تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     23-12-2024

(2)…I'll say it again

امریکی صدر کے خصوصی نمائندے Richardکے آفیشل اکاؤنٹ کی ٹرولنگ کا نتیجہ کیا نکلا‘ اس کی طرف بعد میں آئیں گے‘ پہلے 16/12کی تاریخ کی جانب چلتے ہیں۔ جو نصف صدی میں کبھی تبدیل نہ ہوئی اور نہ ہی ہماری ایلیٹ کی سوچ اور رویوں میں کوئی تبدیلی آ سکی۔ سقوطِ ڈھاکہ سازش تھی یا اپنے لوگوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنے کا نتیجہ یا شکست‘ اس کا فیصلہ پیڈ تبصرہ نگاری سے نہیں ہو سکتا۔ اسی حقیقت کے پیشِ نظر 16/12 کی درست تاریخ لکھنے کے لیے جسٹس حمودالرحمن کا کمیشن بنایا گیا تھا۔ اس کمیشن نے ریاستی اداکاروں اور سقوطِ ڈھاکہ کے گناہگاروں کے نام لے لے کر دو رپورٹس جاری کیں۔ تین برس ہو چلے‘ ہر ہفتے کہیں نہ کہیں PTIکے خلاف FIRدرج ہوتی ہے جس کے لیے سارے اداروں کے ارکان جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنا کر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر قوم کو وطن پرستی کا سبق دینے کے لیے سیاسی کارکنوں کو دہشت گرد بنا کر پیش کرنے کے لیے میڈیا ٹاک اور رپورٹ لیکس کا لنڈا بازار لگتا ہے۔ پاکستانی قوم بے وقوف بھیڑیں نہیں جنہیں کوئی ہانک کر اپنی میں‘ میں‘ میں کی ہمنوائی کروا لے گا۔ قوم کا ہر طبقہ یہ سوال پوچھ رہا ہے کہ قائداعظم کے پاکستان کا اکثریتی حصہ توڑ نا بڑا سانحہ نہیں؟ میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ آر اے بازار راولپنڈی کے ایک مقدمے میں ایسی ہی ایک جے آئی ٹی نے 15تحقیقاتی رپورٹس اے ٹی سی راولپنڈی کی عدالت میں داخل کیں۔ چند اندھیرے فروش منشی کہتے نہیں تھکتے کہ ان واقعات سے پاکستان کی سلامتی خطرے میں پڑ گئی۔ ارے اس کا جواب کیوں نہیں دیتے کہ پاکستان کی سلامتی خطرے میں پڑنے کے بعد پاکستان ٹوٹنے کا واقعہ اور اُس کے ملزموں کے چہروں پر گہرا نقاب کیوں ڈالاہوا ہے۔
؎ پاکستان ٹوٹ گیا‘ ملزم خاک میں مل گئے‘ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ سے پھر کس طرح سے‘ کیوں کر اور کیسا خطرہ؟ یہ پاکستان کی تاریخ کا پاکستان پر ایسا حملہ تھا جس نے دو قومی نظریے والے پاکستان کے دو ٹکڑے کر ڈالے۔ اس کی مثال ایشیا کی تاریخ میں نہیں ملتی نہ ہی کوئی ایسی مثال ڈھونڈی جا سکتی ہے کہ آدھا ملک ٹوٹنے پر ہونے والی تحقیقات کو ہی دبا دیا جائے۔ اس لیے جو منشی ان دنوں شہباز شریف کو فاتحِ بنگال بنا کر اِندرا گاندھی کے قتل کو بنگال کا انتقام لکھ رہے ہیں اُنہیں یاد دلانا ضروری ہے کہ اِندرا گاندھی سے بدلا لینے والے وہ ہیں جنہوں نے جلیانوالا باغ کے قتلِ عام کا بدلا جنرل ڈائر سے انگلستان جا کر لیا تھا۔ یہ تاریخ بھی کبھی تبدیل نہیں ہو سکتی کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے پہلے ایک مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر نے شیخ مجیب الرحمن کے خلاف اگرتلہ سازش کیس انہی دستخطوں سے واپس کیا تھا جس ہاتھ سے دستخط کر کے اگرتلہ کیس مجیب الرحمن کے خلاف قائم گیا تھا‘ جس کے لیے خصوصی فوجی عدالت بھی 1966ء میں بنائی گئی تھی۔ پھر اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ مغربی پاکستان نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش نامی ملک کی حیثیت سے باقاعدہ طور پر تسلیم کیا۔ جب شیخ مجیب الرحمن بنگلہ دیش کے پرچم والے طیارے میں پاکستان کی سرزمین پر اُترے تو بنگلا بوندو کو ہم نے سٹیٹ گیسٹ بنایا اور گارڈ آف آنر پیش کیا۔ اگر اپنوں کے ہاتھوں مارے جانا غداری ہے تو پھر یہ غداری ہندوستان میں گاندھی کے قتل سے شروع ہو گی۔ پاکستان میں لیاقت علی خان‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ ڈاکٹر خان صاحب‘ شہید بے نظیر بھٹو‘ اکبر بگٹی اور ضیا الحق کے نام پر آکر رُکے گی۔ کچھ اندھیرے فروش پھیکا آلو رنگ کرکے اُسے مالٹا بنا کر فروخت کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اس قبیل کے خود فروش ڈیلروں ویلروں کی شناخت کرنے کے لیے ڈونلڈ لُو والے امریکی سائفر کی طرف جانا ہوگا۔ قوم کو اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب سائفر آیا اور عمران خان نے ایک بڑے عوامی جلسے میں قوم کو سائفر آنے کا بتایا تب میں وفاقی کابینہ اور اُس کی بریفنگز کا حصہ تھا۔ آپ سب اُن دنوں بھی ٹی وی دیکھتے اور اخبار پڑھتے تھے‘ اس لیے ہم سب کو اچھی طرح سے یاد ہے کہ شہباز شریف نے سائفر پر گفتگوکرنے کو غداری قرار دیا تھا۔ نواز شریف نے کہا: امریکہ سے کوئی سائفر نہیں آیا‘ یہ سب جھوٹ ہے جبکہ مریم نواز نے کہا پاکستان کو سفارتی سطح پہ عمران خان نے برباد کر دیا۔ اب دنیا کا کوئی ملک پاکستان سائفر نہیں بھیجے گا۔ ان دنوں جوبائیڈن کو اپنا سیاسی والی وارث سمجھنے والے ڈونلڈ لُو کو پیرِ کامل کا درجہ دیتے تھے۔
عینک مت اُتاریے گا۔ آج وہی ٹولی ہے جو Richard Grenellکی ہم جنس پرستی کی پوسٹ لگاتی ہے۔ اب چلیے امریکی صدر کے نمائندہ خصوصی کے ٹویٹر اکاؤنٹ کی طرف جس پر مسٹر رِچرڈ تین مزید ٹویٹس خود کر چکے۔ پچھلے کالم میں پہلی ٹویٹ کی بات ہو چکی۔ اس کے دوسرے دن رِچرڈ گرینیل نے معروف امریکی صحافی Ryan Grimکی پوسٹ کو ری پوسٹ کرتے ہوئے پوسٹ لگانے والے پاکستانی چینل کو مخاطب کر تے ہوئے I'll say it again اور Free Imran کا نعرہ دوبارہ مشتہر کیا۔ مسٹر رِچرڈ کے ساتھ ساتھ امریکہ سٹیٹ Representativeاور کانگریس مینوں نے بھی Free Imranکی پوسٹیں لگانا شروع کر دیں۔ اسی تسلسل میں حیران کن واقعہ یہ ہوا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے چنے گئے اٹارنی جنرل نے بھی اسی طرح کی پوسٹ کر ڈالی۔ Ryan Grimکی پوسٹ دنیا بھر میں وائرل ہوئی جس میں مسٹر ریان نے لکھا کہ پاکستانی مقتدرہ یو ایس صدر ٹرمپ کے نامزد کردہ رِچرڈ گرینیل سے ناخوش ہے۔ چونکہ رِچرڈ گرینیل پاکستان میں سیاسی کارکنوں اور عمران خان کو مسلسل قید رکھنے کے سخت مخالف ہیں اسی لیے پاکستان کے کچھ حلقے رِچرڈ کی ذاتی مخالفت پر اُتر آئے۔ ریان نے اس مخالفت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے طنز کا پُر مغز تیر چلایا جس کے الفاظ یہ ہیں "They have poor intel if they think this will work on him"
رِچرڈ گرینیل کی تیسری ٹویٹ کی طرف جانے سے پہلے قیدی نمبر 804کے فالورز کی طرف سے PTIسوشل میڈیا ٹیم کو تحسین‘ جنہوں نے انفارمیشن پر شدید بلیک آؤٹ کے دور میں دنیا کے سارے براعظموں تک ضمیر کے قیدیوں کے انسانی حقوق کو زور دار طریقے سے ہائی لائٹ کر دکھایا۔ اگلے 24گھنٹے میں دو فیصلے سامنے آئیں گے۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved