تحریر : عامر خاکوانی تاریخ اشاعت     04-11-2013

تحریک طالبان پاکستا ن کا مستقبل کیا ہوگا؟

حکیم اللہ محسود کی ہلاکت سے پاکستانی طالبان کی عسکریت پسندی کا ایک باب ختم ہوا۔ حکیم اللہ کی اپنی ایک شخصیت اور خاص طرز کا مزاج تھا۔آسان لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے اپنے مثبت اورمنفی پہلو تھے۔ ان کے بعد آنے والے امیر کے معاملات مختلف ہوں گے۔ضروری نہیں کہ اسے حکیم اللہ محسود جیسی متفقہ قیادت کا درجہ مل سکے، اس کے لئے مشکلات بھی پہلے سے زیادہ ہوں گی کہ اب ٹی ٹی پی کی ساخت پہلے جیسے نہیں رہی۔حکیم اللہ کو ایڈوانٹیج یہ رہا کہ وہ بیت اللہ محسود کے نائب اوراس وقت خیبر ، کرم اور اورکزئی ایجنسی کے کمانڈر تھے۔ بیت اللہ محسود کے بعد محسود قبیلے ہی میں سے کسی ایک کو چنا جانا تھا، سو ذمہ داری حکیم اللہ کو سونپ دی گئی، دوسرے مضبوط امیدوار ولی الرحمن محسود کو جنوبی وزیرستان کا امیر بنا کر اکاموڈیٹ کر دیا گیا، جبکہ باجوڑ کے مولوی فقیر محمد کومجموعی طور پر نائب امیربنا یا گیا تھا۔ آج ٹی ٹی پی کی ساخت اور اس کا مزاج قدرے مختلف ہوچکا ہے۔آگے بڑھنے سے پہلے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کی تشکیل اورابتدائی دور پر ایک مختصر نظر ڈالتے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے بانی بیت اللہ محسودتھے، جنہیں محسود قبائل میں غیرمعمولی عسکری اہمیت حاصل ہوگئی تھی۔ نیک محمد کے بعد ابھرنے والے کمانڈروںمیں وہ سب سے نمایاں تھے۔ بیت اللہ محسود نے مختلف چھوٹے بڑے گروپوں کو اکٹھا کر کے ٹی ٹی پی کی بنیاد ڈالی۔ محسود جنگجو اور قاری حسین کے تربیت یافتہ خودکش بمبار اس کی اصل قوت اور جنوبی وزیرستان اصل میدان تھا۔ رفتہ رفتہ دوسرے چھوٹے بڑے گروپ بھی ملتے گئے۔ وزیر قبائل کے کمانڈر ملا نذیر نے پنجابی طالبان کی مدد سے ازبکوں کو اپنے علاقہ سے بھگایا تو انہوںنے بیت اللہ محسود کے پاس پناہ لی۔ یہ ازبک اور چیچن بھی ٹی ٹی پی کے اتحادی بن گئے۔لال مسجد آپریشن کے بعد کشمیری جہادی تنظیموں کے کئی سپلنٹر گروپوں نے جنوبی وزیرستان کا رخ کیا۔ عصمت اللہ معاویہ نے جنودالحفصہ بنایا اور چار پانچ دوسرے گروپوں کے ساتھ مل کر فدائین اسلام نامی گروپ بنایا ،جس کا مقصد جامعہ حفصہ پر حملے کا بدلہ لینا تھا۔ ان کے پاس بھی ٹی ٹی پی کے ساتھ ملنے کے سوا اور کوئی آپشن نہیں باقی رہا تھا۔ الیاس کشمیری پہلے ہی حرکتہ الجہاد کے سپلنٹر دھڑے کے ساتھ جنوبی وزیرستان کا رخ کر چکے تھے۔ بدرمنصور نے بھی ایسا کیا۔ لشکر جھنگوی کے کئی موجودہ اور سپلنٹر گروپ بھی ادھر کا رخ کر چکے تھے۔ یوں پنجابی طالبان بھی ٹی ٹی پی کے فریم ورک میں آ گئے۔ سوات کے ملا فضل اللہ کے ساتھ ملنے سے ٹی ٹی پی کا دائرہ کار مزید وسیع ہوگیا۔ جامعہ حفصہ اور لال مسجد پر آپریشن کے چند دنوں بعد مہمند ایجنسی میں ایک مسجد کا نام لال مسجد رکھ دیا گیا تھا، عالمی میڈیا میں بعض نقاب پوش جنگجوئوں کی تصاویر بھی شائع ہوئیں۔ یہ مہمند ایجنسی کے عمر خالد گروپ کی ابتدا تھی۔ عبدالولی نامی کمانڈر نے عمر خالد کے نام سے اپنا گروپ قائم کیا۔ آج کل یہ عمر خراسانی گروپ کہلاتا ہے۔ خراسانی لکھنے کی وجہ وہ روایات ہیں ،جن کے مطابق یہ پورا علاقہ ایک زمانے میں خراسان کہلاتا تھا اور بعض احادیث میں خراسان سے لشکر اٹھنے کی پیش گوئی کی گئی جو ہندتک قابض ہوجائے گا۔ عسکریت پسندوں میں بعض لوگ اسی وجہ سے اپنے نام کے ساتھ خراسانی لکھنا پسند کرتے ہیں۔ اسی عمرخالد گروپ نے مہمند میں شاہ خالد گروپ کا خاتمہ کر دیا تھا، حالانکہ شاہ خالد گروہ افغان صوبہ نورستان میں امریکیوں کے خلاف بڑی موثر کارروائیاں کر چکا تھا، یہ گروپ مسلکاً سلفی تھا اور شاید یہی وجۂ اختلاف تھی۔باجوڑ کے مولوی فقیر محمد بھی ٹی ٹی پی کا حصہ بن گئے تھے۔ نورستان میں آج کل عملی کنٹرول رکھنے والے ممتاز افغان طالبان کمانڈر قاری ضیاء الرحمن کے ساتھ عمر خالد اور فقیر محمد کے گہرے مراسم قائم ہوگئے۔ فورسز نے جب باجوڑ میںآپریشن کیا تو قاری ضیا گروپ نے مولوی فقیر کا ساتھ دیا۔ مہمند میں فورسز نے عمر خالد پر دبائو ڈالا تو کئی مواقع پر قاری ضیاء گروپ نے عمر خالد کی مدد کی۔ اس وقت بھی عمر خالد افغان صوبہ نورستان میں قاری ضیا گروپ کی حمایت سے بہترین پوزیشن انجوائے کر رہا ہے جبکہ مہمند میں ان کے نائب قاری شکیل کا گروپ سرگرم ہے۔ اس تمام تفصیل کا مقصد ٹی ٹی پی کے اندر موجود مختلف گروپوں اور دھڑوں کے پس منظر پر روشنی ڈالنا تھا۔ بیت اللہ محسود نے کمال مہارت کے ساتھ ان سب کو ساتھ ملائے رکھا۔ محسود جنگجو ان کی اصل قوت تھے، جس کا انہیں بخوبی اندازہ تھا، اسی وجہ سے انہوں نے کبھی کراچی میں کوئی کارروائی نہیں کی ،جہاں محسود قبائلیوں کی بڑی تعداد روزگار کے لئے مقیم ہے۔ بیت اللہ محسود کو خطرہ تھا کہ اگر ایک بھی کارروائی ہوئی تو محسودآبادی کے لئے کراچی میں رہنامشکل ہو جائے گا۔ ٹی ٹی پی کا اہم ترین اثاثہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کے شہری علاقوں میں پنجابی طالبان کانیٹ ورک تھا۔ محسود قبائلی صرف خود کش حملے ہی کر سکتے تھے، باقاعدہ گوریلا کارروائی کرنا اور پاکستان کے بڑے شہروں میں اہم اہداف تک پہنچنا ان کے لئے ممکن نہیں تھا۔ یہ پنجابی طالبان اور لشکر جھنگوی وغیرہ کا نیٹ ورک ہی تھا ،جو انہیں شہری علاقوں میں رہائش، طعام، ریکی اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرتا رہا۔ بیت اللہ محسود کے بعد یہ اثاثے حکیم اللہ محسود کو ورثے میں ملے۔ فرق صرف یہ پڑا کہ ٹی ٹی پی کے بعض گروپ وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ طاقتور ہوگئے، ان کے غیرملکی ایجنسیوں کے ساتھ براہ راست رابطے قائم ہوگئے اور وہ مقامی نیٹ ورک کے زیادہ محتاج نہ رہے۔ جیسے ملا فضل اللہ افغان صوبہ کنٹر اور عمر خالد افغان صوبہ نورستان میںبحفاظت مقیم ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ وہ افغان انٹیلی جنس کے ساتھ قریبی رابطوں میں ہیں۔ ادھر پنجابی طالبان کے کئی گروپ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی فورسز کے ساتھ جاری جنگ سے نکلنا چاہتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں دوبارہ سے گرم ہوتا محاذ انہیں اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ عصمت اللہ معاویہ نے اسی وجہ سے امن مذاکرات کی ہامی بھری تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکیم اللہ محسود کے بعد کی صورتحال میں یہ پنجابی طالبان کیا لائحہ عمل اپناتے ہیں۔ توقع اور اطلاعات ہیں کہ ان کا بڑا حصہ فوری انتقامی کارروائی کی بجائے غیر جانبدار رہے گا اور حکومت کی جانب سے امن کی پیش رفت کا جائزہ لے گا۔عمر خالد کے مہمند گروپ اور باجوڑ سوات کے ’’ملا فضل اللہ اینڈ کو‘‘کی خواہش ہوگی کہ ٹی ٹی پی کی قیادت ان کے ہاتھ میں آئے یا پھر اس منصب پر کوئی جارح مزاج کمانڈر آئے جو پاکستانی فوج کے ساتھ جنگ جاری رکھے۔ ادھر محسود قبائل کی صورتحال یہ ہے کہ اس کی درجن بھر ذیلی شاخوں کی حمایت سید سجنا کو حاصل ہے۔ سجنا کو اس وقت محسود کا مقبول ترین کمانڈر کہا جا سکتا ہے۔ اگر بیت اللہ اور حکیم اللہ کی روایت سامنے رکھی جائے تو پھر اگلے امیر یہی خالد عرف سید سجنا ہوں گے۔ تاہم یہ ضروری نہیں کہ ان کو حکیم اللہ محسود جیسی گرفت میسر ہو۔ مہمند گروپ اور ملا فضل اللہ وغیرہ ان کے کنٹرول میں کس حد تک رہیں گے، یہ ابھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ ایسی صورت میں ٹی ٹی پی منقسم ہوجائے گی۔ سیدسجنا ماضی میں امن مذاکرات کے بھرپورحامی تھے، تاہم اگر وہ امیر بنے تو ان کیلئے سب کو لے کر چلنا ہوگا۔ حکومت نے مدبرانہ ردعمل دیا ہے،وزیر داخلہ اور پھر تحریک انصاف کا ردعمل مثبت رہا۔ ٹی ٹی پی کے اندر بھی اس کا جائزہ لیا جائے گا۔بظاہر یہی نظر آرہا ہے کہ ٹی ٹی پی اپنے امیر کی ہلاکت کو نظرانداز نہیں کرپائے گی اور اگلے چند دنوں میں بعض شدید حملے بعید ازقیاس نہیں۔ اس کے لئے اداروںکو تیار رہنا چاہیے۔ البتہ اگر پنجابی طالبان کے نیٹ ورک نے مدد نہ کی تو وہ شہری علاقوںمیں زیادہ موثر نہیں ہوں گے،تاہم انہیں انڈر ایسٹیمیٹ کرنا حماقت ہوگی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved