سلطان باہو نے کہا تھا:
شالا مسافر کوئی نہ تھیوے‘ ککھ جنہاں تھیں بھارے ہُو
تاڑی مار اڈا نہ باہُو‘ اسیں آپے اُڈن ہارے ہُو!
ترجمہ: خدا کرے کوئی مسافر نہ ہو‘ تنکے بھی جن سے بھاری ہوتے ہیں‘ ہمیں تالیاں بجا کر نہ اڑائو‘ ہم تو خود ہی اڑنے والے (یعنی جانے والے) ہیں۔
اچھے مستقبل کے لیے بیرونِ ملک جانے کی لگن نے ایک اور کشتی ڈبو دی‘ کئی جانوں کو داؤ پر لگا دیا‘ اور لا پتا ہونے والوں کے والدین اور عزیز و اقارب کی آنکھوں کو ہمیشہ کے لیے پتھرا دیا۔ نجانے ان کا انتظار کب ختم ہو گا‘ ہو گا بھی یا نہیں ہو گا۔ کوئی اپنا دیارِ غیر میں ہو تو آنکھوں میں نیند کیسے اُتر سکتی ہے؟ دیارِ غیر میں لا پتا ہو جانے والوں کے لیے انتظار کی شدت اور بھی سوا ہو جاتی ہے۔ ابھی چند روز پہلے ہی ماہر اقتصادیات مزمل اسلم نے یہ خبر دی تھی کہ بیرونِ ملک جانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ قوتِ خرید اور بیروزگاری میں مزید اضافہ ریکارڈ ہوا ہے جبکہ ملک سے ہجرت میں بے لگام اضافہ ہو گیا ہے۔ دو برسوں میں 18 لاکھ سے زائد افراد ملک چھوڑ گئے ہیں۔
برٹش کونسل کی The Next Generation Research Report 2023 کے مطابق 68 فیصد پاکستانی نوجوان اپنا ملک نہیں چھوڑنا چاہتے۔ گزشتہ مہینے منظر عام پر آنے والے اپسوس سروے کے مطابق پاکستان کے 74 فیصد نوجوان اپنے ملک میں رہنا چاہتے ہیں اور یہاں رہ کر اپنے وطن میں بہتر زندگی گزارنے کے خواہش مند ہیں۔ اس کے باوجود ہر سال پاکستان چھوڑ کر دوسرے ممالک کو جانے والے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے‘ جس کا اندازہ بیورو آف ایمی گریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے جاری کردہ اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے۔ بیورو کی رپورٹ کے مطابق 2023ء میں آٹھ لاکھ 62 ہزار 625 لوگ بیرونِ ممالک روزگار کے لیے رجسٹرڈ ہوئے جبکہ 2022ء میں آٹھ لاکھ 32 ہزار 339 افراد روزگار کے لیے بیرونِ ملک گئے۔ اس سے پیچھے جائیں تو 2015ء میں روزگار کے لیے ملک چھوڑنے والوں کی تعداد نو لاکھ 46 ہزار 571 تھی۔ بیرونِ ملک جانے کے خواہش مندوں کی تعداد اس زمینی حقیقت (جو حادثات کی صورت میں بار بار سامنے آتی ہے) کے باوجود بڑھ رہی ہے کہ بیرونِ ملک امیگرنٹس کے حوالے سے قوانین سخت ہوتے جا رہے ہیں اور اب بیرونِ ملک جانا آسان نہیں رہا۔ لوگ یہ بھی بار بار دیکھتے‘ سنتے اور مشاہدہ کرتے ہیں کہ غیر قانونی طریقے سے باہر جانے والے کس طرح حادثات کا شکار ہوتے‘ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھوتے اور لا پتا ہو جاتے ہیں۔ کسی طرح بیرونِ ملک پہنچ جائیں تو بھی نوکری یا روزگار حاصل کرنا ایک بڑا مسئلہ ثابت ہوتا ہے۔
ان تمام تر مسائل اور خطرات کے باوجود بیرونِ ملک جانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ جیسے ملک میں طویل سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے کاروباری سرگرمیوں کا ماند پڑ جانا۔ توانائی کے ذرائع مہنگے ہونے کے باعث مہنگائی میں ریکارڈ اضافہ اور اس اضافے کے نتیجے میں کارخانوں اور فیکٹریوں کا بند ہو جانا۔ یہ سارے عوامل مل کر بیروزگاری‘ مہنگائی اور عوام کی قوتِ خرید میں کمی کا باعث بن رہے ہیں۔ ہمارا ملک اس وقت ایسی ہی بے یقینی کا شکار ہے۔ بڑے تو مایوس ہیں ہی‘ نوجوان بھی مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کے لیے جائز طریقے سے آگے بڑھنے کے راستے مسدود ہوتے جا رہے ہیں۔ یہی مایوسی انہیں غیر قانونی طریقے استعمال کر کے بیرونِ ملک جانے پر اُکساتی ہے اور ایسا کرتے ہوئے وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ یہ غیرقانونی سفر کتنا تکلیف دہ اور مشکل ہوتا ہے۔ اتنا تکلیف دہ کہ ان کی جان بھی جا سکتی ہے۔ آئے روز خبریں آتی ہیں کہ کئی نوجوان یورپ و دیگر ممالک کا غیرقانونی سفر کرتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے۔ اسی طرح کی ایک خبر چند روز قبل بھی سامنے آئی جس میں بتایا گیا تھا کہ یونان کے جزیرہ کریٹ کے جنوب میں غیر قانونی تارکینِ وطن کی کشتیاں الٹنے کا واقعہ پیش آیا ہے جس میں اب تک پانچ پاکستانیو ں کی لاشیں مل چکی ہیں۔ کشتی الٹنے کے واقعے میں بچائے گئے افراد میں سے 47 پاکستانی شامل ہیں جبکہ درجنوں لا پتا ہیں۔
لوگ کیوں دھڑا دھڑ باہر جا رہے ہیں؟ اس سوال پر شاید حکومت اور حکمرانوں کی توجہ کم ہی رہی ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضے لے کر ٹیکسوں کی شرح بڑھا کر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ معیشت ٹھیک ہو رہی ہے اور آہستہ آہستہ ٹیک آف کی پوزیشن پر آ رہی ہے‘ لیکن حقیقت میں یہ ترقی دراصل ترقی نہیں‘ ترقیٔ معکوس ہے۔ جو تھوڑی بہت ترقی ہو رہی ہے وہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کی مستقبل کو گروی رکھ کر کی جا رہی ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے پر شادیانے بجانے اور ایک دوسرے کو مبارک بادیں دینے والے یہ نہیں سوچتے کہ یہ قرضے کبھی نہ کبھی‘ کسی نہ کسی نے ادا بھی کرنے ہیں۔ کیسے ادا ہو گا‘ کون ادا کرے گا یہ قرض؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فروری میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ہوتا‘ ملک میں معاشی سرگرمیاں فروغ پاتیں‘ نئی صنعتیں قائم ہوتیں جو ملک سے بیروزگاری کے خاتمے کا سبب بنتیں‘ لیکن یہاں ہو یہ رہا ہے کہ جو صنعتیں قائم ہیں وہ بھی ختم کی جا رہی ہیں۔ یہ مایوسی ہی لوگوں کو بیرونِ ملک جانے پر اُکساتی ہے۔ یوں ملک سے برین ڈرین ہو رہا ہے۔ اگر سارے زرخیز دماغ دوسرے ممالک کو فائدہ پہنچانے چلے گئے تو پاکستان کے لیے کیا باقی بچے گا؟
یونان کے ساحل پر کشتیاں الٹنے کے واقعے میں جاں بحق ہونے والے پاکستانی نوجوانوں کے عزیز و اقارب کا کہنا ہے کہ ایجنٹوں کو 21 سے 22 لاکھ روپے فی کس دیے تھے۔ ہم کوئی امیر قوم نہیں ہیں‘ یہ لاکھوں روپے ایسے ہی جمع نہیں ہو جاتے۔ کسی نے اپنی زمین بیچی ہو گی تو کسی کی بیرونِ ملک جانے کی خواہش پوری کرنے کے لیے اس کی ماں نے اوکھے سوکھے وقت کے لیے رکھا گیا اپنا زیور بیچا ہو گا۔ چلیں اتنا تردد کرنے اور اتنا رسک لینے کے بعد بھی اگر کوئی منزلِ مقصود پر پہنچ جائے تو ستے خیراں ہوتی ہیں‘ لیکن راہ میں مارے جانے والوں کے لیے کیا کہا جائے؟ جن کے والدین کی زندگی بھر کی جمع پونجی بھی گئی اور ہر طرح کی متاع سے عزیز تر اولاد بھی گئی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے یونان میں کشتی الٹنے کے حادثے میں پاکستانیوں کی اموات اور انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے اجلاس میں معصوم پاکستانیوں کو جھانسہ دے کر غیر قانونی طریقوں سے بیرونِ ملک لے جانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی ہے۔ اجلاس کے دوران وزیراعظم نے 2023ء کے کشتی حادثے کے بعد ایسے عناصر کے خلاف کارروائی میں سست روی پر برہمی کا اظہار کیا۔ وزیراعظم نے سست روی میں ملوث افسران کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔ یہ ہدایت اچھی بات ہے لیکن ایسا ہر حادثے کے بعد ہی کیوں ہوتا ہے کہ بہت کچھ کرنے کے دعوے اور وعدے کیے جاتے ہیں لیکن جونہی کچھ وقت گزرتا ہے اور سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے۔ انسانی سمگلنگ ایک سنگین مسئلہ ہے جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سلطان باہُو نے مسافر نہ بننے کی خواہش کا اظہار بے سبب نہیں کیا تھا۔ جو مسافر ہوتا ہے صرف وہی جانتا ہے کہ مسافر کو غریب الدیار کیوں کہا جاتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved