پاکستان پر آئی ایم ایف کا دباؤ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے کیونکہ ایف بی آر ٹیکس اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ جولائی سے نومبر تک تقریباً 491ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا جانا تھا مگر صرف 143ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا جا سکا۔ یہ تقریباً 348 ارب روپے کا فرق بنتا ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ فرق ہر ماہ بڑھتا رہے گا۔ ان حالات میں اگر منی بجٹ بھی پیش کر دیا جائے تو ٹیکس اہداف کا حصول مشکل دکھائی دیتا ہے۔ بجٹ میں 1.4ٹریلین کے ٹیکس لگائے گئے تھے‘ لیکن ٹیکس لگانے اور انہیں وصول کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ میں نے بجٹ پیش ہونے کے بعد اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ایف بی آر کیلئے یہ ٹیکس اہداف حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اُس وقت کے چیئرمین ایف بی آر نے بھی ان اہداف کے بروقت حصول سے معذرت کر لی تھی کیونکہ اتنا ٹیکس اکٹھا کرنے کیلئے جدید ڈیجیٹل ٹیکس نظام کے نفاذ کی ضرورت ہے جس میں کیش کا استعمال انتہائی کم ہو اور زیادہ ٹرانزیکشنز ڈیجیٹل موڈ میں ہوں۔ سابق چیئرمین ایف بی آر نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس میں یہ حقائق بیان کیے تھے جس پر وزیراعظم اُن سے ناراض ہو گئے۔ ناراض ہونے سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ سسٹم کو جلد از جلد تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔ ٹیکس اہداف حاصل کرنے کیلئے قومی اسمبلی میں نان فائلرز کے حوالے سے ٹیکس لاء ترمیمی بل پیش کیا گیا ہے جس کے مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں بشرطیکہ اسے اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کیا جائے۔ ٹیکس قوانین ترمیمی بل 2024ء کے مطابق نان فائلرز پر جائیداد کی خریداری اور بینک اکاؤنٹ کھولنے پر پابندی ہو گی جبکہ سکیورٹیز یا میوچل فنڈز میں سرمایہ کاری بھی نہیں کر سکیں گے۔ کاروبار کی رجسٹریشن نہ کرانے والے بینک اکاؤنٹ نہیں کھول سکیں گے اور عدم رجسٹریشن پر غیرمنقولہ جائیداد کی منتقلی پر پابندی ہو گی۔ نان فائلرز گاڑی نہیں خرید سکیں گے البتہ رکشہ‘ موٹرسائیکل‘ ٹریکٹر اور 800سی سی پک اَپ خریدی جا سکے گی۔ کاروبار رجسٹرڈ کرانے پر دو دن میں پابندیاں ختم ہو جائیں گی۔ بینک اور پراپرٹی رجسٹریشن اتھارٹی ایف بی آر کے ساتھ معلومات شیئر کرنے کے یابند ہوں گے۔ نان فائلرکی کیٹیگری ختم نہیں کی گئی بلکہ Eligible Personکے نام سے نئی کیٹیگری شامل کی گئی ہے۔ اس کیٹیگری میں شامل افراد کے 25سال سے کم عمر نان فائلر بچوں‘ خصوصی بچوں اور بیوی پر پابندیاں لاگو نہیں ہوں گی۔ ٹیکس اہداف حاصل کرنے کیلئے وزیراعظم شوگر ملز مالکان کے خلاف بھی سخت ایکشن لینے کے خواہاں ہیں اور پُرامید ہیں کہ شوگر ملز پر Video analytics کے نفاذ سے ٹیکس چوری روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔ مزید اداروں پر بھی اس نظام کو لاگو کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے لیکن ہمارے ملکی نظام میں چور راستے چھوڑنے کی روایت پرانی ہے اور ہر مسئلے کو حل کرنے کا قانون موجود ہے‘ لیکن عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے مطلوبہ نتائج سامنے نہیں آتے۔ شوگر ملز مالکان میں وزیراعظم کی اپنی فیملی اور اتحادی پارٹیوں کے لوگ اور وزرا بھی شامل ہیں۔ اس لیے شوگر مافیا کے خلاف ایکشن کے مثبت نتائج سامنے آنے کے حوالے سے زیادہ امیدیں نہیں لگائی جا سکتیں۔ ملک میں چھوٹے مافیاز قابو میں نہیں آ رہے تو بڑے مافیاز کے خلاف ایکشن تو ایک خواب ہی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ نیشنل بینک کے ملازمین نے بینک سے جو قرض لیے ہیں‘ وہ واپس نہیں کر رہے اور ان سے ریکوری کیلئے مہنگے وکیل ہائرکیے گئے ہیں لیکن نیشنل بینک اس حوالے سے معلومات فراہم نہیں کر رہا۔ اب کیس ایف آئی اے کے سپرد کر دیا گیا ہے جس کے بے نتیجہ ختم ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ پاور سیکٹر کیلئے مزید 50ارب روپے کی سبسڈی جاری کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے جبکہ پاور سیکٹر کے گردشی قرضوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کے اہداف حاصل نہیں کیے جا سکے۔ پہلے ہی 159ارب روپے کی سبسڈی دی جا چکی ہے‘ نئی سبسڈی سے کسے فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔
ادھرسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں مزید دو فیصد کمی کر دی ہے‘ یوں شرح سود 15فیصد سے کم ہو کر 13فیصد تک آ گئی ہے۔ سات ماہ میں مسلسل پانچویں مرتبہ شرح سود میں کمی کی گئی ہے اور مستقبل میں مزید کمی کی توقع کی جا رہی ہے۔ شرح سود کم ہونے سے حکومت پر قرضوں اور سود کی ادائیگی کا بوجھ تو فوری کم ہو جائے گا۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 1300 ارب روپے کی بچت ہو سکتی ہے۔ رواں مالی سال کے لیے سود کا تخمینہ 9800ارب روپے تھا جو تقریباً 18فیصد شرح سود کے حساب سے لگایا گیا تھا‘ لیکن شرح سود میں تاریخی کمی کے بعد سود کا خرچ 8500ارب روپے تک ہو سکتا ہے۔ حکومت اسے بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا شرح سود کم ہونے سے عام آدمی کی معاشی حالت بھی بدلے گی؟ شرح سود کم ہونے سے براہِ راست اور فوری فائدہ کاروباری طبقے ہی کو پہنچتا ہے۔ شرح سود زیادہ ہونے سے بینکوں سے منافع کمانے والے تو متاثر ہوتے ہیں لیکن کاروباری ایکٹیوٹی کم ہو جانے سے جو بے روزگاری بڑھتی ہے اس کے معیشت پر زیادہ منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بے روزگار افراد کی تعداد بینکوں میں پیسہ رکھ کر منافع کمانے والوں سے زیادہ ہے۔ شرح سود کم ہونے سے جب کاروباری ایکٹیویٹی بڑھتی ہے تو ملازمتیں بھی پیدا ہوتی ہیں جس سے عام آدمی کی حالت بہتر ہوتی ہے‘ لیکن اس کے نتائج سامنے آنے میں وقت لگتا ہے۔ سٹیٹ بینک کے کنزیومر کانفیڈنس انڈیکس کے مطابق عوام یہ سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں مہنگائی بڑھے گی اور شرح سود میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اپریل کے بعد مہنگائی میں اضافہ ہو سکتا ہے اور یہ تقریباً نو فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ اس کی وجہ پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی میں متوقع اضافہ ہے۔ پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس لگنے کی بھی بازگشت ہے۔ اپریل 2024ء میں مہنگائی تقریباً 38فیصد تھی‘ اپریل 2025ء میں اس کا بیس افیکٹ بھی آ سکتا ہے۔ بجٹ 2025ء بھی مہنگائی میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ مہنگائی کم ہونے کی وجہ ڈیمانڈ اور سپلائی میں فرق بھی ہے۔ پچھلے سالوں سے عوام کی قوتِ خرید کم ہو گئی ہے۔ شرح سود کم ہونے سے معاشی ایکٹیوٹی بڑھنے کی صورت میں ڈیمانڈ میں اضافہ ہو سکتا ہے اور مہنگائی بڑھ سکتی ہے۔ شرح سود 12فیصد سے نیچے آنا مشکل ہے اور شرح سود کے سنگل ڈیجٹ میں آنے کے امکانات کم دکھائی دیتے ہیں۔ شرح سود کم ہونے سے عام آدمی کاروبار کرنے پر زیادہ توجہ دیتا ہے اور کاروبار کیلئے قرض بھی کم شرح سود پر مل جاتا ہے لیکن موجودہ حالات میں کم شرح سود پر قرض حاصل کرنے کے بعد بھی بڑا مسئلہ بجلی اور گیس کی قیمتیں ہیں جو سارا منافع کھا جاتی ہیں۔ ممکن ہے کہ عام آدمی کیلئے گاڑی اور گھر خریدنے کیلئے سستے قرض مل جائیں لیکن اس سے معیشت کا پہیہ نہیں چلے گا۔ معاشی جمود کو توڑنے کیلئے برآمدات بڑھانا ضروری ہے اور اس کیلئے شرح سود کم کرنے کے ساتھ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی مستقل کمی لانا ہو گی۔ عام آدمی کو غربت سے نکالنے کیلئے شرح نمو چھ سے سات فیصد ہونی چاہیے اور اسے تقریباً دس سال تک برقرار رکھنا ہو گا۔ بصورت دیگر صرف موسمی سرمایہ کار ہی کم شرح سود سے مستفید ہوں گے۔ فی الحال شرح نمو زیادہ سے زیادہ تین فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔ پاکستان میں شرح سود ہمسایہ ممالک کی نسبت اب بھی زیادہ ہے۔ بھارت میں شرح سود تقریباً ساڑھے چھ فیصد‘ ویتنام میں ساڑھے چار فیصد اور بنگلہ دیش میں دس فیصد ہے۔ پاکستانی حکومت کو بھی شرح سود ہمسایہ ممالک کے برابر لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved