تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     23-12-2024

کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے

ایک بات کا افسوس تو زندگی بھر کبھی نہ ہوا۔ وہ یہ کہ میں کیوں لکھنے پڑھنے سے وابستہ ہوا؟ حرف و لفظ سے متصل رہنا‘ کتاب سے جڑا رہنا تو ایسی خوشی ہے جس کا کوئی بدل ہی نہیں۔ سو زندگیاں بھی ملیں تو میں اسی شغل کو ترجیح دوں گا۔ لیکن اس کے علاوہ تعلیم‘ شعبے اور دیگر سرگرمیوں کے بارے میں کئی بار حسرت دل سے پھوٹتی ہے کہ کاش میں فلاں شعبے سے منسلک ہوتا تو کیسی مزے کی گزرتی۔ جوانی میں فزکس سے وابستہ ہوا تو اس نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ اس دلچسپی میں اساتذہ کی توجہ کا بھی دخل تھا۔ بی ایس سی میں اگرچہ میرے نصاب میں شامل نہیں تھیں لیکن میں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر زمان و مکان سے متعلق آئن سٹائن کی جدید ترین اور انقلابی Theories of relativityپڑھیں۔ میکس پلانک کی کوانٹم میکانکس‘ ہائزن برگ کا غیریقینی فارمولا (Uncertainty principle) اپنی طرف کھینچتے تھے۔ مصمم ارادہ تھا کہ میں ماڈرن فزکس میں ایم ایس سی اور ڈاکٹریٹ کروں گا لیکن گریجویشن تک پہنچتے پہنچتے واضح ہونے لگا کہ اس کے بعد یا تدریس ہو سکے گی یا اٹامک انرجی کمیشن وغیرہ کی ملازمت۔ ان دونوں ملازمتوں کیلئے میں خود کو موزوں نہیں پاتا تھا اس لیے شوق کے باوجود راستہ بدلنا پڑا کہ آزادی زیادہ عزیز تھی۔ لیکن کاروباری انتظام کی تعلیم اختیار کر لینے کے بعد بھی ماڈرن فزکس کے طلبہ کو حسرت سے دیکھتا رہا کہ
او بہ صحرا رفت و ما در کوچہ ہا رسوا شدیم
(وہ صحرا کو چلا گیا اور میں گلی کوچوں میں رسوا ہوتا پھر رہا ہوں)
یہی حال انگریزی ادب کی تعلیم کا تھا۔ میں نے ایک سال ایم اے انگریزی کی پرائیویٹ تعلیم حاصل کی لیکن یونیورسٹی کی باقاعدہ اور کُل وقتی تعلیم نے یہ خواب پورا ہونے نہیں دیا۔ ایک دور میں سی ایس ایس کرکے فارن سروس میں جانے کا خواب بھی زندہ تھا لیکن یہ بھی بہرحال ملازمت ہی تھی‘ تو میاں! اگر ملازمت ہی کرنی تھی تو جدید فزکس کی تدریس کیا برُی تھی؟ اس لیے یہ خواب بھی زندہ ہی دفن کر دیا۔ لیکن جس حسرت نے زندگی بھر پیچھا نہیں چھوڑا بلکہ بڑھتی عمر کے ساتھ بڑھتی چلی گئی وہ تاریخ اور آثارِ قدیمہ سے وابستگی تھی۔ کاش میں اس شعبے سے وابستہ ہوتا۔ یہ حسرت چومکھی ہے۔ صرف دُور سے پڑھنے کی حد تک نہیں بلکہ اُلجھی گتھیاں سلجھانے اور ان کی تحقیق میں عمر گزار دینے کی حسرت۔ میں ایک پرانی روح‘ قدیم شہروں‘ سینکڑوں سال پرانی مسجدوں اور عبادت گاہوں‘ کھنڈرات‘ محلوں‘ قلعوں اور تاریخی عمارات میں سانس لیتا ہوں تو جیسے زندہ ہونے لگتا ہوں۔ ان آثار میں کسی کیلئے کشش کتنی ہے اور کتنی نہیں‘ یہ وہ جانے۔ مجھ سے تو یہ فصیلیں‘ پُل‘ جھروکے‘ دروازے اور کمرے کلام کرتے ہیں۔ قدیم کوچے اور گلیاں اپنی باہیں وا کرکے مجھے خوش آمدید کہتے ہیں اور ان کے مکین قدیم پوشاکوں میں دریچوں اور جھروکوں سے مسکرا کر بلاتے ہیں۔ میں چشمِ تصور میں کسی ناقہ سے تھکا ہوا اترتا ہوں۔ اور بلند دروازے والی سرائے میں داخل ہوتا ہوں۔ یہ سرائے ہی نہیں‘ خواب سرائے ہے جس میں کھلے احاطے کے بیچ کنویں سے ٹھنڈا میٹھا پانی کھینچا جا رہا ہے۔ تازہ گندم کی پسائی کی سوندھ اُٹھ رہی ہے۔ بھنتے گوشت اور پکتے کھانے کی اشتہا انگیز خوشبو پاگل کیے دیتی ہے اور بھیڑیں ممیاتی ہیں۔ چاروں طرف قیام کے کمرے ہیں اور ایک طرف جانوروں اور سواریوں کے دانے پانی کا انتظام۔ یہاں سے چند روزہ قیام کے بعد مجھے دور دراز زمینوں کی طرف جانا ہے اور ان کے بیچ ملکوں کی سرحدیں نہیں ہیں۔ یہاں کسی ویزے کسی پاسپورٹ کی احتیاج نہیں۔ ابھی انسان نے ہوا میں اُڑنا نہیں سیکھا اور زمین اور سمندروں کے اسرار اس پر منکشف نہیں ہوئے۔
جانتا ہوں کہ ماضی اور اس کے ادوار دور سے اچھے لگتے ہیں۔ جانتا ہوں کہ آج کی آسائشوں کا عادی جسم‘ اس مشقت کی بھی تاب نہیں لا سکتا جو آج سے محض سو سال پہلے کی زندگی میں تھی۔ سو سال قبل تو انسان جدید تمدن سے آشنا ہو بھی چکا تھا‘ تو سینکڑوں‘ ہزاروں سال پہلے کی زندگی تو صرف خواب میں ہی پیاری لگ سکتی ہے۔ اس عہد کی سفاکیاں اور بے رحمیاں جانتا ہوں کہ ہر خطے میں خون سے لکھی جاتی رہی ہیں۔ جانتا ہوں کہ سر جھکا کر رہنا بھی وہاں زندگی کی ضمانت نہیں تھی۔ جھکے ہوئے سر بھی ضرورت پڑنے پر پکی ہوئی فصل کی طرح کاٹ دیے جاتے تھے۔ سب جانتا ہوں لیکن کیا کروں کہ خوابوں پر کسی کا اختیار نہیں ہوتا۔ انسان خواب نہ دیکھے تو زندہ کیسے رہے؟ سو میں بھی تاریخ اور آثارِ قدیمہ سے منسلک ہونے کے خواب اب تک دیکھتا ہوں۔ میں کیا کرتا اگر اس سے باقاعدہ وابستہ ہوتا۔ ہڑپہ اور موہنجود ڑو کی سندھ تہذیب کے اجڑے شہر کی گلیوں کے اسرار دریافت کرتا۔ اپنے سوالات حل کرتا کہ مکران کی طرف سے آنے والے محمد بن قاسم والا دیبل کون سا تھا۔ کیا وہی علاقہ جو اَب ٹھٹھہ کے اطراف میں دھابیجی کے نام سے معروف ہے؟ میں زیریں مصر میں دریائے نیل کے اس زرخیز ترین علاقے میں جاتا جو مثلث ڈیلٹا کا علاقہ ہے اور جہاں دریا سمندر میں اترنے کی تیاری کرتا ہے۔ میں مشرقی ڈیلٹا کی وادیٔ تمیلات میں تل الدابہ Tell al Dabbah پہنچتا اور اوارس (Avaris) کا دفن شدہ شہر دیکھتا۔ وہ کھنڈر دیکھتا جو صدی در صدی‘ تہ بہ تہ ایک شہر کے اوپر دوسرا شہر اور پھر تیسرا چوتھا شہر تعمیر ہونے کی خبر دیتے ہیں۔ وہ علاقے جو Hyksos kings کی سلطنت تھے اور جن کا بالائی حصہ مصر کے احموسے (Ahmose) نامی فرعون نے ختم کرکے بالائی اور زیریں مصر کو ایک کر دیا تھا۔ یہاں زمین اور تاریخ نے کتنے ہی راز چھپائے ہوئے ہیں۔ میں القصر‘ اسوان اور تھیبس کے محلات اور ایوان دیکھتا اور اس میں ہیرو غلیفی تحریروں کے غیرمنکشف راز معلوم کرتا۔ میں فرعون تتھمس دوم کی ملکہ اور مصر کی بے مثال حکمران خاتون ہت شیپ ست (Hatshepsut) کے کرناک معبد میں یہ راز معلوم کرنے کی کوشش کرتا کہ اتنی بڑی ملکہ کی ممی اپنے مقبرے میں کیوں دفن نہیں کی گئی؟ کیسا مزا ہوتا کہ میں ان رازوں کو افشا کرتا۔ کیسا لطف ہوتا اگر میں کسی شہرِ مدفون کو ڈھونڈ نکالتا۔ ان سوالوں کے جواب ڈھونڈ نکالتا جو آج تک تشنہ ہیں اور جن کے جواب سے اب مایوسی ہونے لگی ہے۔ میں بنی اسرائیل کے عظیم پیغمبروں کی نشانیاں ڈھونڈتا جو معدوم ہیں اور جو الہامی کتب میں وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔
تحریر ختم ہو جائے گی‘ حسرت ختم نہیں ہو گی۔ میں تو صرف دو خطوں کا ذکر کر سکا۔ اتنی بڑی زمین‘ اس میں کم و بیش تین لاکھ سال سے موجود ہومو سیپین یعنی جدید انسان‘ زمین پر گھومتے دیو قامت ڈائنو سار اور ہیبت ناک جسیم جانور‘ لاکھوں سال پہلے موجود قدیم انسان ہومو اریکٹس اور نیندر تھل (Neandarthal)۔ ان سب کے بنائے نقوش‘ تصاویر‘ اوزار‘ لباس‘ گھر اور تعمیرات۔ کھوجنے کیلئے کیا کچھ ہے۔ میرے خدا! ایک کیا سینکڑوں زندگیاں بھی اس کھوج کیلئے کم ہیں۔ ہر کچھ دن بعد نئے اکشافات‘ نئی دریافتوں کا ذکر آثارِ قدیمہ کے جرنلز اور میگزینوں میں پڑھتا ہوں‘ تصویریں دیکھتا ہوں اور چشمِ تصور میں وہاں جا پہنچتا ہوں۔ تازہ تر دریافت وہ نقشِ قدم ہیں جو اب فوصل کی شکل میں کینیا کی ترکانہ جھیل کنارے دریافت ہوئے ہیں اور بتاتے ہیں کہ 15لاکھ سال پہلے قدیم ترین انسانوں کی دو مختلف قسمیں چند گھنٹوں کے فرق کیساتھ‘ یا شاید ایک ہی وقت میں یہاں سے گزری تھیں۔ یہ دونوں طرح کے انسان ایک ہی علاقے میں ایک دوسرے کی موجودگی سے واقف تھے اور وہ جانور بھی یہیں بسیرا کرتے تھے جن میں ساڑھے چھ فٹ اونچا قدیم سارس ماری بو بھی تھا۔ میرے خدا! زمین پر دیکھنے اور کھوجنے کیلئے کیا کچھ ہے۔ لوگ اس کھوج میں زندگیاں بسر کر رہے ہیں اور میں اس عمر میں اپنے قد سے اونچی ایک حسرت لیے بیٹھا ہوں‘ جس کا قد روز بروز بڑھتا جاتا ہے۔ لیکن سعود! ذرا ٹھہرو۔ یہ صرف ایک حسرت ہی نہیں‘ ایک خواب بھی تو ہے۔ بیداری کا خواب۔ ایک لذیذ خواب۔
کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved