تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     22-12-2024

مزاحمت کی میراث

ہندوستانی تاریخ میں سرسید احمد خاں جیسی چند ہی اور شخصیات ہوں گی جنہوں نے کمیونٹی کے فکری اور سماجی ارتقاپر اتنا گہرا اور دیر پا اثر ڈالاہو۔ بطور ایک صاحبِ بصیرت اور مصلح قوم‘ ان کی زندگی جدوجہد‘ ناکامیوں اور شاندار کامیابیوں سے عبارت تھی اور ان کی میراث ان کی دور اندیشی اور عزم کا ثبوت ہے کیونکہ انہوں نے 19ویں صدی کے ہندوستان کے ہنگامہ خیز پانیوں میں اُترنے کی ہمت کی۔ سرسید کی سب سے بڑا کارنامہ روایتی مسلم فکر اور جدید دنیا کے درمیان خلیج کو پاٹنا تھا۔اس کام میں انہیں اپنے لوگوں کی طرف سے بھی مزاحمت کا سامنا رہا۔
1817ء میں دہلی میں پیدا ہونے والے سید احمد خاں کا تعلق مغلیہ اشرافیہ سے گہرے تعلق رکھنے والے ایک گھرانے سے تھا‘ جس کی وجہ سے انہیں تعلیم تک ابتدائی رسائی اور سیاست کی باریک بینی سے آگاہی حاصل ہوئی۔ مغل سلطنت کے خاتمے‘ انگریزوں کے اقتدار میں آنے اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں کی پسماندگی کو دیکھتے ہوئے سرسید اپنی برادری کو بدلتے ہوئے سماجی و سیاسی منظر نامے کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت سے بخوبی واقف ہو گئے تھے۔1857 ء کی ہندوستانی بغاوت نے سرسید کے ذہن پر ایک دیرپا داغ چھوڑا۔ ان حالات نے برطانوی حکمرانوں اور ان کی ہندوستانی رعایا کے درمیان وسیع خلیج کو بے نقاب کیا‘ خاص طور پر مسلم اشرافیہ‘ جسے بے وفا اور پسماندگی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔اس جنگ آزادی کے نتیجے میں مسلمان شہریوں کا قتل ِعام سرسید کے لیے ایک ایسا زور دار جھٹکا تھا جس سے انہیں احساس دلایا کہ ان کی برادری کی بقا اور خوشحالی کے لیے انگریزوں کے ساتھ اس کے تعلق اور جدید دنیا میں اس کے مقام پر نظر ثانی کی سخت ضرورت ہے۔البتہ سرسید کی ابتدائی اصلاحی کوششوں کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلمانوں سے انگریزی سیکھنے اور مغربی سائنسی تعلیم کو اپنانے کے لیے ان کے مطالبے کو روایتی طبقے نے شبہے کی نظر سے دیکھا‘ انہیں خدشہ تھا کہ اس طرح کے طرزِ عمل سے ہند مسلم ثقافتی اقدار کمزور ہو جائیں گی اور ثقافتی استعمار کے دروازے کھل جائیں گے۔ انگریزوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے قیام کے لیے سر سید کے دلائل اور وکالت تنازع کا ایک اور ذریعہ تھی۔ مسلمان انگریزوں کو جابر حکمرانوں کے طور پر دیکھتے تھے‘ سرسید کا یہ مشورہ کہ انہیں ترقی میں شراکت دار بننا چاہیے‘ انہیں غداری کی طرح لگتا تھا؛چنانچہ سر سید کو روایتی طبقے کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا رہا۔ ان پر طرح طرح کے الزامات اور فتوے بھی لگائے گئے اور روایتی تعلیمی اداروں کو ترک کر کے جدید سکولوں کے حق میں ان کے موقف کوقدم قدم پر رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ وہ دور تھا جب جدیدیت کو ایقان کے ساتھ ملانے کا خیال بہت سے لوگوں کے لیے ناقابلِ فہم تھا۔ ان ناکامیوں کے باوجود سرسید نے حوصلہ نہیں ہارا۔ انہوں نے سمجھا کہ ان کی ابتدائی اصلاحات کی ناکامی ان کی کمیونٹی میں تبدیلی کے سے خوف کی وجہ سے تھی۔ انہیں اپنے لوگوں کی ذہنیت کو تبدیل کرنے کی ضرورت تھی‘ یہی ان کی زندگی بھر کا نصب العین بن گیا۔
سرسید کا سب سے بڑا کام علی گڑھ تحریک کی صورت میں سامنے آیا۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ تعلیمی اصلاحات ہندوستان میں مسلمانوں کو بااختیار بنانے کی کلید ہیں‘ انہوں نے 1875ء میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی بنیاد رکھی جو بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بن گیا۔ یہ ادارہ صرف ایک درسگاہ نہیں تھا بلکہ ایک وژن کی علامت بن کر سامنے آیا۔ ایک ایسی جگہ جہاں مسلمان جدید علوم‘ یورپی ادب اور مغربی سیاسی نظام سیکھ سکتے تھے۔ یہ سب کچھ اسلامی اصولوں پر قائم رہتے ہوئے تھا۔ کالج اپنے نصاب میں انقلابی تھا جہاں روایتی اسلامی تعلیم کو جدید مضامین کے ساتھ ملایا گیا۔ اس ادارے نے مسلم دانشوروں‘ لیڈروں اور وکیلوں کی نسلیں پیدا کیں جنہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کے مستقبل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ علی گڑھ میں سرسید کی کامیابی نے ثابت کر دیا کہ مسلم شناخت کے لیے جدیدیت سے مطابقت رکھنا ضروری ہے۔ ان کا ادارہ روشن خیالی کا ایک مینار بن گیا‘ جس نے برصغیر کے طلبہ کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ یہ ایک طویل جدوجہد کے بغیر نہیں تھا۔ کالج کے لیے چندہ اکٹھا کرنا ایک بڑا کام تھا کیونکہ بہت سے مسلمان اب بھی اس مقصد کے حوالے سے شکوک و شبہات میں مبتلا تھے مگر سرسید نے اس غرض سے انتھک جدوجہد کی اور اپنے ذاتی کردار اور وژن سے لوگوں کو اس ادارے کی ضرورت پر قائل کیا۔ ان کی ثابت قدمی رنگ لے آئی کیونکہ بتدریج زیادہ سے زیادہ مسلمانوں نے ان کی تعلیمی اصلاحات کی قدر کو دیکھنا شروع کر دیا۔
تعلیم کے علاوہ سرسید ایک سنجیدہ اور گہرے سیاسی مفکر بھی تھے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ ہندوستان میں مسلمان ایک اقلیت ہیں اور انہیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے حکمت عملی کے ساتھ انگریزوں کے ساتھ اتحاد کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ان کے سیاسی فلسفے نے مسلمانوں کو تعلیم اور سماجی و سیاسی حوالے سے بااختیار بنانے کے دوران برطانوی سلطنت کے وفادار رہنے کی وکالت کی۔ یہ ایک عملی نقطہ نظر تھا جس کا مقصد سر سید کی اپنی رائے میں بے پناہ سیاسی تبدیلیوں کے دور میں مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔ تاہم نو تشکیل شدہ انڈین نیشنل کانگریس میں مسلمانوں کی وکالت کرنے کی ان کی کوششیں ٹکراؤ کا ایک اور نکتہ تھیں۔ سرسید انگریزوں کے ساتھ تعاون پر یقین رکھتے تھے اور انہیں کانگریس کے تجویز کردہ ہندو مسلم اتحاد پر شدید شکوک تھے۔ انہوں نے فرقہ وارانہ کشیدگی کے بڑھنے کی پیشگوئی کی اور علیحدہ مسلم سیاسی نمائندگی کی وکالت کی۔یہی وژن آگے چل کر قیام پاکستان کی صورت میں سامنے آیا۔
سر سید احمد خان کی زندگی کامیابیوں اور ناکامیوں کے درمیان ایک نازک توازن معلوم ہوتی ہے۔ ان کی پہلی ناکامیوں کی جڑ ان کی برادری کی جڑت میں تھی‘ جو اپنے ارد گرد کی دنیا میں ہونے والی تیز رفتار تبدیلیوں کے خلاف مزاحم تھی۔ مگر سر سید کی کامیابیاں ان ناکامیوں سے کہیں زیادہ ہیں کیونکہ انہوں نے نہ صرف جنوبی ایشیا کے سب سے باوقار تعلیمی اداروں میں سے ایک کی بنیاد رکھی بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کی فکری اور سیاسی بیداری کی بنیاد بھی رکھی۔ آج سرسید کو نہ صرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد رکھنے میں ان کے کردار کے لیے یاد کیا جاتا ہے بلکہ ایک ایسے علمبردار مفکر کے طور پر بھی جس نے ایک ایسے مستقبل کا تصور کرنے کی ہمت کی جہاں ایقان اور جدیدیت ایک ساتھ رہ سکیں۔ ان کی زندگی استقامت‘ وژن اور اصلاح کی عملی تصویر ہے‘ خاص طور پر مضبوط مخالفتوں کے باوجود۔ اگرچہ سر سید کا مسلم برطانوی تعاون اور فرقہ وارانہ نمائندگی کا وژن مکمل طور پرپورا نہیں ہوا لیکن انہوں نے جو بیج بوئے تھے وہ تحریکوں میں پروان چڑھے جنہوں نے برصغیر کے سیاسی منظرنامے کی تشکیل کی۔ تعلیم اور خود کو بہتر بنانے کے لیے ان کی پکار آج بھی برصغیر کے مسلم ذہنوں میں گونجتی ہے‘ خاص طور پر ان کمیونٹیز میں جو روایت اور جدیدیت کے درمیان توازن کی سوچ رکھتی ہیں۔
سر سید احمد خان کی میراث کا حساب آسان نہیں‘ یہ ان کی ناکامیوں اور ان کی حتمی کامیابیوں کا احاطہ کرتی ہے۔ ان کی زندگی کا کام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ معاشرتی تبدیلی اکثر سست اور مزاحمت سے بھر پور ہوتی ہے لیکن ثابت قدمی اور بصیرت والی قیادت بالآخر تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے۔ سر سید عزم کی علامت بنے ایک ایسے مصلح تھے جس نے زبردست مخالفت کے باوجود جدید دنیا میں اپنے لوگوں کے لیے ایک راستہ بنایا۔ سرسیدکی کہانی نسلوں کو متاثر کرتی رہے گی۔ یہ ہمارے لیے ایک یاد دہانی کے طور پر کام کرتی ہے کہ مشکلات کے عالم میں بھی خواب دیکھنے والے اپنی قوم کو تعلیم اور با اختیار بنا کر مستقبل کی تشکیل کر سکتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved