کیا پاکستان واقعی کسی 'سیاسی عدم استحکام‘ کا شکار ہے یا یہ محض بیانیہ تراشی کے ہنر کی معجزہ کاری ہے جو ''حقیقتِ ثابتہ‘‘ کے طور پر دل ودماغ میں بو دی گئی ہے؟ ''عدم استحکام‘‘ کے مرض کی تشخیص کیلئے ریاست کے تین بنیادی ستونوں انتظامیہ‘ مقننہ اور عدلیہ کی نبض کا جائزہ لینا ہو گا۔ دیکھنا ہوگا کہ کیا ان میں سے کوئی ایک ستون بھی متزلزل ہے؟ کیا یہ خطرہ منڈلا رہا ہے کہ کسی آن‘ ان میں سے کوئی ستون دھڑام سے گر جائے گا اور ریاست کا آئینی نظم اس ملبے تلے دب جائے گا؟ ایسا کچھ نہیں۔ صورتِ حال یہ ہے کہ صوبوں اور وفاق کی سطح پر سارے معاملات‘ معمولات کے مطابق چل رہے ہیں۔ صوبوں میں پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے انتظامی وجود کو کسی بھونچال کا کوئی خطرہ نہیں۔ یہی کیفیت وفاقی حکومت کی ہے‘ جس کا انتظامی تحکم پوری طرح استوار ہے۔ وزیراعظم اور اُن کی کابینہ‘ اپنی ترجیحات کے مطابق فرائضِ منصبی ادا کر رہے ہیں۔
2024ء کے انتخابات سے جنم لینے والی مقننہ (پارلیمنٹ) پر اُسی طرح کی انگلیاں اُٹھ رہی ہیں جس طرح 2018ء کے انتخابات پر اُٹھی تھیں۔ آج اسے فارم 45 اور 47 کی کرتب کاری کا نام دیا جا رہا ہے‘ 2018ء میں اسے آر ٹی ایس کی حرکتِ قلب بند ہو جانے سے تعبیر کیا گیا تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اُس وقت کی زخم خوردہ اپوزیشن دھرنوں‘ لانگ مارچوں‘ 9 مئی جیسی یلغار‘ الجہاد الجہاد اور مارو یا مرجائو کے نعروں‘ پٹرول بموں‘ برازیلی آنسو گیس کے شیلز اور وفاق پر لشکر کشی کے بجائے‘ پارلیمنٹ میں آ بیٹھی تھی اور ضربِ کاری کیلئے کسی موزوں وقت کا انتظار کرنے لگی تھی جو اُسے پونے چار برس بعد مل گیا۔ سنگِ الزام اور تیرِ دشنام اپنی جگہ اور 'آفتاب آمد دلیلِ آفتاب‘ جیسی روشن حقیقت اپنی جگہ کہ چاروں صوبائی اسمبلیاں اور وفاقی مجلسِ شوریٰ (پارلیمنٹ) بے خوف وخطر اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ انتخابات پر اُنگلیاں اٹھانے والی جماعتیں‘ بشمول پی ٹی آئی‘ صوبائی اور وفاقی ایوانوں کا حصہ ہیں اور اپنا متحرک کردار ادا کر رہی ہیں۔ 'سیاسی عدم استحکام‘ یا انتشار اُس وقت جنم لیتا ہے جب ہارنے والے‘ اسمبلیوں میں جانے اور حلف اٹھانے سے انکار کر دیں۔ 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد نے یہی کیا تھا جس کے باعث بحرانوں کے دہانے کھل گئے اور معاملات سنبھالے نہ سنبھلے۔ آج کا منظرنامہ بہت مختلف ہے۔
رہی عدلیہ‘ تو وہ عدم استحکام‘ داخلی ہیجان‘ گروہ بندی‘ باہمی کشمکش اور آئین وقانون سے متصادم‘ سیاست زدہ فیصلوں کے عہدِ بے ننگ ونام کو پیچھے چھوڑ آئی ہے۔ چھبیسویں آئینی ترمیم نے عدالتی مہم جویانہ سوچ کے پر کاٹ دیے۔ اس ترمیم سے اٹھنے والا طوفان‘ اب محض ایک معزز جج صاحب کے جگر میں پیوست‘ تیرِ نیم کش کی خلش بن کے رہ گیا ہے۔
سو تینوں ریاستی ستون‘ مبیّنہ ''سیاسی عدم استحکام‘‘ کے اثراتِ بد سے پاک ہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ میں عدم استحکام کا لاوا دو طاقتور آتش فشانی دہانوں سے پھوٹتا رہا ہے۔ ایک اسٹیبلشمنٹ اور دوسرا ایوانِ صدر۔ آج حکومت‘ ایوانِ صدر اور روایتی اسٹیبلشمنٹ کی تکون کے تینوں زاویے بڑے قومی اہداف کیلئے یکسوئی اور مضبوطی سے ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کا نوماہی عہد‘ خارجہ حکمت عملی اور عمومی صورتِ حال بارے ادنیٰ سے عدم استحکام کا اشارہ تک نہیں دیتا۔ نو ماہ میں مختلف ممالک کے بتیس اعلیٰ سطحی وفود نے پاکستان کے دورے کیے۔ اکتوبر میں شنگھائی تعاون تنظیم کے 23ویں اجلاس کا انعقاد پاکستان کیلئے بڑا اعزاز تھا۔ اس میں دو عالمی طاقتوں روس اور عوامی جمہوریہ چین سمیت قازقستان‘ بیلاروس‘ کرغزستان‘ تاجکستان اور منگولیا کے وزرائے اعظم نے شرکت کی۔ ایران کے نائب صدر تشریف لائے۔ چینی وزیراعظم کا یہ دورہ‘ گیارہ برس بعد ہوا۔ آٹھ سال بعد بھارتی وزیر خارجہ پاکستان آئے۔ برادر مسلم ملک سعودی عرب کے چھ اعلیٰ سطحی کثیر المقاصد وفود پاکستان آ چکے ہیں۔ اپریل میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی (مرحوم) نے پاکستان کا دورہ کیا۔ جولائی میں آذربائیجان کے صدر پاکستان آئے۔ جرمنی کے وفاقی وزیر برائے اقتصادی تعاون نے دورہ کیا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کے صدر ستمبر میں پاکستان آئے۔ ستمبر ہی میں روس کے نائب وزیراعظم اور اکتوبر میں ملائیشیا کے وزیراعظم نے پاکستان کا دورہ کیا۔ اکتوبرمیں معروف مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک ایک ماہ کے دورے پر آئے۔ نومبر میں ایرانی وزیر خارجہ پاکستان آئے۔ نومبر ہی میں متحدہ عرب امارات کے سرمایہ کاروں کا ایک بڑا وفد آیا۔ 25نومبر کو بیلاروس کے صدر ایک بڑے وفد کے ہمراہ تشریف لائے۔ اس دوران میں وزیراعظم شہبازشریف اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے متعدد ممالک کے دورے کیے اور پوری توانائی کے ساتھ عالمی فورمز پر اپنا مؤقف پیش کیا۔ ''عدم استحکام‘‘ کے شکار کسی ملک میں کیا ایسی گہما گہمی ممکن ہے؟
نو ماہ میں حکومت کی معاشی کارکردگی‘ بہت عمدہ نہ سہی لیکن ہر پہلو سے تسلی بخش ضرور رہی ہے۔ کم وبیش تمام اشاریے مثبت ہیں۔ میرے سامنے ایک بڑے‘ مستند انگریزی اخبار (18 دسمبر 2024ء) کا تجارتی کاروباری صفحہ کھلا ہے جس میں اوپر تلے متعدد خبریں پاکستان کی معاشی صورتِ حال میں نمایاں بہتری کا پتا دے رہی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ 24 برس بعد پاکستان کے اخراجاتِ جاریہ (Current Account) میں خسارہ نہ صرف ختم ہو گیا ہے بلکہ محصولات میں اضافے کے باعث مالی توازن فاضل ہو گیا ہے۔ بیرونِ ملک سے پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ اس مالی سال کے اختتام تک یہ رقم 35 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ زرِمبادلہ اگلے برس 13 ارب ڈالر ہو جائیں گے۔ برآمدات میں اضافے کا رجحان نہایت قوی ہے۔ کپڑے کی مصنوعات کی برآمد میں‘ جولائی تا نومبر 10.51 فیصد اضافہ ہوا جو 7.61 ارب ڈالر رہیں۔ آئی ٹی برآمدات میں اکتوبر 2023ء سے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ پانچ ماہ میں یہ اضافہ 33 فیصد تک پہنچ گیا۔
افراطِ زر (مہنگائی) کی شرح‘ جو 33 فیصد تک جا پہنچی تھی‘ اب 5 فیصد تک آ گئی ہے۔ پی ٹی آئی دور میں لگ بھگ 30 ہزار تک گرجانے والی سٹاک ایکسچینج اب ایک لاکھ بیس ہزار کو چھو رہی ہے۔ شرح سود 22 فیصد سے کم ہوکر 13 فیصد تک آ چکی ہے۔ براہ راست سرمایہ کاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ روپیہ مستحکم ہے۔ مشکل صورتِ حال اور منفی کوششوں کے باوجود آئی ایم ایف سے ایک بڑا پروگرام طے پا گیا ہے۔ دیوالیہ پن کا خطرہ ٹل چکا۔ 'سی پیک‘ پھر سے انگڑائی لے رہا ہے۔ شرح نمو میں بہتری آ رہی ہے اور مجموعی طور پر نوماہ کی کارکردگی نے پونے چار برس کی بے ثمری کے اثرات کو قابلِ قدر حد تک زائل کر دیا ہے۔
سو برسرِ زمین کسی نام نہاد 'عدم استحکام‘ کے منحوس سایے کا شائبہ تک بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ ریاستی نظم‘ تمام آئینی ادارے اور معمولاتِ حیات مربوط انداز میں چل رہے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ بیانیہ تراشی اور ذہن سازی کے ہنر میں طاق قبیلے نے تخیلاتی 'سیاسی عدم استحکام‘ کو سکّہ رائج الوقت بنا دیا ہے۔ اس 'عدم استحکام‘ کی روحِ تخلیق صرف یہ ہے کہ ایک جماعت خارج از اقتدار ہے‘ مشکل میں ہے اور اس صورتِ حال سے نکلنے کیلئے آتشِ زیرپا ہے۔ اسے وہ ''سیاسی عدمِ استحکام‘‘ کا نام دیتی ہے۔ اس کے نزدیک 'سیاسی استحکام‘ کا نسخہ کیمیا یہ ہے کہ اس کے مطالبات مان کر اس کی مشکلات کا ازالہ کر دیا جائے۔ 2013ء سے 2018ء تک بھی ایسے ''سیاسی عدم استحکام‘‘ دیواروں سے سر پھوڑتے رہے اور پاکستان پوری آب وتاب سے آگے بڑھتا رہا۔ اب کے بھی‘ کم ازکم کم گزشتہ نو ماہ کی تاریخ یہی بتاتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved