تاریخ نگاری پر تو مجھے پہلے بھی زیادہ بھروسا نہیں تھا۔ برادرم فاروق عادل کی کتابیں پڑھنے کے بعد‘ اس کا رہا سہا بھرم بھی ختم ہو گیا۔
مسئلہ تاریخ میں نہیں‘ تاریخ نگاری میں ہے۔ ہر انسانی عمل کی طرح‘ یہ غلطیوں اور تعصبات سے پاک نہیں۔ غلطی دیانت کے ساتھ ہو سکتی ہے اور تعصب بھی انسانی طبیعت کا حصہ ہے۔ تاریخ کو ایک زاویے سے پڑھیں تو آپ شیطان سے متعارف ہوتے ہیں‘ دوسرے زاویے سے دیکھیں تو ایک سادھو سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ فاروق عادل صاحب نے اپنی کتاب کا عنوان رکھا ہے 'جب مورخ کے ہاتھ بندھے تھے‘۔ گویا اہم واقعات کے بیان میں مورخ کا کوئی کردار نہیں تھا۔ یہاں مورخ سے مراد ایک ایسا وقائع نگار ہے جو سچ لکھتا اور تعصبات سے بالاتر ہوتا ہے۔ ہم برسبیلِ تذکرہ ایسے وجود کو حقیقی مان لیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم نے اپنی قومی تاریخ کے بارے میں جو پڑھا‘ یا ہمیں جو پڑھایا گیا‘ وہ محض افسانہ تھا۔ یا اگر افسانہ نہیں تھا تو ایک غیر مصدقہ بیانیہ ضرور تھا۔
ایک آدھ مثال سے بات مزید واضح ہو جائے گی۔ 'اگرتلہ سازش‘ سے تو آپ واقف ہیں۔ شیخ مجیب الرحمن کے خلاف اس عنوان سے ایک مقدمہ بنا تھا۔ اگرتلہ بھارت کی ایک بستی کا نام ہے جہاں‘ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کو توڑنے کی سازش تیار ہوئی تھی۔ اس کا مرکزی کردار شیخ مجیب الرحمن کو قرار دیا گیا۔ فاروق عادل صاحب نے ثقہ راویوں کو ایک قطار میں لاکھڑا کیا ہے۔ ان میں سے کچھ کا خیال ہے کہ اس سازش کا کوئی وجود نہیں تھا۔ کچھ وہ ہیں جنہیں یقین ہے کہ یہ سازش ایک حقیقت تھی۔ قدرت اللہ شہاب اور جنرل گل حسن کا کہنا ہے کہ یہ سازش فی الواقع ہوئی۔ الطاف گوہر اورقانون دان مودود احمد کے نزدیک یہ افسانہ تھا۔ یہ سب محرمِ رازِ دورنِ میخانہ ہیں۔ قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر سول بیورو کریسی کے ستون تھے۔ جنرل صاحب پاک فوج کے سربراہ تھے۔ ان میں سے کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دینا مشکل ہے۔
تاہم مقطع میں فاروق عادل صاحب عوامی لیگ کے رکنِ پارلیمان شوکت حسین صاحب کی شہادت لائے ہیں۔ انہوں نے 2011ء میں بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ کو بتایا کہ یہ سازش حقیقت تھی اور اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ خود اس کا حصہ تھے۔ اس اعترافی بیان کے بھی دو پہلو ہیں۔ عوامی لیگ کی نظر سے دیکھیں تو یہ ایک کارنامہ ہے۔ اہلِ پاکستان کی نگاہ میں غداری۔ شوکت صاحب کا مخاطب طبقہ عوامی لیگ ہے۔ کیا معلوم وہ اپنے حلقے میں مقبولیت کے لیے یہ سب کہہ رہے ہوں؟ پھر یہ کہ شیخ مجیب الرحمن خود اس کی تردید کرتے رہے۔ ان کی بات مانی جائے یا شوکت صاحب کی؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت نے بعد میں مقدمہ واپس لے لیا۔ اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ ایک وجہ تو الطاف گوہر صاحب بتاتے ہیں کہ مقدمہ کمزور تھا۔ شیخ مجیب الرحمن کا نام مقدمہ درج ہونے کے بارہ دن بعد ملزمان میں شامل کیا گیا۔ پھر یہ کہ جب یہ واقعات ہوئے وہ جیل میں تھے۔ دوسری وجہ سیاسی ہو سکتی ہے کہ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی مقبولیت کے پیشِ نظر ریاست ان کے ساتھ معاملہ کرنے پر مجبور تھی۔ ان سب وجوہات کو ایس ایم ظفر صاحب نے بیان کیا ہے۔ مشرقی پاکستان کے حالات سنگین ہوئے تو ایوب خان نے سیاستدانوں کی گول میز کانفرنس بلائی۔ اس میں شیخ مجیب الرحمن کو بھی مدعو کیا گیا جو اگرتلہ سازش کیس میں نظربند تھے۔ انہوں نے آنے سے انکار کیا تو اہلِ سیاست نے ان کی رہائی کا مطالبہ کر دیا۔ فاروق عادل صاحب نے ایس ایم ظفر صاحب کی روایت نقل کی کہ ممتاز قانون دان اے کے بروہی ایوب خان سے ملے اور ان سے یہ مقدمہ واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
یہاں تاریخ سیاسی حرکیات سے جُڑ جاتی ہے۔ پھر معاملہ سچ یا جھوٹ کا نہیں رہتا۔ حکومتوں کو بہت سے اقدام ریاستی مفاد میں بادلِ نخواستہ اٹھانا پڑتے ہیں۔ جب کسی کو سیاسی عصبیت حاصل ہو جائے تو اس کے خلاف قانون غیر مؤثر ہو جاتا ہے۔ ریاست کے پاس دو راستے تھے۔ مجیب الرحمن کو غدار قرار دے کر پھانسی چڑھا دے اور فساد کے دروازے کھول دے یا پھر پاکستان کو تقسیم ہونے سے بچا لے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ریاست نے دوسرا راستہ اپنایا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت بہت دیر ہو چکی تھی اور بعد میں یحییٰ خان جیسے حکمران آئے جو ریاستی مفاد کے بارے میں زیادہ حساس نہ تھے یا سیاسی حرکیات سے ناواقفِ محض۔
مشرقی پاکستان کے حادثے سے متصل ایک مقدمہ ریاست کے ہاتھوں بنگالیوں کے قتلِ عام کا بھی ہے۔ ایک طرف کہا گیا کہ لاکھوں لوگ مارے گئے۔ دوسری طرف غیر پاکستانی تاریخ دان بھی اس تعداد کو مبالغہ آمیز قرار دے رہے ہیں۔ فاروق عادل صاحب اس قضیے کو بھی سامنے لائے ہیں اور تاریخ کا وہ پہلو ہمارے سامنے رکھا ہے جو عام طور پر نظروں سے اوجھل رہا۔ اس کی و جہ شاید وہی تھی کہ اُس وقت مورخ کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ یہ جب کھلے تو نئی معلومات سامنے آئیں۔ اب یہ معلومات کتنی قابلِ بھروسا ہیں‘ اس کا حتمی فیصلہ مشکل ہے لیکن اس سے یہ ضرور ہوا کہ پہلے سے قائم مقدمہ مشتبہ ہو گیا۔ راویوں کی کثرت سے تاریخ کے ساتھ یہی ہو تا ہے۔
سقوطِ مشرقی پاکستان کے ساتھ‘ فاروق عادل صاحب اپنی کتاب میں پاکستان کی تاریخ کے دیگر بہت سے واقعات کا ایسا پس منظر سامنے لائے ہیں جن سے پڑھے لکھے لوگ بھی بے خبر تھے۔ بھٹو صاحب کا سوشلزم کیسے کفر قرار دیا گیا؟ منیر انکوائری رپورٹ کے کون سے پہلو چھپائے گئے؟ قرۃ العین حیدر نے قدرت اللہ شہاب صاحب کو استفہامیہ انداز میں یہ کیوں کہا: تو گویا اب بھونکنے پر بھی پابندی ہے؟ صالحین کی نرسری کون سی ہے اور یہ کیسے وجود میں آئی؟ قلات کی ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق کیسے ہوا؟ فاروق عادل ان سوالوں کے جواب کی تلاش میں تاریخی بیانیوں کی تہہ میں اُترے اور بہت دلچسپ جواب ہمارے سامنے لائے۔ یہ معلوم جواب سے مختلف ہیں۔ کتاب پڑھتے ہوئے قاری ہر صفحے پرفاروق عادل صاحب کی وسعتِ مطالعہ اور تحقیقی ذوق کی داد دیتا ہے۔
تاریخ کا بیان ایک دلچسپ عمل ہے۔ فاروق عادل صاحب کو قدرت نے یہ ملکہ دیا ہے کہ وہ حقائق کو کہانی کے اسلوب میں بیان کر سکتے ہیں‘ اس اہتمام کے ساتھ کہ تاریخ نگاری کا بھرم قائم رہے۔ ان کاذوق شستہ ہے‘ جس سے ان کے مضامین کا مطالعہ طبیعت کو بوجھل نہیں ہونے دیتا۔ قاری آخر تک ان کے ہم سفر رہتا ہے اور بہت سنجیدہ مباحث کسی دماغی مشقت کے بغیر‘ اس کی یادداشت اور سوچ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ ایک کامیاب لکھاری کی نشانی ہے۔ وہ اصلاً صحافی ہیں‘ اس لیے ادیب کا قلم رکھنے کے باوجود‘ واقعات کو انشا پردازی کے گھاٹ پر قربان نہیں کرتے۔ پاکستان کی تاریخ کو سمجھنے کے لیے ان کی کتابیں ناگزیر مطالعہ بن گئی ہیں۔
اس کتاب سے میں جو کچھ اخذ کر سکا ہوں‘ اس کو میں نے ابتدا میں بیان کر دیا ہے۔ میں صرف اسی تاریخ کو مصدقہ مانتا ہوں جو کسی الہامی واسطے سے مجھ تک پہنچی ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ محض ظن ہے۔ ظن کبھی یقین کا فائدہ نہیں دیتا۔ مورخ کے ہاتھ کبھی طاقت باندھ دیتی ہے‘ کبھی تعصب اور کبھی کم فہمی۔ ایمان وعقائدکے معاملات میں تاریخ معتبر نہیں۔ ان کی بنیاد کسی یقینی ذریعۂ علم پر ہونی چاہیے۔ تاریخ ایک ضمنی دلیل کے طور پر البتہ ہمیشہ قابلِ توجہ رہے گی۔ ایک اہم ذریعۂ علم کے طور پر ہم اسے نظر انداز نہیں کر سکتے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved