خیبرپختونخوا کے سرحدی ضلع کُرم میں قبائل کے درمیان شروع ہونے والی کشیدگی گمبھیر صورت اختیار کر چکی ہے۔ ایک ماہ کے دوران 130 سے زائد افراد اس انتقام کی آگ کا ایندھن بنے ہیں۔ دور افتادہ اور جنت نظیر علاقے کا امن کیسے غارت ہوا‘ مہمان نواز اور پُرامن سمجھے جانے والے قبائل کے پاس بھاری اسلحہ کیسے پہنچا‘ یہ ریاستی اداروں کی توجہ کا مرکز کا ہونا چاہئے۔ واقفان ِحال جانتے ہیں کہ کُرم میں قبائل ایک دوسرے کے خلاف جس قسم کا بھاری اسلحہ استعمال کر رہے ہیں اسے نہ تو قانونی کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی فورسز کے علاوہ کسی کے لیے ممکن ہے کہ اس قسم کا بھاری اسلحہ اپنے پاس رکھ سکے۔ کُرم میں پچھلے ایک ماہ سے قبائل کے درمیان گولہ باری اور فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے اور اسلحہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا‘حالانکہ تمام راستے بند ہیں۔ قبائل کو اسلحہ کی فراہمی اور سپلائی کے پیچھے ہاتھوں کو بے نقاب نہ کیا گیا تو بدامنی کی یہ آگ سلگتی رہے گی۔
خیبرپختونخوا میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال پر صوبائی اپیکس کمیٹی کا اجلاس نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ صوبائی‘ وفاقی اور عسکری قیادت نے طویل غور و خوض کے بعد اہم فیصلے کیے ہیں‘ اگر حالات کی نزاکت کا کچھ عرصہ پہلے ادراک کر لیا جاتا تو قیمتی جانوں کو بچایا جا سکتا تھا۔ اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ کُرم میں فریقین سے اسلحہ جمع کرنے کا متفقہ فیصلہ ہوا ہے جس کے لیے فریقین حکومت کی ثالثی میں ایک معاہدے پر دستخط کریں گے۔ معاہدے میں رضاکارانہ طور پر اسلحہ جمع کرانے کے لیے دونوں فریق 15 دنوں میں لائحہ عمل دیں گے۔ یہ بھی طے ہوا کہ یکم فروری تک تمام اسلحہ انتظامیہ کے پاس جمع کیا جائے گا اور یکم فروری تک علاقے میں قائم تمام بنکرز مسمار کیے جائیں گے۔ اس دوران انسانی ہمدردی کی بنیاد پر علاقے کا زمینی راستہ وقفے وقفے سے عارضی طور پر کھولا جائے گا۔ تمام زمینی راستے پر آمدورفت کو محفوظ بنانے کیلئے سکیورٹی میکانزم ترتیب دیا گیا ہے۔ پولیس اور ایف سی اہلکار قافلوں کو سکیورٹی فراہم کریں گے۔ علاقے میں آمدورفت کے مسئلے کے حل کے لیے ہنگامی بنیادوں پر خصوصی فضائی نگرانی شروع کی جائے گی جس کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہیلی کاپٹر فراہم کریں گی۔ فریقین زمینی راستے کو ہر وقت کھلا رکھنے کے لیے کسی بھی پُرتشدد کارروائی سے اجتناب کریں گے‘ ورنہ انتظامیہ راستے کو دوبارہ بند کرنے پر مجبور ہو گی۔ علاقے میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والے تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بند کیا جائے گا۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ کُرم کا مسئلہ صرف علاقائی نہیں بلکہ ایک قومی اور سنجیدہ مسئلہ ہے‘ اس مسئلے پر کسی کو سیاست چمکانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ کُرم میں کشیدگی کے مسئلے پر بعض سیاسی قائدین کی طرف سے سیاسی بیانات کو قابلِ افسوس قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ کُرم کے مسئلے پر صوبائی اور وفاقی حکومتیں اور تمام متعلقہ ادارے ایک پیج پر ہیں۔ اپیکس کمیٹی کے اجلاس سے قبل وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور سے ملاقات کر کے صوبے میں قیامِ امن کے حوالے سے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ یہ اجلاس اگرچہ بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا تاہم پختونخوا حکومت کی مصروفیات اور سیاسی محاذ آرائی نے وفاق اور صوبے کے درمیان کشیدگی کی جو لکیر کھینچ دی تھی اس کے باعث یہ ممکن نہ ہوا پایا۔ اب جبکہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں صوبے میں قیام امن کیلئے مشترکہ طور پر لائحہ عمل پر متفق ہیں تو امید کی جانی چاہئے کہ اس عزم و ارادے کو عملی شکل دے کر منطقی انجام تک ضرور پہنچایا جائے گا۔ امن و امان صرف کُرم کا ہی مسئلہ نہیں‘ پورا صوبہ خیبر پختونخوا بدامنی کی لپیٹ میں ہے‘ سو ضروری ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومت قیامِ امن کی خاطر مشترکہ طور پر آگے بڑھیں۔
حکومت کے لیے دوسری مشکل مدارس بل ہے۔ حکومت مدارس کو قومی دھارے میں لانا چاہتی ہے تاکہ مدارس کو وزارتِ تعلیم کے ماتحت کر کے دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کے فروغ کے لیے اقدامات کیے جا سکیں‘ تاہم اہلِ مدارس کا اصرار ہے کہ جس سوسائٹی ایکٹ کے تحت برسوں سے مدارس کی رجسٹریشن ہوتی رہی ہے اسی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کے معاملے کو حل کیا جائے کیونکہ مدارس فلاحی ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اتحاد تنظیماتِ مدارس کے علما کے ساتھ مل کر احتجاج کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے لہجے میں کسی قدر تلخی ضرور ہے مگر وہ حکومت کے ساتھ مدارس بل کے معاملے کو آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اور پُرامن انداز سے حل کرنا چاہتے ہیں اس حوالے سے مولانا فضل الرحمن نے جمعہ کو وفد کے ہمراہ وزیر اعظم سے خوشگوار ماحول میں ملاقات کی۔ اس موقع پر مولانا نے کہا کہ اتحاد تنظیماتِ مدارس کے سربراہ مفتی تقی عثمانی کو ملاقات کی اطلاع دی اور انہی کی اجازت سے گفتگو کی ہامی بھری۔ مولانا فضل الرحمن کے مطابق دونوں ایوانوں سے بل منظور ہو جانے کے بعد اب وہ ایکٹ بن چکا ہے‘ اگر صدرِ مملکت نے اس پر اعتراض کرنا ہے تو اعتراض ہو چکا اور اس کا آئین‘ قانون اور رُولز کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی نے جواب بھی دے دیا اور اس جواب پر صدر نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا‘ اور اپنے اعتراض پر کوئی اصرار بھی نہیں کیا۔ مولانا کا کہنا تھا کہ مدارس پر ہمارے مؤقف کا مثبت جواب دیا گیا اور وزیراعظم نے وزارتِ قانون کو فوری ہدایت جاری کی کہ اب آئین و قانون کے مطابق آپ فوری طور پر عملی اقدامات کریں۔ مولانا فضل الرحمن نے امید ظاہر کی کہ حکومت اہلِ مدارس کی خواہش کے مطابق عمل کرے گی اور ایک آدھ دن کے اندر ہم اس حوالے سے خوشخبری سنیں گے اور ہمارا مطالبہ تسلیم کیا جائے گا۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ نے کہا کہ وزیراعظم نے جس سپرٹ سے بات کی ہے ہمیں امید ہے کہ معاملہ آئین و قانون کے تقاضے کے مطابق حل ہو جائے گا۔
اگر مدارس کی رجسٹریشن کا معاملہ پُرامن طریقے اور مذاکرات کے ذریعے حل ہو جاتا ہے تو اس سے بہتر کوئی آپشن نہیں۔ قوی امید ہے کہ وزیر اعظم سیاسی بصیرت سے اس مسئلے کو حل کر لیں گے لیکن اگر وزیر اعظم کی یقین دہانی کے باوجود کسی دوسری جگہ سے رکاوٹ آتی ہے اور مدارس بل کے معاملے کو حل نہ کیا گیا تو حکومت کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔ حکومت نے مدارس رجسٹریشن کے معاملے پر 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد جو مؤقف اپنایا ہے‘ ترمیم سے پہلے کے اپنے مؤقف کا دفاع کرنا حکومت کیلئے مشکل ہے کیونکہ 26 ویں آئینی ترمیم کے وقت حکومت نے مدارس کی رجسٹریشن کے معاملے کو حل کرنے کا وعدہ کیا تھا اوراس پر کئی نشستوں میں سیر حاصل گفتگو ہوئی تھی۔ دینی حلقوں میں مولانا کی کوششوں کو خوب سراہا جا چکا ہے‘ اب مولانا کے لیے بھی بظاہر اس مؤقف سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں رہا۔ مولانا تصادم سے بچنے کی حتی الامکان کوشش کر رہے ہیں اور حکومت کو کسی نتیجے پر پہنچنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں۔ مولانا نے حکومت کے سامنے اپنے مطالبات رکھ دیے ہیں اب گیند حکومت کے کورٹ میں ہے اور وزیر اعظم کی سیاسی بصیرت کا امتحان ہے۔ صلح جُو طبیعت کے مالک وزیر اعظم شہباز شریف اس امتحان میں کس طرح سرخرو ہوتے ہیں یہ اہم ہو گا۔
کالم مکمل کرنے کے بعد یہ خبر موصول ہوئی کی نو مئی کے 25 مجرموں کو فوجی عدالتوں سے دو سے 10 سال قید بامشقت کی سزا سنا دی گئی ہے‘ جس میں زیادہ تر عام کارکنان ہیں۔ اس اہم موضوع پر ہم تفصیل سے اگلے کالم میں لکھیں گے‘ تاہم اس فیصلے سے واضح ہو گیا کہ آنے والے دنوں میں کیا ہونے جا رہا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved