پی ٹی آئی نے 24نومبر کا احتجاج ناکام ہونے کے بعد حکومت کے ساتھ مذاکرات کیلئے جب پانچ رکنی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی تو ایسا تاثر اُبھرا کہ تحریک انصاف اس مرتبہ مذکرات کیلئے سنجیدہ ہے اور چند ہی روز میں فریقین کے مابین معاملات طے پا جائیں گے‘ لیکن تاحال مذاکرات کی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔ اگرچہ حکومت اور اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے مذاکرات کو کامیاب بنانے کے حوالے سے اُمید افزا بیانات بھی سامنے آرہے ہیں لیکن دونوں فریق مذاکرات کیلئے فرنٹ فٹ پر آنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ اگلے روز سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کے معاملے پر سہولت کار کا کردار ادا کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات کیلئے میرا آفس اور گھر ہر وقت حاضر ہے‘ حکومت اپوزیشن میں تلخیاں ختم کرنے کیلئے مذاکرات ضروری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں سیاسی ایشوز سمیت کسی بھی معاملے پر مذاکرات میں کردار ادا کرنے کو تیار ہوں۔ سردار ایاز صادق کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے رہنا رانا ثنا اللہ بھی قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ حکومت ہر ایشو پر پی ٹی آئی سے بات کرنے کو تیار ہے۔ پی ٹی آئی رابطہ کرے گی تو حکومت سیاسی ڈائیلاگ کیلئے تیار ہے۔ پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی حکومت کو مذاکرات کا پیغام بھیجے۔دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ابھی تک مذاکرات کی باضابطہ شروعات نہیں ہوئی‘ بات چیت کیلئے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے لیکن یہ مذاکرات گن پوائنٹ پر نہیں ہوسکتے‘ اس وقت پی ٹی آئی نے حکومت پر سول نافرمانی کی بندوق تان رکھی ہے۔مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی طرح پی ٹی آئی کے رہنما بھی مذاکرات کے حامی ہیں۔ قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما شیر افضل مروت نے سیاسی قائدین کو مل بیٹھنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک سیاسی قوتیں ایک ہو کر نہیں بیٹھیں گی‘ مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکتے جبکہ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ مذاکرات کیلئے بات تب آگے بڑھے گی جب ہمارے مطالبات پر کھل کر بات ہو گی‘ ہمارے شکوے شکایتیں دور کی جائیں گی۔یعنی چیئرمین پی ٹی آئی بھی مشروط مذاکرات کا اشارہ دے چکے ہیں۔ اگر دونوں فریق سیاست میں مذاکرات کی اہمیت سے آگاہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ سیاسی مسائل بات چیت کے ذریعے حل کیے جائیں‘ تو دونوں طر ف سے بات چیت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ کچھ لچک حکومت دکھائے اور کچھ لچک پی ٹی آئی کو دکھانا پڑے گی تبھی مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھ سکتی ہے۔
دیکھا جائے تو اپریل 2022ء سے‘ جب سے عمران خان تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے محروم ہوئے ہیں‘تحریک انصاف مسلسل مزاحمتی سیاست کے فارمولے پر عمل پیرا ہے اور حکومت تحریک انصاف کے مزاحمتی بیانیے کے خلاف سخت مؤقف اختیار کیے ہوئے ہے لیکن نہ تو تحریک انصاف اب تک اپنے مطالبات منوا سکی ہے اور نہ ہی حکومت تحریک انصاف کو دبا سکی ہے۔ یعنی دونوں فریق اپنی تمام تر طاقت آزمانے کے باوجود مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کر سکے ہیں لیکن اس سیاسی محاذآرائی کی وجہ سے ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ضرور ہوا ہے۔ اس سیاسی محاذ آرائی کے بعد فریقین پر یہ واضح ہو جانا چاہیے کہ سیاسی مسائل کا حل مزاحمت یا طاقت کا استعمال نہیں بلکہ مذاکرات ہیں۔ حکومت اور تحریک انصاف کو آج نہیں تو کل مذاکرات کی میز پر آنا ہی پڑے گا۔ ایک دوسرے کے وجود اور حقوق کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔ سیاسی بات چیت سیاسی مسائل کے حل اور درپیش بحران کے خاتمے کا واحد راستہ ہے اور پچھلے تین برس سے جاری بحران میں جتنا زور مل بیٹھ کر مسائل کے حل پر دیا گیا‘ کسی اور معاملے پر نہیں دیا گیا لیکن اس کے باوجود دونوں اطراف سے سنجیدہ رویہ اختیار نہ کرنے کی وجہ سے تلخیوں میں کمی ہونے کے بجائے اضافہ ہی ہوا ہے۔ یہ بہترین موقع ہے کہ دونوں فریق مذاکرات کے ذریعے سیاسی مسائل کا حل تلاش کریں تاکہ ملک میں سیاسی استحکام قائم ہو سکے۔
سیاسی انتشار کے معاشی اور سماجی اثرات کو دیکھا جائے تو یہ ترقی اور استحکام کے حکومتی ایجنڈے کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ملک میں موجود سیاسی عدم استحکام اس وقت ملک دشمن عناصر کو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کا موقع فراہم کر رہا ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر ملک میں سیاسی مفاہمت کی فضا پیدا کرنا بہت ضروری ہے جس کیلئے اگست 2004ء کے فارمولے پر عمل کرنا ہو گا جب شوکت عزیز کو ملک کا وزیراعظم بنا دیا گیا تھا۔ ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنے کیلئے اب وفاق میں اہم تبدیلی لانا ہوگی اور کابینہ سے ہی کسی غیر جانبدار‘ متحرک اور ایسی قابل شخصیت کو آگے لانا ہوگا جو ملک کو معاشی طور پر بھی مستحکم کر سکے۔ اس فہرست میں اب محسن نقوی کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب کا نام بھی شامل ہو چکا ہے جنہوں نے معیشت کو بہتر کیا ہے۔ شنید ہے کہ مقتدرحلقوں کی طرف سے بھی ایسی حکومت کی تشکیل کا تاثر دیا جا رہا ہے جس سے عمران خان بھی مذاکرات کرنے کیلئے تیار ہوجائیں تاکہ ملک سے سیاسی محاذ آرائی کا خاتمہ ہو سکے۔
اگرچہ حکومت کی طرف سے پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کیلئے لچک دکھائی جا رہی ہے لیکن دوسری طرف اس کا پلان بی بھی تیار ہے۔ سننے میں آ رہا ہے کہ (ن) لیگ کا ایک دھڑا پی ٹی آئی سے بات چیت کے سخت خلاف ہے اور وہ مزید سخت اقدام پر زور دے رہا ہے۔ پارٹی حلقوں میں یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ اگر پی ٹی آئی اور حکومت کے مابین کسی وجہ سے مذاکرات کامیاب نہ ہوئے اور تحریک انصاف اپنے سول نافرمانی والے بیانیے پر قائم رہی یا پھر سے ملک میں لانگ مارچ اور احتجاجوں کاکوئی سلسلہ شروع کیا تو حکومت پی ٹی آئی کو کالعدم قرار دینے کی جانب بڑھے۔ بلوچستان اسمبلی میں تحریک انصاف پر پابندی لگانے کے لیے پہلے ہی قرارداد منظور ہو چکی ہے جبکہ پنجاب اسمبلی میں بھی یہ قرارداد پیش ہو چکی ہے۔ گو کہ اس قرارداد کی پیپلز پارٹی نے مخالفت کی تھی لیکن اس حوالے سے آخری فیصلہ وفاقی حکومت کا ہوگا۔ اگر وزارتِ داخلہ کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 17کے تحت تحریک انصاف کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے تواس فیصلے پر عملدرآمد کیلئے حکومت کو سپریم کورٹ میں ریفرنس بھجوانا ہو گا اور اگر سپریم کورٹ حکومت کے اس فیصلے کو درست قرار دے دیتی ہے تو پھر اس فیصلے پر عملدرآمد کیلئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو احکامات جاری کیے جائیں گے جس کے بعد تحریک انصاف کے تمام ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز‘ حتیٰ کہ بلدیاتی نمائندگان بھی ڈی سیٹ ہوجائیں گے اور پارٹی کے تمام اکائونٹس منجمد اور دفاتر سیل کر دیے جائیں گے۔گو کہ اس وقت مذاکرات سے یہ امید جاگزیں ہوئی ہے کہ معاملات اتنی خرابی تک نہیں جائیں گے اور فریقین کے مابین سیاسی ایشوز مذاکرات کے ذریعے طے پا جائیں گے۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا آٹھ روزہ دورۂ چین اس وقت زیر بحث ہے۔ دورۂ چین کے دوران پنجاب حکومت کے چینی کمپنیوں کے ساتھ آئی ٹی‘ ماحولیات‘ گرین انرجی اور کینسر کے علاج سمیت متعدد منصوبے طے پا گئے ہیں جبکہ پانچ کروڑ ڈالر کے سرمایہ کاری فنڈ کے قیام کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ اس دورے میں پنجاب حکومت اور چینی کاروباری اداروں کے مابین پائیدار اور طویل مدتی شراکت داری کو فروغ دینے کے مختلف معاہدوں پر بھی دستخط ہوئے۔ علاوہ ازیں ماحول دوست توانائی کے فروغ کے جدید منصوبوں پر بھی کام کیا جائے گا۔ پنجاب حکومت اسے ایک کامیاب دورہ قرار دے رہی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس دورے میں طے پانے والے معاہدوں کے عوام کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved