تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     19-12-2024

اُترن‘ اُترن اور اُترن

لاہور‘ ایمپریس روڈ سے گزر تے ہوئے ریلوے سٹیشن جا رہے تھے۔ مقامی ڈرائیور نے دائیں طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ''ادھر دیکھیے‘ لنڈے بازار کی بہاریں‘‘!! چار پانچ گھنٹوں کے بعد راولپنڈی ریلوے سٹیشن پر اُترے اور گوالمنڈی پُل کا رخ کیا۔ بائیں طرف لنڈا بازار تھا جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ کئی سو دکانیں قمیضوں‘ کوٹوں‘ اوور کوٹوں‘ سویٹروں‘ جرسیوں‘ ٹوپیوں‘ پتلونوں‘ جیکٹوں‘ جُرابوں‘ جوتوں اور پردوں سے اَٹی ہوئی تھیں۔ یہ چیزیں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں تھیں۔ اور یہ صرف ایک شہر کا حال ہے۔ یہ وہ ملبوسات ہیں جو امیر ملکوں کے باشندوں نے پہنے اور جب ان سے اُکتا گئے تو ہماری طرف بھیج دیے۔ ان ملبوسات کو غریب ہی نہیں مڈل کلاس بھی پہنتی ہے۔ ہماری ریاست روٹی اور مکان نہیں دے سکتی تو کپڑا کیسے دے گی؟ پانی‘ بجلی‘ گیس‘ پٹرول‘ امن و امان‘ حفاظت‘ ہر شے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
شرم کیسی؟ کہاں کی عزتِ نفس؟ ہم آسودہ حال ملکوں کی اُترن پہن کر گزارہ کر رہے ہیں۔ اُترن کہیے یا لنڈا‘ یا سیکنڈ ہینڈ! بات ایک ہی ہے! ہم بطور قوم وہ ہاری ہیں جنہیں وڈیرے اپنی اُترن بخشتے ہیں اور ہم لے کر سر جھکاتے ہوئے‘ سینے پر ہاتھ رکھتے‘ شکریہ ادا کرتے ہیں!! یورپ اور امریکہ وڈیرے ہیں‘ چودھری ہیں‘ خان ہیں‘ سردار ہیں۔ ہم غریب ہاری ہیں‘ مزارع ہیں‘ کمی ہیں‘ کمین ہیں۔ چاہیں بھی تو آنکھیں نہیں دکھا سکتے۔ سر اٹھا کر بات کریں گے تو ان کے دیے ہوئے مکان سے بھی جائیں گے اور آٹے دال کو بھی ترسیں گے۔ پھینٹی بھی کھائیں گے اور معافی مانگ کر‘ پاؤں پر گر کر‘ پھر انہی کا کام کریں گے۔ انہی کا دیا ہوا کھائیں گے۔ انہی کے گن گائیں گے۔ مگر کیا یہ اُترن صرف جوتوں‘ کوٹوں‘ جیکٹوں اور پردوں تک محدود ہے؟ یہاں غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے وہ بھی تو اُترن ہے۔ جو اکنامکس ہم پڑھ اور پڑھا رہے ہیں‘ سب انہی کے معیشت دانوں کی لکھی ہوئی ہے۔ سب تھیوریاں وہیں سے آئی ہیں۔ ایڈم سمتھ‘ مالتھیوس‘ کینز‘ روسٹو‘ ملٹن فرائیڈ مین اور تمام دوسرے ماہرینِ اقتصادیات کا تعلق مغرب سے ہے۔ نفسیات‘ سیاسیات‘ فلسفہ‘ پبلک ایڈمنسٹریشن‘ بزنس ایڈمنسٹریشن‘ سب اُترن ہی تو ہے۔ ان میں سے اکثر مضامین تو ایجاد ہی وہیں ہوئے۔ کمپیوٹر سائنس کہاں وجود میں آئی اور کہاں سے ہمارے ہاں آئی؟ او لیول اور اے لیول سسٹم سب کیمبرج اور آکسفورڈ کی اولاد ہیں۔ اربوں روپے فیسوں کی شکل میں ہر سال وہاں جا رہے ہیں! سائنس تو ساری کی ساری اُترن ہے۔ بو علی سینا اور جابر بن حیان نے جو کچھ کیا اور لکھا‘ اسے صدیاں ہو چکیں۔ اس کے بعد ہم نے تنکا تک نہ توڑا۔ میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم کے لیے دنیا بھر کے طبیب کہاں جا رہے ہیں؟ امریکہ‘ یورپ‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ! انہی کی تصانیف ہمارے میڈیکل کالجوں میں پڑھائی جا رہی ہیں۔ یہ جو پنسلین ہے‘ یہ جو دل کے بائی پاس ہمارے ہاں ہو رہے ہیں‘ گردوں کی پیوند کاری ہو رہی ہے‘ ڈائیلسز ہو رہا ہے‘ موتیا کے آپریشن ہو رہے ہیں‘ ناکارہ پِتّے نکالے جا رہے ہیں‘ گٹھنے تبدیل ہو رہے ہیں‘ یہ سب اُترن ہی تو ہے۔ سب کچھ وہیں سے آیا ہے۔ دل کی پیوند کاری پاکستان میں نہیں ہو رہی۔ کچھ افراد بھارت سے کروا کر آئے ہیں۔ بھارت اس میدان میں بھی بہت سے دوسرے میدانوں کی طرح ہم سے آگے ہے۔
جمہوریت بھی تو اُترن ہے! انہی کی بخشش ہے! ہمارے ہاں تو کیا عثمانی ترک اور کیا ہمارے مغل‘ تخت نشینی کی لمبی لمبی جنگیں ہوتی تھیں۔ بھائیوں کو قتل کیا جاتا تھا۔ عثمانی ترکوں کے علما نے تو فتویٰ بھی دے دیا تھا کہ تخت نشینی کی جنگ میں کئی ہزار لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بجائے چند درجن بھائیوں کا قتل جائز ہے۔ پُرامن انتقالِ اقتدار کی جیکٹ ہم نے اُترن کے طور پر لی۔ آڈٹ کا نظام بھی اُترن ہے۔ ہمارے بادشاہ تو موتیوں سے منہ بھرتے تھے اور سونے یا چاندی میں تلواتے تھے۔ تختِ طاؤس پر اُس وقت کے کروڑوں روپے لگے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی آئی تو آڈیٹر اور کمپٹرولر ساتھ آئے۔ فنانس والوں سے پوچھے بغیر ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ پلاسی کی جنگ کے لیے کلائیو نے ملٹری اکاؤنٹس کے محکمے سے باقاعدہ ایک لاکھ روپے ایڈوانس لیا تھا جس کی رسید آج بھی موجود ہے۔ مردم شماری کا ادارہ بھی اُترن ہے۔ پارلیمنٹ بھی اُترن ہے۔ کون سی شے ہے ہماری زندگی میں جو ہم نے خود بنائی ہے؟ ٹرین‘ کار‘ ہوائی جہاز‘ ٹیلیفون‘ برقی روشنی‘ پنکھا‘ اے سی‘ ہیٹر‘ ٹی وی‘ ریڈیو‘ فوٹو کاپی‘ فیکس‘ ٹائپ رائٹر‘ سرجری کے آلات‘ ایمبولینس‘ تھرما میٹر‘ بلڈ پریشر کی پیمائش کا آلہ‘ انٹرنیٹ‘ ای میل‘ موبائل فون‘ فضاؤں خلاؤں میں گھومتے سیٹلائٹ‘ یہ سب اُترن ہے جس سے ہم نے معاشرے کا بدن ڈھانک رکھا ہے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف وڈیروں کے منشی ہیں۔ امیر ملک اپنی مالیاتی اُترن ہمیں ان منشیوں کے ذریعے دیتے ہیں۔ یہ اُترن ہمیں واپس کرنا پڑتی ہے مگر نئے لباس کی صورت میں! ہم خود اُترن سے گزر بسر کرتے ہیں لیکن اُترن کا قرض نئے نکور‘ کھڑ کھڑاتے ڈالروں سے اتارتے ہیں!
کلچر کی بھی بات کر لیتے ہیں۔ اکبر الہ آبادی نے تو ایک دوسرے انداز میں شکایت کی تھی کہ:
پانی پینا پڑا ہے پائپ کا
حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا
شکایت سے زیادہ یہ اس حقیقت کا اعتراف تھا کہ پائپ اور ٹائپ رائٹر دوسروں نے ہم سے پہلے ایجاد کر لیے۔ دونوں ایجادات نے معیارِ زندگی بدل ڈالا۔ مگر آج ثقافت کا معاملہ بہت آگے جا چکا ہے اور یہاں بھی ہم نے اُترن اوڑھی ہوئی ہے۔ ہمارے بزرگ پنجابی کیلنڈر استعمال کرتے تھے۔ وساکھ‘ جیٹھ‘ ہاڑ‘ ساون‘ بھدرے‘ اسُو‘ کتیں‘ مگھر‘ پوہ‘ ماہ‘ پھگن‘ چیتر۔ آج ہم اس سے نا آشنا ہیں۔ سالگرہ منانا آج فرضِ عین ہے۔ یہ التزام بھی مانگے کا ہے۔ نیو ایئر کی مبارکبادیں‘ ویلنٹائن ڈے‘ فادر ڈے‘ مدر ڈے‘ ٹیچر ڈے‘ کچھ عشرے پہلے یہ تمام ڈے کہاں تھے؟ پہلے دعائے مغفرت ہوتی تھی۔ اب یاد کرنے کیلئے شمعیں جلائی جاتی ہیں۔ پہلے دعوتوں میں کھانا بیٹھ کر کھایا جاتا تھا‘ اب کھڑے ہو کر کھاتے ہیں۔ (ویسے جانور سارے کھڑے ہو کر کھاتے ہیں۔ ہاں گائے بکری جگالی بیٹھ کر کرتی ہیں‘ بچوں کو بتا دیجیے گا کہ جگالی کس چڑیا کا نام ہے؟) کھانا کھاتے ہوئے چھری دائیں ہاتھ میں اور کانٹا بائیں ہاتھ میں پکڑا جاتا ہے یعنی صاحب لوگ کھانا بائیں ہاتھ سے کھاتے ہیں کس کس اُترن کا ذکر کیا جائے۔ انگریز سرکار نے ہندوستان فتح کیا تو تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ ہمارے لباس کی تذلیل یوں کی کہ نوکروں‘ بٹلروں‘ چوبداروں کو ہماری اشرافیہ کا لباس شیروانی اور دستار پہنائی۔ یہ اُترن آج تک ہم پوری بے شرمی سے پہنے ہوئے ہیں۔ ایوانِ صدر‘ ایوانِ وزیراعظم اور دیگر سرکاری دعوتیں دیکھ لیجیے۔ تذلیل جاری ہے۔
یہ سب وہ حقیقتیں ہیں جن کا کوئی اندھا بھی انکار نہیں کر سکتا۔ ہم پاتال میں پڑے ہیں۔ روپیہ دوسری کرنسیوں کے مقابلے میں ذلیل و خوار ہو رہا ہے۔ پاسپورٹ کی رینکنگ شرمناک ہے۔ عدلیہ کی رینکنگ سب کے سامنے ہے۔ سانس لینے سے پہلے آئی ایم ایف اور دوسرے سخی ملکوں سے اجازت لینا ہوتی ہے۔ مگر آفرین ہے ہم پر!! ہماری اکڑ میں‘ ہماری خود ستائی میں‘ خود بینی میں‘ خود فریبی میں دن رات اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ عالمِ اسلام میں مذہب کے ہم سب سے بڑے ٹھیکیدار ہیں۔ اپنے سوا دوسری تمام قوموں اور تمام ملکوں کو ہم ہیچ سمجھتے ہیں! لال قلعے اور وائٹ ہاؤس پر قبضہ کرنے کا ہمارا ارادہ پکّا ہے۔ بات لمبی ہو گئی ہے۔ مجھے اجازت دیجیے‘ لنڈے بازار جانا ہے۔ کسی انگریز یا امریکی کا پہنا ہوا کوٹ خرید لاؤں۔ سردیاں بھی تو گزارنی ہیں!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved