آخرکار پی ٹی آئی کو یہ احساس ہونا شروع ہو گیا ہے کہ سوشل میڈیا ان کی سیاست کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے چند رہنما خود اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں۔ تازہ ترین اعتراف سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے کیا ہے جنہوں نے عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے دوران انہیں بتایا کہ مقتدرہ اور ان کے درمیان تعلقات نارمل نہ ہونے میں ایک بڑی رکاوٹ سوشل میڈیا ہے‘ اگر آج خان اور مقتدرہ کے درمیان تعلقات خراب ہیں تو اس میں بڑا ہاتھ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سیل کا ہے۔ اس سارے پراسیس کو ریورس کرنے کی ضرورت ہے‘ خصوصاً عمران خان کا ٹویٹر ہینڈل‘ جسے پاکستان سے باہر بیٹھے کچھ لوگ چلا رہے ہیں اور وہ خان صاحب کے نام پران کے بیانات ٹویٹ کرتے رہتے ہیں۔
فواد چودھری کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ وہ اپوزیشن کے دنوں میں بڑی سلجھی اور سمجھدار قسم کی گفتگو کرتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ایک یونیورسٹی پروفیسر آپ کو سیاست اور جمہوریت پر خوبصورت لیکچرز دے رہا ہے۔ تحمل‘ بردباری‘ برداشت اور جمہوری تقاضوں کی بات کر رہا ہے لیکن فواد چودھری کا جو روپ وفاقی وزیر بننے کے بعد سامنے آیا‘ وہ میرے جیسے ان کے فین کیلئے مایوس کن تھا۔ بلاشبہ وہ ایک ذہین اور سمجھدار انسان ہیں‘ بہادر بھی ہیں لیکن انہوں نے وزیر بن کر اسی میڈیا کے خلاف ایک بیانیہ بنایا جس میڈیا کی وجہ سے وہ پہلے جنرل مشرف‘ پھر آصف زرداری‘ بلاول بھٹو‘ یوسف رضا گیلانی اور آخر میں عمران خان کی نگاہوں میں آئے تھے۔ جیسے میں نے کہا کہ فواد ایک ذہین انسان ہیں اور وہ اپنی ذہانت سے دوسروں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن ان کے اندر ایک جارحانہ انسان بھی موجود ہے۔ بندہ ذہین ہو اور جارحانہ مزاج بھی رکھتا ہو تو وہ ایک مختلف قسم کا سیاستدان بنتا ہے۔ نواز لیگ میں یہ چیز خواجہ آصف میں ڈھونڈی جا سکتی ہے۔ دونوں میں کچھ مشترکہ خوبیاں ہیں۔ دونوں اپوزیشن کے دنوں میں کسی یونیورسٹی کے پروفیسر کی طرح آپ کو سیاست اور جمہوریت پڑھائیں گے۔ اُس وقت وہ اپنی سیاسی غلطیوں کو بھی تسلیم کریں گے۔ ایک دوسرے سے بات چیت‘ برداشت اور ڈائیلاگ کی بات کریں گے۔ بینظیر بھٹو کی طرح نیا سوشل کنٹریکٹ متعارف کرانے پر زور دیں گے۔ وہ سیاست اور سیاستدانوں کی افادیت ہمیں سمجھائیں گے لیکن جب اقتدار میں ہوں گے تو پھر وہی کچھ کریں گے جو رومن روم میں کرتے ہیں‘ یعنی جیسا دیس ویسا بھیس۔ مطلب حکمران بن کر آپ نے وہی کچھ کرنا ہے جو حکومت قائم رکھنے کیلئے ضروری ہے۔ اپنے مخالفین کا جینا حرام کرنا ہے‘ میڈیا کے خلاف کارروائیاں کرنی ہیں‘ جو تنقید کرے اس کو سبق سکھانا ہے۔ وزیراعظم چاہے نواز شریف ہوں یا عمران خان‘ وہ چاہے چھ چھ ماہ تک پارلیمنٹ کا اجلاس اٹینڈ نہ کریں لیکن انہیں یہ یاد دہانی تک نہ کرائیں کہ آپ کے اس شاہی مزاج سے پارلیمنٹ کمزور ہو گی۔ وزیراعظم کچھ بھی کرتا رہے‘ کوئی وزیر جرأت نہیں کرتا کہ وہ اس سے سوال کر سکے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک ہی وزیر اب تک ایسا گزرا ہے جس نے وزیراعظم سے بھی جواب طلب کیا تھا کہ پہلے ہمیں بتایا جائے کہ آپ سرے محل سکینڈل میں ملوث ہیں یا نہیں ؟ یہ واقعہ وزیراعظم بینظیر بھٹو کے دوسرے دور ِحکومت کا ہے۔ اُس وقت بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کے خلاف لندن کے اخبار میں ایک سکینڈل آیا تھا کہ انہوں نے برطانیہ کے علاقے سرے میں لاکھوں پاؤنڈز کاایک محل خریدا ہے۔ نواز شریف اُس وقت اپوزیشن لیڈر تھے۔ مسلم لیگ نے اس سکینڈل کو قومی اسمبلی میں خوب اچھالا کہ بینظیر بھٹو اور آصف زرداری نے پاکستان سے دولت لوٹ کر لندن میں محل خریدا ہے۔ یہ اپنے دور کا بڑا سکینڈل تھا۔ اگلے روز جب بینظیر بھٹو نے کابینہ اجلاس کی صدارت کی تو ان کے ایک وفاقی وزیر نے ہاتھ کھڑا کیا اور بولا: میڈم پرائم منسٹر! اس سے پہلے کہ آپ اجلاس شروع کریں مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے۔ یہ وزیر تھے ڈاکٹر شیر افگن۔ انہوں نے کہا کہ میڈم! یہ ہم سب کیلئے بڑی پشیمانی کی بات ہے کہ ہماری وزیراعظم پر اتنا بڑا الزام لگا ہے کہ انہوں نے سرے میں بہت بڑا محل خریدا ہے۔ آپ ہمیں بریف کریں کہ واقعی یہ آپ کا محل ہے یا اپوزیشن جھوٹ بول رہی ہے؟ بینظیر بھٹو نے ڈاکٹر شیر افگن کو جواب دیا کہ یہ سب جھوٹ ہے‘ سرے محل ان کا نہیں ہے۔ ڈاکٹر شیر افگن نے وزیراعظم کی بات کا یقین کر لیا تھا اور بعد میں وہ اس کادفاع کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ بینظیر بھٹو نے جو کہا ہے‘ وہی سچ ہے۔ لیکن بعدازاں انہیں یہ احساس ہو گیا کہ وزیراعظم نے انہیں سچ نہیں بتایا تھا۔ وہ سرے محل واقعی آصف زرداری اور بی بی کا تھا۔
میں نے 2007ء میں سنڈے ٹائمز لندن میں بینظیر بھٹو کا انٹرویو پڑھا تھا جو انہوں نے دبئی میں اپنے ایک محل نما گھر میں ایک گوری رپورٹر کو دیا تھا۔ اس عالیشان گھر کو دیکھ کر رپورٹر حیران رہ گئی تھی اور اس نے اس کی قیمت پوچھی تو بینظیر بھٹو نے اس کی قیمت بائیس لاکھ درہم بتائی۔ اس رپورٹر کا کھلا منہ دیکھ کر بینظیر بھٹو نے فوراً اسے بتایا کہ دراصل انہوں نے سرے محل بیچ کر دبئی میں یہ محل خریدا تھا۔ وہ مضمون پڑھ کر مجھے ڈاکٹر شیر افگن کی یاد آئی جو اپنی وزیراعظم کی بات پر برسوں تک اعتماد کرتے رہے تھے۔
اسی طرح خواجہ آصف نے بھی کبھی نواز شریف فیملی سے لندن فلیٹس کا نہیں پوچھا۔ فواد چودھری نے بھی عمران خان سے 190 ملین پاؤنڈز بارے کبھی نہیں پوچھا ہوگا کہ کیسے بشریٰ بی بی کو ایک پراپرٹی ٹائیکون نے چار سو کنال سے زائد زمین تحفہ دی اور پھر اس پر عمارت کھڑا کرا دی اور بیس کروڑ نقد عطیہ دیا۔ یا پھر جس طرح خان اور ان کی اہلیہ نے سعودی تحائف کو کوڑیوں کے دام خرید کر دبئی کی عالمی مارکیٹ میں بیچ کر کروڑوں کمائے۔ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں جمہوریت اور ایمانداری سب کو اپوزیشن میں رہ کر یاد آتی ہے۔ تب سب لوگ ہمیں جمہوریت‘ برداشت اور ڈائیلاگ کی اہمیت بتانے لگ جاتے ہیں۔ ملک اور جمہوریت کی خاطر سیاستدانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی افادیت سمجھاتے ہیں۔ تب ایسا لگتا ہے کہ ان سے بڑا جمہوریت پسند شاید ہی پیدا ہوا ہو۔ لیکن جونہی انہیں اقتدار ملتا ہے پھر ان کا غرور اور تکبر اور ان کی گردن میں سریا واپس سے آجاتا ہے۔
سمجھ نہیں آرہا کہ اس بات پر خوش ہوا جائے یا افسوس کیا جائے۔ بچپن میں اردو کی درسی کتب میں ایک محاورہ پڑھا تھا کہ جو گڑھا آپ دوسروں کے لیے کھودتے ہیں آخرکار اس میں آپ خود ہی گرتے ہیں۔ مجھے اس محاورے کی کبھی سمجھ نہیں آئی۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جب آپ کو علم ہے کہ فلاں گڑھا آپ نے دشمن یا مخالف کیلئے کھودا ہے تو اس میں آپ خود کیوں گر جاتے ہیں۔ میرا دماغ اس کشمکش میں رہتا تھا۔ یہ بات اب مجھے سمجھ آرہی ہے جب میں پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کو سوشل میڈیا کا قیدی بنتے دیکھتا ہوں۔ پی ٹی آئی نے تمام سیاسی جماعتوں‘ مخالفین اور تنقید کرنے والے میڈیا پرسنز کو نتھ ڈال رکھی تھی۔ اب اگر پی ٹی آئی کے چند بڑے لیڈروں کی باتیں سنیں تو اندازہ ہو گا کہ سوشل میڈیا نے کیسے پی ٹی آئی کو جکڑ لیا ہے اور اب فواد چودھری بھی عمران خان کو بتاتے پائے جاتے ہیں کہ ان کی پارٹی کا بڑا دشمن اس وقت اور کوئی نہیں‘ خود ان کا پیدا کردہ سوشل میڈیا کا جن ہے۔ اب فواد چودھری کہتے ہیں کہ خان صاحب اس جن کو واپس بوتل میں ڈال کر مقتدرہ سے صلح کی کوشش کریں۔ فواد چودھری کا مشورہ اپنی جگہ لیکن کیا کریں‘ ہزاروں سال سے پرانے قصے کہانیوں میں ایک ہی بات سنتے آئے ہیں کہ جو جن ایک دفعہ بوتل سے نکل جائے وہ واپس بوتل میں بند نہیں ہوتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved