تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     20-12-2024

مسجد اقصیٰ اور نیتن یاہو

اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی زمین پر تین عبادت گاہیں انتہائی عظمت کی حامل ہیں۔ پہلی اور اولین عبادت گاہ ''مسجد الحرام‘‘ ہے جو کہ مکۃ المکرمہ میں ہے۔ دوسری عبادت گاہ ''مسجد نبوی شریف‘‘ ہے جو مدینہ منورہ میں ہے۔ تیسری عبادت گاہ ''مسجد الاقصیٰ‘‘ ہے جو القدس شریف (یروشلم) میں ہے۔ یہ تینوں مساجد ایسی ہیں کہ ہم اہلِ اسلام نے کسی سے چھین کر قبضہ میں نہیں لیں۔ پہلی مسجد کی بات کریں تو اس کے متولی اور منتظم اعلیٰ حضرت محمد کریمﷺ کے پڑدادا حضرت ہاشم تھے۔ حضرت ہاشم کے بعد ہمارے پیارے حضورﷺ کے دادا جان حضرت عبدالمطلب اس کے منتظم تھے۔ ان کے بعد حضورﷺ کے چچا ابو طالب اس کے منتظم بنے۔ جناب ابو طالب کے بعد مسجد الحرام کے وارث حضور نبی کریمﷺ تھے مگر آپﷺ کو مکہ چھوڑنے اور ہجرت پر مجبور کر دیا گیا۔ حضورﷺ آٹھ سال بعد واپس مکہ مکرمہ تشریف لائے تو تب ابوسفیان یہاں کے سردار تھے۔ فتح مکہ کے موقع پر ہی وہ مسلمان ہو گئے۔ انہوں نے سرکارِ مدینہﷺ کے سامنے سرنڈر کر دیا اور رحمت دو عالمﷺ کے ساتھ امن والے شہر میں داخل ہوئے۔ حضور نبی کریمﷺ مسجد الحرام میں تشریف لائے تو کعبہ شریف کے دروازے کی چابیاں عثمان بن طلحہ کے پاس تھیں۔ اس نے یہ چابیاں حضور کریمﷺ کے دست مبارک پر رکھیں۔ الغرض! حضورﷺ نے اپنا حق واپس لے لیا تھا اور امن کے ساتھ حاصل کیا تھا۔ حق دینے والوں نے نہ صرف خوشی سے حق دیا بلکہ حضورﷺ کے اخلاق سے متاثر ہو کر اسلام بھی قبول کر لیا۔
دوسری عظیم عبادت گاہ ''مسجد نبوی شریف‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس طرح عطا فرمائی کہ حضورﷺ جونہی یثرب میں تشریف فرما ہوئے تو یہ شہر ''مدینۃ الرسول‘‘ بن گیا اور وہاں حضورﷺ نے ایک جگہ خریدی اور رقم کی ادائیگی کے بعد یہاں ایک مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا۔ آج یہ مسجد ''مسجد نبوی شریف‘‘ ہے۔ تیسری عظیم مسجد کیسے حاصل کی‘ آئیے! اب ''مسجد اقصیٰ‘‘ کے حقائق ملاحظہ کرتے ہیں۔
مسجد اقصیٰ کا پلاٹ لگ بھگ 37 ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے۔ اس پلاٹ کو انگریزی میں Mount کہتے ہیں‘ یعنی یہ ایک ہموار پہاڑی میدان ہے۔ عبرانی زبان میں اسے موریا (Moria) کہا جاتا ہے۔ اس کے معنی ہیں ''اللہ کی سرزمین‘‘۔ اس میدان پر ریسرچ کرتے ہوئے جب میں نے یہود کی ویب سائٹ (Sefaria) کو وزٹ کیا تو ''عبرانی بائبل‘‘ میں اس میدان کے بارے میں لکھا پایا کہ
The unique power of mount moriah is to connect earth to heaven
یعنی موریا پہاڑی میں ایک خاص قوت ہے جو زمین کو آسمان سے ملاتی ہے۔
قارئین کرام! اس ''موریا مائونٹ‘‘ پر جو عبادت گاہ ہے‘ اسے عبرانی زبان میں حبایت (Habayit) کہا جاتا ہے جس کا اردو میں ترجمہ ہے ''مقدس گھر‘‘۔ اب میں نیتن یاہو‘ وزیراعظم اسرائیل سے اس کالم کے توسط سے ایک ایسا سوال کرنے جا رہا ہوں‘ جو اپنے اندر ایک تاریخی حقیقت رکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں نے ''مائونٹ موریا‘‘ کا میدان کن لوگوں سے لیا تھا؟ کیا آپ یہود سے لیا تھا یا کسی اور سے لیا تھا؟ جناب والا! تاریخی حقائق پر مبنی جواب یہ ہے کہ مسلمانوں نے جب یہ علاقہ فتح کیا تھا تو اس سے چھ صدیاں قبل ہی یورپ کے رومی بت پرستوں نے یہ علاقہ یہود سے چھین لیا ہوا تھا اور اس پر بنے ''حبایت‘‘ یعنی اللہ کے مقدس گھر کو تباہ وبرباد کر دیا تھا۔ پوری یہودی قوم کو یہاں سے نکال دیا گیا تھا چنانچہ یہ لوگ تب دنیا بھر میں بکھرے ہوئے تھے۔ انہی بت پرست رومیوں نے بعد میں مسیحیت کو قبول کر لیا تو یہود پر مزید سختیاں شروع کر دیں‘ مثلاً یہودی یہاں زیارت کے لیے بھی نہیں آ سکتے تھے‘ خاص طور پر یروشلم شہر میں داخل تک نہیں ہو سکتے تھے۔ چنانچہ مسلمانوں نے جب یہ مقدس میدان حاصل کیا تو مسیحی حکمرانوں سے لیا۔ تب وہ یہاں یہود دشمنی میں گند پھینکا کرتے تھے۔ بالخصوص مسیحی خواتین کو یہود پر شدید غصہ تھا کہ جنہوں نے ان کے مسیحا کو صلیب پر لٹکانے کا ظلم کیا اور ان کو (اپنے تئیں) قتل کیا۔ وہ یہود کے مقدس میدان کو‘ جہاں ان کی عبادت گاہ کے محض چند آثار باقی تھے‘ آلودہ اور گندا کرکے اپنے دل کو تسکین دیا کرتی تھیں۔ پھر مسلمانوں نے یہ میدان امن کے ساتھ حاصل کیا تو یہاں کے مسیحی حکمران سوفروینس‘ جو ہیڈ بشپ بھی تھے‘ انہوں نے یہ شرط رکھی کہ مسلم سلطنت کے امیر خود آ کر اس شہر کی چابیاں حاصل کریں۔ چنانچہ حضرت عمر فاروقؓ مدینہ منورہ سے بیت المقدس آئے تو شہر کی چابیاں ان کے ہاتھ پر رکھی گئیں۔ مسلمانوں نے اس میدان پر ایک مسجد ''قبۃ الصخرہ‘‘ بنائی۔ جی ہاں! ہم نے نہ ''مائونٹ موریا میدان‘‘ یہود سے لیا اور نہ ہی ان لوگوں کی عبادت گاہ کو چھیڑا کہ یہاں اُس وقت اس کا وجود بھی نہ تھا۔
یہود کے اس علاقے سے نکل جانے کے کوئی دو ہزار سال کے بعد مسیحی دنیا کے چند حکمرانوں کو یہود نے اپنے ساتھ ملایا۔ اب یہ لوگ‘ جو ہزاروں سال تک مذہبی طور پر ایک دوسرے کے دشمن رہے اور اب بھی دلی نفرت رکھتے ہیں‘ مسلمانوں کی ''مسجد اقصیٰ‘‘ اور قبۃ الصخرہ‘‘ کو زمین بوس کرنا چاہتے ہیں اور یہاں ایک ایسی عبادت گاہ بنانا چاہتے ہیں‘ جس کے ماننے والوں کی تعداد اسرائیل میں ایک کروڑ سے بھی کم ہے جبکہ دنیا بھر میں کوئی دو کروڑ یہودی ہیں۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں کی آبادی اسرائیل میں قریب 75 لاکھ جبکہ دنیا بھر میں دو ارب آبادی مسلمان ہے۔ یعنی آج دنیا کی ایک چوتھائی آبادی مسلم ہے۔ ان کی ایک مقدس عبادتگاہ گرانے سے یقینا دنیا کا امن تباہ ہو جائے گا۔ میں کہتا ہوں نیتن یاہو اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امن اور سلامتی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ بھارت نے بھی تباہی والا راستہ اختیار کر رکھا ہے‘ وہ بھی مسلمانوں کی مساجد کو منہدم کرکے وہاں اپنے مندر بنا رہا ہے۔ بابری مسجد کی جگہ ''رام مندر‘‘ بن چکا ہے‘ مزید سینکڑوں مساجد پر نشانات لگائے جا چکے ہیں کہ یہاں کبھی مندر ہوا کرتے تھے۔ ذرا غور کیجئے! اگر آٹھ ارب انسانوں کے حکمران سائنسی ترقیوں اور انسانی فلاح وبہبود کو چھوڑ کر ایسے کاموں میں پڑ جائیں‘ دنیا کے 200 سے زائد ملکوں میں ہر جگہ اکثریتی حکمران پارٹی اپنے ملک کی اقلیتوں کے تاریخی ورثے کو مٹانا شروع کردے‘ مذہبی ورثے کو برباد اور نابود کرنا شروع کر دے تو اقوام متحدہ میں عالمی انسانی ورثے کا جو بین الاقوامی ادارہ ہے اس کا کیا بنے گا؟ کیا انسانی ورثہ دنیا سے مٹنے جا رہا ہے؟ یاد رکھیں! اگر ایسی انتہا پسندی بڑھتی چلی گئی تو یہ زمین جو پہلے ہی انسانی خرابیوں کے سبب موسمی آلودگیوں کا شکار ہے‘ وہ انسانی خونریزی اور دہشت گردی کی لپیٹ میں آنا شروع ہو جائے گی۔ لہٰذا میری گزارش ہے کہ نیتن یاہو اس خطرناک راستے پر چلنے سے رک جائیں۔ وہ نہ رکیں تو امریکہ کے نومنتخب صدر جناب ڈونلڈ ٹرمپ اس راستے کے آگے دیوار بن کر کھڑے ہو جائیں۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کو بھی اس راستے پر مزید آگے بڑھنے سے روکا جائے۔ یو این میں انسانی ورثے کے ادارے کو بھی آگے بڑھنا چاہیے۔ امن کے لیے انسانی ورثے کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے روڈ میپ اس عظیم ہستی سے لیا جائے جن کا نام نامی اسم گرامی حضرت محمدﷺ ہے۔ آپﷺ ساری انسانیت کے لیے رحمت بن کر آئے۔ دنیا میں جو تین عظیم عبادت گاہیں ہیں‘ وہ تین مساجد ہیں۔ حضورﷺ اور آپ کے وارثوں نے ان تینوں کو نہ تو کسی سے چھینا‘ نہ ہی کچھ گرایا بلکہ امن کے ساتھ انہیں حاصل کیا اور تینوں کو امن کا سمبل بنایا۔ آئیے! انسانیت کو ایسے پُرامن سمبل کی راہ کا راہی بنائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved