''ہم قوم نہیں‘ ایک ہجوم ہیں‘‘۔ ''ستتر برس میں ہم قوم نہیں بن سکے‘‘۔ ''ہم نے آگے بڑھنا ہے تو ہمیں ایک قوم بننا ہو گا‘‘۔
اس طرح کے جملے ہم اکثر اپنے راہنماؤں اور ناصحین کی زبان سے سنتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی ان جملوں کی معنویت پر غور کیا ہے؟ میرا احساس ہے کہ کہنے والے بھی ان پر کم ہی غور کرتے ہیں۔ ہم کچھ باتیں بغیر سوچے سمجھے دہرا دیتے ہیں۔ ایک بات کسی خاص پس منظر میں کہی جاتی ہے۔ پس منظر بدل جاتا ہے مگر ہمارا اظہاریہ تبدیل نہیں ہوتا۔ ان جملوں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ قوم سازی کوئی مصنوعی عمل ہے یا اس کا تعلق محنت سے ہے۔ اگر ہم کوشش اور محنت کریں تو 'قوم ‘ بن سکتے ہیں۔ کیا یہ مقدمہ درست ہے؟
اگر ہم اپنی تاریخ ہی پر غور کرتے تو ہمیں یہ بات سمجھ میں آ جاتی کہ قوم محنت سے نہیں بنتی۔ یہ انسانی کاوش سے ماورا ایک فطری عمل ہے۔ تحریکِ پاکستان کے دوران میں‘ قوم کی دو تعریفیں متداول تھیں۔ ایک یہ کہ قوم سازی کا تعلق جغرافیے کے ساتھ ہے۔ قوم وطن سے بنتی ہے۔ اسے متحدہ قومیت کہتے ہیں۔ کانگرس اور جمعیت علمائے ہند اسی کی علمبردار تھیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ قومیں مذہب اور نظریے سے بنتی ہیں۔ اس تعریف میں مسلمان ایک قوم ہیں۔ علامہ اقبال اس کے قائل تھے۔ ان کا یہ مصرع تو ہم سب کو ازبر ہے کہ ‘خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی‘۔ اسی دور میں قوم کی جو دیگر تعریفات مستعمل تھیں‘ ان کے مطابق قوم رنگ ونسل سے بھی بنتی ہے۔ جیسے راجپوت ایک قوم ہیں۔ اعوان ایک قوم ہیں۔ پٹھان اور پنجابی بھی قومیں ہیں۔
سوائے مذہب کے‘ دیگر تمام تعریفات کے مطابق‘ قوم سازی کا تعلق محنت یا کسی فرد کے اپنے انتخاب سے نہیں ہے۔ آپ جہاں پیدا ہوئے‘ وہ علاقہ یا آپ کا وطن دیگر ہم وطنوں کے ساتھ مل کر آپ کو ایک قوم بناتا ہے۔ اسی طرح آپ جس نسل میں پیدا ہوئے‘ وہ بھی آپ کو ایک قوم بناتا ہے۔ ان میں آپ کی محنت یا انتخاب کا دخل نہیں۔ میں اعوان ہوتے ہوئے‘ جتنی محنت بھی کروں‘ راجپوت نہیں بن سکتا۔ اسی طرح میں 'جرمن‘ نہیں بن سکتا۔ مذہب میں البتہ اس کی گنجائش ہوتی ہے۔ مذہب تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے مذہب کو چھوڑ کر مسلمان بن جائے تو وہ 'مسلم قوم‘ میں شامل ہو سکتا ہے۔ یہ نقطہ نظر بھی تمام مسلم علما کا نہیں ہے۔ وہ مذہبی تعلق کے حوالے سے ایک دوسری اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور یہ ہے 'ملت‘۔ قرآن مجید میں بھی یہ اصلاح انہی معنوں میں استعمال ہوئی ہے۔ جمعیت علمائے ہند کا مؤقف یہی تھا کہ مسلمان ایک ملت ہیں۔ جہاں تک سیاسی مفہوم میں قومیت کا تعلق ہے تو ہندوستان میں بسنے والے ہندو‘ مسلم‘ بدھ سب ایک قوم ہیں۔
اس پس نظر میں دیکھیے تو 'قوم‘ کے معاملے میں ہم ہمیشہ فکری پراگندگی میں مبتلا رہے ہیں۔ پہلے ہم نے کہا کہ قوم کی بنیاد جغرافیہ نہیں‘ مذہب ہے۔ جب مذہب کی بنیاد پر ہم نے ایک ملک لے لیا تو ہم نے کہا کہ اب جغرافیے کو قومیت کی اساس مانا جائے۔ جو پاکستانی ہیں‘ وہ ایک قوم ہیں‘ چاہے‘ ان کا مذہب کچھ بھی ہو۔ تاریخ نے لیکن ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا۔ لوگ ریاست کو یاد دلاتے رہے کہ جب پاکستان مذہب کے نام پر لیا تھا تو جو اس مذہب کو نہیں مانتا‘ وہ برابر کا شہری کیسے ہو سکتا ہے؟ پھر ہم نے قومی ریاست اور اسلامی ریاست کے تصورات کو باہم جمع کرنے کی کوشش کی۔ یہ کوشش ہنوز جاری ہے۔
یہ اسی کوشش کا تسلسل ہے کہ ہم یہاں بسنے والوں کو ایک قوم بنانا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ پختون‘ پنجابی‘ سندھی‘ بلوچ‘ کشمیری اور بلتی‘ سب مل کر ایک قوم بن جائیں۔ مسلمان‘ ہندو‘ مسیحی بھی ایک قوم بن جائیں۔ جب یہ نہیں ہو پاتا تو پھر کفِ افسوس ملتے اور اس طرح کے جملے دہراتے ہیں کہ 'ہم اتنے برسوں میں قوم نہیں بن سکے‘۔ واقعہ یہ ہے کہ ہم اجتماعیت کی فطری اساسات کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ ہم اس وقت ریاست کو ایک نظریاتی تشخص دے کر‘ اس کے مکینوں کو ایک قوم بنانا چاہتے ہیں۔ یہ کام دنیا میں کہیں نہیں ہوا۔ ہمیں جو کرنا تھا‘ وہ کچھ اور ہے اور اس جانب ہماری توجہ نہیں۔
جو کام محنت اور توجہ سے ہو سکتا ہے وہ اعلیٰ اخلاقی قدروں کی بنیاد پر سماجی تشکیل ہے۔ ہم محنت سے قوم نہیں بنا سکتے مگر ہم ایک اچھا اور پُرامن معاشرہ ضرور بنا سکتے ہیں۔ ہم مختلف شناختوں کے ساتھ بھی مل کر ہمدردی‘ محبت‘ ایثار اور باہمی احترام کی قدروں کو مضبوط کر سکتے ہیں۔ ہم قوم بنانے کے بجائے معاشرہ بنانے کی کوشش کر سکتے اور اس میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ دنیا سماج سازی کا تجربہ کامیابی کے ساتھ کر چکی ہے۔ اگر ہم بھی یہ کر سکیں تو وہ مقصد خود بخود حاصل ہو جائے گا جو ہم ایک قوم بن کر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
رنگ ونسل یا علاقے کی بنیاد پر جو اجتماعیت وجود میں آتی ہے‘ وہ ایک جاری عمل ہے۔ ہم اس کو روک نہیں سکتے۔ جو اعوانوں کے گھر پیدا ہو گا‘ وہ اعوان ہی ہو گا۔ جو کے پی میں پیدا ہوگا‘ اس کی اپنی شناخت ہو گی۔ یہ عمل ریاست یا ناصحین سے پوچھے بغیر‘ جاری ہے۔ یہ عصبیتیں اسی طرح باقی رہیں گی۔ ناصحین یا راہنماؤں کا کام سب کو یہ سمجھانا ہے کہ وہ کیسے مل کر رہ سکتے ہیں اور اپنا تشخص برقرار رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے خیر خواہ اور ہم درد ہو سکتے ہیں۔ یہ کام سماج سازی سے ہوگا۔
ہم نے اپنے لیے ہمیشہ اس کام کا انتخاب کیا جو ہمارے کرنے کا نہیں تھا۔ جو ہمیں کرنا چاہیے تھا‘ ہم نے اس سے گریز کیا۔ ہم نے حکمرانوں کو مسلمان بنانا تھا‘ ہم ریاست کو مسلمان بناتے رہے۔ ہم نے خود احتسابی کا رویہ پیدا کرنا تھا‘ ہم مطالبے کی نفسیات کی آبیاری کرتے رہے۔ ہم نے سیاسی جماعتوں کو مضبوط کرنا تھا‘ ہم سیاسی بت تراشتے رہے۔ ہم نے عوام کو ایک دوسرے کا خیر خواہ بنانا تھا‘ ہم ایک دوسرے کو حقوق شکنی کا مجرم قرار دیتے رہے۔ ہم نے سماج سازی کرنا تھی‘ ہم قوم سازی کر تے رہے۔
الفاظ بلاوجہ وجود میں نہیں آتے۔ پہلے ایک تصور جنم لیتا ہے پھر اس کے ابلاغ کے لیے الفاظ تلاش یا وضع کیے جاتے ہیں۔ قوم کا لفظ عربی لغت میں پہلے سے مستعمل تھا اور ایک خاص مفہوم کے ساتھ۔ ہم نے وہیں سے لیا۔ انیسویں صدی میں جب یورپ میں نیشنلزم کا سیاسی تصور آیا تو ہم نے پہلے سے موجود اس لفظ کا اطلاق اس پر بھی کیا۔ اس سے خلطِ مبحث پید ا ہوا۔ یہی اختلاط مولانا حسین احمد مدنی اور علامہ اقبال میں اختلاف کا باعث بنا۔ اقبال اسے نیشنلزم کی جدید سیاسی اصطلاح کے مفہوم میں لے رہے تھے اور مولانا مدنی قدیم لغوی مفہوم میں۔
ہمارے ہاں سماج یا معاشرے کی اصطلاح مقبول نہیں ہو سکی۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ ہم اس تصور کی معرفت سے محروم رہے۔ یہی سبب ہے کہ ہماری صفوں میں سیاسی مصلحین ملتے ہیں‘ سماجی اصلاح پسند نہیں۔ نظام کی بات ہوتی ہے‘ اقدار کی نہیں۔ ہم نے جو کام نہیں کیا‘ اس کے لیے موجود اصلاحات ہمارے لیے اجنبی رہیں۔ سماج سازی سے پہلے‘ اس لیے لوگوں کو یہ بتانا ہوگا کہ سماج یا معاشرہ کیا ہوتا ہے۔ سماج کا اقدار سے کیا تعلق ہے اور یہ کیسے وجود میں آتی ہیں۔ ہمیں آج قوم نہیں‘ سماج بنانا ہے جو ہمارے بس میں ہے۔ قوم سازی کا عمل‘ انسانی کاوشوں سے ماورا‘ ایک دوسری سطح پر جاری ہے۔ ہمیں ان اقدار کو مستحکم بنانا ہے جو ہماری قومی شناختوں کے باوجود‘ ہمیں ایک ساتھ رہنے کے آداب سکھا سکیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved