تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     24-12-2024

ایک بار پھر وہی قصۂ شہر ناپُرساں… (1)

ملتان کی حالتِ زار پر اس عاجز کے رونے کو خدانخواستہ عادتاً والا رونا نہ سمجھا جائے کہ اس فقیر کو نہ تو رونے کی عادت ہے اور نہ ہی رونا پسند ہے مگر دُکھ بڑھ جائے تو اس پر کہرام مچانے کو دل ضرورکرتا ہے۔ اگر بندہ یہ بھی نہ کرے تو دل تو پھر پھٹ ہی جائے۔ اس مسافر نے دنیا گھومی ہے اور تقریباً ہر جگہ ہی پہلے سے کسی حد تک بہتری ہی دیکھی ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں‘ جب سے یہ مسافر کوچہ گردی میں مصروف ہوا ہے کہیں بھی ایسا نہیں دیکھا کہ دوبارہ گیا ہوں اور حالات پہلے کی نسبت خراب ہوں یا معاملات معکوس سمت میں رواں ہوں۔ ہاں! البتہ پاکستان میں ایسے ہی دیکھ رہا ہوں اور ملتان کا تو پوچھئے ہی مت! میری دور کی یادداشت قابلِ رشک نہ بھی سہی مگر اتنی اچھی ضرور ہے کہ بچپن کی بہت سی باتیں یاد ہیں۔ ان میں ملتان کی یادیں سب سے پختہ ہیں اور بھلا کیوں نہ ہوں ۔ یہ مسافر دنیا بھر میں گھومنے کے بعد اس شہرِ دلدار میں آتا ہے تو یوں محسوس کرتا ہے کہ اپنی ماں کی گود میں آگیا ہے۔ اور اسے ایسا کیوں نہ لگے کہ اس کی ماں اسی شہر کی گود میں آسودہ ٔخاک ہے اور یہ مسافر دن گزرتے ہیں کہ پاک مائی کے قبرستان میں اُس عظیم ہستی کے قدموں میں پڑی خالی جگہ میں ابدی رہائش اختیار کرنے کا منتظر ہے۔
ملتان کی بہت سی چیزوں میں سے جو چیز اس عاجز کے دل و دماغ پر سب سے گہری نقش ہے وہ قلعہ کہنہ قاسم باغ ہے۔ شہر کے وسط میں اونچے ٹیلے پر موجود یہ قلعہ‘ جو اَب صرف نام کا قلعہ ہے اور اس میں دنیا بھر کے روایتی قلعوں جیسی کوئی بات باقی نہیں۔ سوائے اس کے نام کے‘ جو اس مقام کے ماضی سے جڑا ہوا بھولا بسرا فسانہ ہے۔ یہ قلعہ ہمارے لیے سیرو تفریح کی سب سے بڑی دلکشی کی حامل جگہ تھا۔ دو عدد بلندو بالا گنبدوں والے مزار۔ ان میں سے رکن الدین عالم کا مقبرہ اپنی خوبصورتی اور طرزِ تعمیر کے علاوہ جس قسم کی تعمیراتی عظمت اور شان و شوکت کا مالک ہے‘ یہ مسافر اپنی بے پناہ آوارہ گردی کے دوران اس کی مماثل کسی دوسری عمارت کی دید سے تاحال محروم ہے۔ باہر سے کوئی مہمان آتا تھا تو اسے ملتان شریف‘ جسے لوکل لوگ عام طور پر ''پیری پور ملتان‘‘ سے تشبیہ دیتے تھے‘ کی سیر کروانے کیلئے سب سے پہلا پڑاؤ قلعہ کہنہ قاسم باغ پر ڈالا جاتا۔ دمدمے پر چڑھتے تو شہر کا سارا منظر نامہ کسی لامحدود پینوراما کی مانند کھلتا چلا جاتا اور دور گرد کے دھندلکوں میں چھپ جاتا۔ تب ملتان میں آندھیاں بہت آتی تھیں۔ دن گرم اور راتیں ٹھنڈی ہوتی تھیں۔
اور بھلا شہر بھی کتنا بڑا تھا؟ کچہری سے چند سو گز آگے ایک نہر بہتی تھی اور یہ مغرب کی جانب شہر کی آخری حد تھی۔ نہ اب یہ نہر رہی اور نہ ہی شہر کی کوئی حد رہی۔ بے انداز آبادی ہے جو شہر کو بے ہنگم طریقے سے ہر طرف پھیلائے جا رہی ہے۔ کچھ چیزیں برباد ہو کر معدوم ہو چکی ہیں اور باقی معدومی یا بربادی کی طرف رواں ہیں۔ قلعہ کہنہ قاسم باغ‘ جو بلاشبہ ملتان کا تہذیبی اور تاریخی مرکزِ نگاہ رہا ہے‘ ان میں سے ایک ہے۔ اس جگہ سے میری محبت کی بے شمار وجوہات ہیں جن میں سرفہرست تویہ ہے کہ اوائل عمری کی محبت بڑی ظالم ہوتی ہے۔ سب کچھ برباد کر دیتی ہے مگر خود کو بچائے رکھتی ہے۔ اس قلعے سے جڑی ہوئی یادیں دل کے نہاں خانے میں ایسی پیوست ہیں کہ مرتے دم تک ان کا یہاں سے نکلنا تو کجا‘ مدہم پڑنا بھی محال ہے۔
یہ پرانا قلعہ ملتان کی 5500 سالہ تاریخ کا امین بھی ہے اور گواہ بھی ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ یہ قلعہ ہمیں اپنی چشم دید کہانیاں نہیں سناتا۔ ہمیں سورج دیوتا کے مندر کی داستان نہیں سناتا۔ ہمیں پرہلاد مندر والے مقام پر پرہلاد کے باپ راجہ ہیرانیاکاشیپو اور اس کی پھوپھی ہولیکا دیوی (روایت ہے کہ ہندو تہوار ہولی کی ابتدا اسی مقام پر ہولیکا دیوی سے ہوئی تھی) کو وشنو دیوتا کے ہاتھوں مرتے دیکھنے کی دیومالائی داستان بھی روایت نہیں کرتا۔ 3000 سال قبل مسیح اس شہر کو آباد کرنے والے (ایک روایت کے مطابق) حضرت نوح علیہ السلام کے پڑپوتے کا قصہ بیان نہیں کرتا۔ 500 قبل مسیح میں ایران سے آنے والے حملہ آور بادشاہ دارا(دار یوش) سے جنگ کا عینی شاہد ہونے کے باوجود خاموش ہے۔ 326 قبل مسیح میں مقدوینہ سے آنے والے سکندر اعظم کو اپنی فصیل سے پرے لگنے والے جاں لیوا زہریلے تیر کا گواہ ہے لیکن اسے بیان نہیں کرتا۔ اس قدیم قلعے نے برہمن سلسلہ شاہی بھی دیکھا اور مہلب ابن ابی سفاح کے حملے بھی روکے۔ محمد بن قاسم کی فتوحات بھی دیکھیں اور عباسیوں کی امارت تلے بنو منابہہ کا سو سالہ دور بھی دیکھا۔
اس قلعے نے عراق اور مصر سے فرار ہو کر آنے والے اسماعیلیوں کا دور بھی بھگتایا اور قرامطیوں سے بھی نبرد آزما ہوا۔ اس قلعے میں مصر کے فاطمی حکمرانوں کا خطبہ بھی پڑھا جاتا رہا۔ یہ قلعہ محمود غزنوی کے سامنے سرنگوں بھی ہوا اور پھر اس نے محمود غزنوی کے متعین کردہ نو مسلم گورنر نواسا خان کو دوبارہ ہندو مذہب اختیار کر کے بغاوت کرتے بھی دیکھا۔ یہ قلعہ سلطان محمد غوری کی حکمرانی کا بھی امین ہے اور منگولوں کے ناکام محاصرے کا بھی گواہ ہے۔ اس قلعے کی دیواروں نے 1241ء میں منگولوں کی چڑھتی ہوئی آندھی کو اپنی دیواروں تلے دم توڑتے دیکھا۔ مملوک دور کے بعد اس قلعے نے تغلقوں کی حکمرانی دیکھی‘ اس قلعے نے 1320-24ء میں دیپالپور کے گورنر غیاث الدین تغلق کو اپنے سینے پر ایک عالی شان مقبرہ تعمیر کرتے ہوئے اور بعد ازاں اس کے بیٹے محمد تغلق کو یہ مقبرہ اپنے مرشد رکن الدین عالم کو وقف کرتے بھی دیکھا۔
مرہٹوں کے بعد اس قلعے نے سکھوں کا دور اور سکھا شاہی بھی دیکھی۔ مارچ1818ء میں راجہ رنجیت سنگھ کی فوج نے مسر دیوان چند کی قیادت میں ملتان کا محاصرہ کیا جو 2جون 1818ء کو سقوطِ ملتان کی صورت میں ختم ہوا۔ اس قلعے نے گزشتہ ساڑھے پانچ ہزار سال میں اَن گنت حملے‘ بے شمار فتوحات‘ لاتعداد قتلِ عام دیکھے لیکن جون 1818ء کو ہونے والے سکھ قتلِ عام جیسا وحشیانہ اور غیر انسانی قتلِ عام اس قلعے کی یادداشت میں نہیں تھا۔ لیکن ٹھہریں! اس بزرگ قلعے نے اپنے سینے پر اس خطے کے سب سے بہادر اور شجاع بوڑھے کو اس شان و شوکت اور سج دھج کے ساتھ جان دیتے دیکھا کہ چشم فلک نے بھی ایسا منظر کم ہی دیکھا ہوگا۔
2جون 1818ء کو اکسٹھ سالہ حاکمِ ملتان نواب مظفر خان سدوزئی قلعے کے دمدمے پر اپنے بیٹوں کے ہمراہ جنگ لڑتا ہوا گرفتار ہوا۔ اس دوران اس کے سات بیٹے اور ایک بیٹی بھی دادِ شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوئی۔ نواب کے منہ میں پگھلی ہوئی چاندی ڈال کر شہید کیا گیا۔ ملتان کے قلعے کی فصیل توڑنے کی غرض سے لاہور سے برصغیر کی سب سے بڑے دھانے والی دور مار توپ ''زمزمہ‘‘ المعروف بھنگیوں والی توپ لائی گئی۔
1757ء میں چودہ فٹ ساڑھے چار انچ لمبی اور ساڑھے نو انچ دھانے کی ''زمزمہ‘‘ جو اُس وقت برصغیر میں بننے والی سب سے بڑی توپ تھی‘ دھاتی کام کے ماہر توپ ساز شاہ نذیر نے افغان فرمانروا احمد شاہ ابدالی کی ہدایت پر اس کے وزیراعظم شاہ ولی کی زیر نگرانی بنائی۔ یہ ایک نہیںبلکہ دو جڑواں توپیں تھی جن میں سے ایک توپ کابل لے جانے کی کوشش کے دوران دریائے چناب میں ڈوب گئی۔ احمد شاہ ابدالی نے یہ توپ 1761ء میں پہلی بار پانی پت کی تیسری لڑائی میں استعمال کی اور افغانستان واپس جاتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لے جانا چاہا مگر مناسب بندوبست نہ ہونے کے باعث اس نے اسے اپنے ساتھ لے جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور جاتے ہوئے اسے لاہور کے گورنر خواجہ سعید کے حوالے کر گیا۔ یہ وہی خواجہ سعید ہے جس کے نام پر لاہور سے دو میل دور ایک گاؤں کوٹ خواجہ سعید بسایا گیا تھا جو اَب شہر لاہور کا حصہ ہے۔ خواجہ سعید اس نادر و نایاب توپ کی ایک سال بھی حفاظت نہ کر سکا۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved