایت یافتہ اسرائیلی پالیسیوں نے شامی حکومت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ ہم نہیں جانتے کہ شام عراق یا لیبیا کی طرف جائے گا یا نئی حکومت مستحکم سیاسی نظم و ضبط پیدا کرلے گی۔ تاہم عالمی سطح پر اس کا ایک سبق یہ ہے کہ جب تک مسلم ریاستیں تقسیم رہیں گی امریکہ‘ اسرائیل اور یورپ مشرق وسطیٰ کی سیاست پر حاوی رہیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved