نو مئی کے پُرتشدد واقعات میں ملوث 25 مجرموں کو فوجی عدالتوں نے طویل ٹرائل کے بعد سزائیں سنا دی ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ سزائیں سناتے ہوئے ٹھوس شواہد کو سامنے رکھتے ہوئے تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے۔ جن لوگوں کو شک کی بنا پر گرفتار کیا گیا تھا اور ان کے نو مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے شواہد موجود نہیں تھے‘ انہیں رہا کر دیا گیا ہے۔ جن 25 افراد کو سزائیں سنائی گئی ہیں انہیں بھی اپیل کا حق حاصل ہو گا۔ قانونی ماہرین کے مطابق ان سزاؤں کا مستقبل سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط ہے۔ سپریم کورٹ نے جب فوجی عدالتوں کو فیصلہ سنانے کی اجازت دی تھی تو اس کے ساتھ عدالت نے یہ شرط بھی رکھی کہ سویلینز کے ملٹری ٹرائل کا مستقبل عدالت میں زیر سماعت درخواستوں کے فیصلے سے مشروط ہو گا۔ اگر سپریم کورٹ اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل نہیں ہو سکتا تو یہ سزائیں از خود کالعدم ہو جائیں گی اور ان کی کوئی قانونی حیثیت باقی نہیں رہے گی‘ تاہم اگر سپریم کورٹ یہ کہتی ہے کہ سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل ہو سکتا ہے تو پھر صورتحال مختلف ہو گی۔
پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ سویلینز کے مقدمات فوجی عدالتوں میں نہیں چل سکتے۔ فوجی عدالتوں کے قیام اور فیصلوں سے ہر دور میں اختلاف کیا جاتا رہا ہے لیکن پی ٹی آئی کے پاس خان صاحب کے اُن بیانات کا کیا جواب ہے جو وہ اپنے دورِ حکومت میں فوجی عدالتوں کے بارے میں دیتے تھے۔ خان صاحب کے بیانات ریکارڈ کا حصہ ہیں کہ فوجی عدالتوں کو اس لیے بنایا گیا کیونکہ پراسیکیوشن کمزور تھی‘ گواہ آتے ہوئے ڈرتے تھے۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے حمایتی بھی ایک ہی سانس میں ان ممالک کے نام بتا دیتے تھے جہاں پر فوجی عدالتیں موجود ہیں۔ اب اگر پی ٹی آئی کے کچھ لوگوں کو فوجی عدالتوں سے سزائیں ہوئی ہیں تو ان کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ کیا یہ قول و فعل کا تضاد نہیں؟ فوجی عدالتوں سے نو مئی کے مجرمان کو سزائیں پاک فوج کے اس عزم کا اظہار ہے جو آرمی چیف نے نو مئی واقعات کا ایک سال پورا ہونے پر کیا تھا کہ نو مئی کا سیاہ باب رقم کرنے والوں سے کوئی سمجھوتا نہیں ہو گا ۔ انتشار اور بدامنی پھیلانے والوں کے ساتھ کسی قسم کی کوئی نرمی نہیں ہونی چاہیے مگر کیا صرف سیاسی کارکنان کو سزائیں سنا کر بدامنی پر قابو پایا جا سکتا ہے؟ امن کے اصل دشمن وہ لوگ ہیں جو اپنی شناخت چھپاتے ہیں‘ جو پیٹھ پیچھے وار کرکے غائب ہو جاتے ہیں جو رات کے اندھیرے میں سرحد پار کرکے حملہ آور ہوتے ہیں‘ یہی لوگ درحقیقت ہمارے امن اور ترقی کے دشمن ہیں۔ جب تک امن کے ان دشمنوں کو ان کے ٹھکانوں سے نکال کر نشانِ عبرت نہیں بنایا جاتا‘ ہم امن اور ترقی کی منزل سے دور رہیں گے۔
یہ حقیقت ہے کہ دنیا کے نقشے پر موجود کچھ رنگ روشن اور کچھ رنگ ماند نظر آتے ہیں۔ روشن رنگ ترقی یافتہ ممالک کی نشاندہی کرتے ہیں‘ جہاں خوشحالی اور ترقی کی رفتار تیز ہے جبکہ ماند رنگ ان ممالک کی تصویر کھینچتے ہیں جو ترقی کے سفر میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ ان ممالک کی کہانی اکثر بدامنی اور انتشار سے عبارت ہوتی ہے جیسے ایک پودا اگر خشک سالی کا شکار رہے تو مرجھا جائے گا۔ اسی طرح بدامنی کا گہرا سایہ بھی کسی ملک کی ترقی کو مرجھا دیتا ہے۔ جنگ اور تنازعات سے معیشت کا انجن ٹھپ ہو جاتا ہے۔ سرمایہ کاری کا بہاؤ رک جاتا ہے اور انسانی وسائل برباد ہوتے ہیں اور معاشرتی ڈھانچہ تباہ ہو جاتا ہے۔ پاکستان کو بھی گزشتہ دو دہائیوں سے بدامنی کا سامنا ہے۔ بدامنی کی دیمک ملک کی ترقی کی بنیادوں کو مسلسل کھوکھلا کر رہی ہے۔ جیسے ایک درخت کو مضبوط جڑوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ طوفان کا مقابلہ کر سکے‘ اسی طرح امن و امان کسی ملک کی ترقی کی مضبوط جڑ ہے۔ جب امن و امان قائم ہو تو ملک کی ترقی کی رفتار تیز ہوتی ہے۔ سرمایہ کاری میں اضافہ ہوتا ہے‘ کاروبار پھلتے پھولتے ہیں اور لوگوں کی زندگی کا معیار بہتر ہوتا ہے۔ اس لیے یہ بات واضح ہے کہ بدامنی اور انتشار ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ جب تک کسی ملک میں امن و امان قائم نہیں ہو گا‘ وہ ترقی کی راہ پر نہیں چل سکتا۔
سکیورٹی فورسز بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں شدت پسند عناصر کے خلاف نبردآزما ہیں اور ملک و قوم کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن ماضی سے کافی مختلف ہے۔ ماضی میں جتنے آپریشن ہوئے وہ کسی خاص علاقے یا مخصوص وقت کیلئے تھے مگر آپریشن عزم استحکام پورے ملک میں شدت پسند عناصر کے خلاف جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ ملک میں امن اور استحکام قائم نہیں ہو جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ 20اور 21دسمبر کی درمیانی رات خوارج کے ایک گروپ نے جنوبی وزیرستان کے ضلع مکین کے علاقے میں سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر حملہ کیا۔ سکیورٹی فورسز نے حملے کا مؤثر جواب دیتے ہوئے آٹھ خارجی دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا‘ تاہم شدید فائرنگ کے تبادلے میں 16جوانوں نے بہادری سے لڑتے ہوئے شہادت کو گلے لگا لیا۔ یہ صرف ایک دن کا احوال ہے‘ ورنہ روزانہ کی بنیاد پر بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں عزم استحکام کے تحت سکیورٹی فورسز انٹیلی جنس بیسڈ کارروائیوں میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر قوم کے محفوظ مستقبل کیلئے کوشاں ہیں۔ اس صورتحال کے تناظر میں ملک دشمن قوتوں کے خلاف حکومت اور اپوزیشن کو ایک پیج پر ہونا چاہیے مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپوزیشن کو ملکی سلامتی سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ اسمبلی کے فلور پر 26 نومبر کو اپنے کارکنان پر فائرنگ کا ذکر تو مبالغہ آرائی کے ساتھ کرتی ہے مگر اسی جذبے سے سکیورٹی فورسز کی قربانیوں کا تذکرہ نہیں کرتی۔
یہ درست ہے کہ ملک میں قیام امن سکیورٹی فورسز کا اولین فریضہ ہے۔ جب کسی ملک کو بدامنی کے چیلنج کا سامنا ہوتا ہے تو اس کی سکیورٹی فورسز اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات کرتی ہیں لیکن مستقل قیام امن کے لیے صرف سکیورٹی فورسز کی کوششیں کافی نہیں ہیں۔ انہیں سیاسی جماعتوں اور عوام کا بھرپور تعاون حاصل ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ایک بار پھر سراپا احتجاج ہیں۔ اس طرح کے احتجاج شدت پسندت عناصر کو مذموم مقاصد میں کامیابی کا موقع فراہم کرتے ہیں‘ سو ضروری ہے کہ ہر معاملے کو سکیورٹی اداروں کے کندھوں پر ڈالنے کی روش ترک کی جائے اور سیاستدان اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں کیونکہ سماجی سطح پر سیاسی جماعتوں کا کردار بہت اہم ہے۔ عوام سیاسی نمائندوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں‘ اس لیے سیاسی جماعتوں کو عوام میں شعور اجاگر کرنا چاہیے اور انہیں دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں شامل کرنا چاہیے۔ دہشت گردی کے خلاف قانون سازی اور اُن قوانین کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنے میں سیاسی جماعتوں کا اہم کردار ہے۔ جب سکیورٹی فورسز‘ سیاسی جماعتیں اور عوام مل کر کام کریں گے تو دہشت گردی کا مقابلہ کرنا آسان ہو گا۔ سکیورٹی فورسز کی کوششیں سیاسی جماعتوں اور عوام کے تعاون سے ہی کامیاب ہو سکتی ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved