تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     24-12-2024

نصرتِ ربانی اور معجزاتِ نبوی … (1)

دورِ نبوی اور عہدِ صحابہ میں تاریخِ اسلام میں عظیم الشان واقعات رونما ہوئے۔ تعداد کی قلت اور سرو سامان کی نایابی کے باوجود جذبۂ ایمانی اور خالقِ کائنات سے حقیقی اور قریبی تعلق اور نبی رحمتﷺ سے حقیقی عقیدت و محبت نے امت مسلمہ کو ناقابلِ شکست بنا دیا۔ جو بڑی سے بڑی قوت بھی ان جاں فروشوں سے ٹکرائی‘ پاش پاش ہو گئی۔ حضور پاکﷺ کا براہِ راست ربِ ارض و سما سے رابطہ رہتا تھا اور اس دربار عالی سے آپﷺ کی دعائیں قبولیت پاتی تھیں۔ خود اللہ تعالیٰ کو بھی اپنے نبی پر فخر تھا۔ ارشاد ربانی ہے: ورفعنا لک ذکرک۔ پہلا اور عظیم الشان معرکہ جو کفر اور اسلام کے درمیان برپا ہوا‘ غزوۂ بدر تھا۔ ایک ہزار کے مسلح لشکر کے مقابلے پرتین سو تیرہ صحابہ نے فتح پائی۔ ستر کفار تہِ تیغ ہوئے اور ستر ہی جنگی قیدی بنا لیے گئے۔ جنگ بدر میں بہت سے معجزات رونما ہوئے۔ جنگ سے قبل آنحضورﷺ نے جو پیش گوئیاں فرمائیں‘ وہ حرف بحرف پوری ہوئیں۔ جنگ کے بعد بھی عوام الناس کو مسلسل اسلام کی حقانیت اور آنحضورﷺ کی صداقت کی شہادتیں ملتی رہیں۔ کئی معاندین نے اس جنگ کے نتیجے میں اسلام قبول کیا۔ یہاں ہم قارئینِ محترم کی خدمت میں چند ایک ایمان افروز واقعات کا تذکرہ کرتے ہیں:
غزوۂ بدر کے واقعات بیان کرتے ہوئے تمام مؤرخین نے عمیر بن وہب کے قبولِ اسلام کا واقعہ بیان کیا ہے۔ بعض محدثین نے بھی اسے اپنی کتبِ حدیث میں نقل کیا ہے۔ یہ واقعہ غزوۂ بدر میں حاصل ہونے والی بے مثال فتح کی برکات میں بھی شمار ہوتا ہے اور سرورِ دو عالمﷺ کے معجزات میں بھی یہ شامل ہے۔ بہر حال یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ یوم الفرقان نے میدانِ جنگ کی فتوحات کا باب بھی وا کر دیا اور دلوں کو فتح کرنے کے لیے قلب و نظر کے دروازے بھی کھول دیے۔ سیرت ابن ہشام‘ طبقات ابن سعد‘ اسد الغابہ‘ البدایہ و النہایہ‘ الاصابہ‘ استیعاب اور المغازی للواقدی سمیت بہت سی کتابوں میں حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی زبانی یہ واقعہ نقل کیا گیا ہے۔
عمیر بن وہب جمحی جنگ بدر کے کچھ عرصہ بعد بنو اُمیہ کے مشہور سردار صفوان بن اُمیہ کے ساتھ مکہ میں بیٹھا تھا۔ عمیر بن وہب قریش کے ان لوگوں میں سے تھا جو آنحضورﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کو ایذا پہنچانے میں پیش پیش ہوتے تھے۔ اس کا بیٹا وہب بن عمیر بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوکر قیدی بن گیا تھا۔ عمیر نے جنگ بدر کے حالات پر اظہارِ افسوس کیا اور مسلمانوں کے بارے میں برے الفاظ استعمال کیے۔ صفوان نے سن کر کہا: ''خدا کی قسم جو لوگ بدر میں مارے گئے‘ ان کے بعد زندگی کا کوئی لطف باقی نہیں رہا‘‘۔ عمیر نے کہا: ''بخدا تم نے سچ کہا۔ خدا کی قسم اگر میرے اوپر قرض کا بوجھ نہ ہوتا اور اہل و عیال کی فکر دامن گیر نہ ہوتی‘ جن کا میری عدم موجودگی میں ضائع ہو جانے کا خطرہ ہے تو میں ضرور مدینہ جا کر محمد کو قتل کر دیتا (نعوذ باﷲ)۔ مدینہ جانے میں میرے لیے یہ بہانہ بھی ہے کہ میرا بیٹا ان لوگوں کے ہاتھوں میں قید ہے اور میں کہہ سکتا ہوں کہ اس سے ملنے آیا ہوں‘‘۔
صفوان بن امیہ نے موقع غنیمت جانا اور کہنے لگا: ''تیرا قرض میں اپنے ذمے لیتا ہوں اور تیرے اہل و عیال کو میں اپنے اہل و عیال کی طرح سے اپنی سرپرستی میں رکھوں گا‘‘۔ عمیر نے اس سے کہا: ''بس اس معاملے کو کسی پر ظاہر نہ کرنا‘‘۔ اس نے کہا: ''میں کسی کو نہیں بتاؤں گا‘‘۔ اس کے بعد عمیر نے اپنی تلوار خوب تیز کی اور اسے زہر میں بجھا لیا اور پھر مدینہ کی طرف چل پڑا۔ مدینہ پہنچ کر اس نے حضرت عمرؓ بن خطاب کو مسلمانوں کی ایک جماعت میں بیٹھے ہوئے دیکھا۔ اس وقت وہ لوگ جنگ بدر کا تذکرہ کر رہے تھے اور اس جنگ کی وجہ سے اللہ نے انہیں جو عزت بخشی تھی اور ان کے دشمنوں کو جس عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا‘ اس پر تبادلہ خیالات کر رہے تھے۔
حضرت عمرؓ بن خطاب نے عمیر بن وہب کو دیکھا کہ وہ تلوار سے مسلح تھا اور اپنا اونٹ مسجد کے دروازے پر بٹھا رہا تھا۔ آپؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ''یہ دشمنِ خدا عمیر بن وہب ہے۔ خدا کی قسم یہ کسی شرارت کے لیے آیا ہے۔ یہی ہے جس نے بدر کے میدان میں دشمنوں کو ہمارے اوپر چڑھائی کے لیے آمادہ کیا اور ہماری تعداد کا اندازہ اسی نے انہیں بتایا تھا‘‘۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ رسول اللہﷺ کے پاس گئے اور عرض کیا: ''اے اللہ کے نبیﷺ! یہ دشمنِ خدا عمیر بن وہب اپنی تلوار لے کر آیا ہے اور اس کا ارادہ ٹھیک نہیں ہے‘‘۔ آنحضورﷺ نے فرمایا: ''اسے میرے پاس لے آؤ‘‘۔ حضرت عمرؓ اس کے پاس گئے اور اسے کھینچتے ہوئے آنحضورﷺ کے پاس لائے۔ پھر اپنے انصاری ساتھیوں سے کہا کہ وہ رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھ جائیں اور اس خبیث پر نظر رکھیں کیونکہ اس کی نیت ٹھیک نہیں‘‘۔ رسول اللہﷺ نے جب دیکھا کہ عمرؓ اسے پکڑے ہوئے لا رہے ہیں تو فرمایا: ''عمر اسے چھوڑ دو‘ اے عمیر یہاں میرے پاس آؤ‘‘۔ عمیر آپﷺ کے پاس پہنچا اور اپنے جاہلانہ طریقے کے مطابق سلام کیا۔ آنحضورﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے ہمیں سلام دعا کا بہتر طریقہ سکھایا ہے اور یہ اہلِ جنت کا طریقہ ہے۔ جس میں سلامتی اور رحمت کی دعا دی جاتی ہے‘‘۔ عمیر نے کہا: ''اے محمد(ﷺ)! بخدا تم جانتے ہو کہ یہ طریقہ زیادہ پرانا نہیں اس لیے مجھے معاف کریں‘ میں اس سے بے خبر ہوں‘‘۔ آنحضورﷺ نے پوچھا: ''اے عمیر‘ کس ارادے سے آئے ہو؟‘‘ اس نے جواب دیا ''میرا قیدی آپ کے پاس ہے‘ میں اسی کے لیے آیا ہوں۔ میرے ساتھ نیکی کریں اور اسے چھوڑ دیں‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ''یہ تیرے گلے میں جو تلوار لٹک رہی ہے اس کا کیا معاملہ ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا: ''اللہ نے ہماری تلواروں کو غارت کر دیا۔ کیا ان تلواروں نے (بدر میں) ہماری کوئی مدد کی؟‘‘ آنحضورﷺ نے فرمایا: ''مجھے سچ سچ بتا دو کہ تم کس کام کے لیے آئے ہو؟‘‘ اس نے جواب دیا: ''میں تو اسی کام کے لیے آیا ہوں جس کا میں ذکر کر چکا ہوں‘‘۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''تم نے جھوٹ بولا‘ تم صفوان بن امیہ کے ساتھ حجر اسود کے قریب بیٹھے تھے۔ پھر تم نے قریش کے مقتولین کا آپس میں ذکر کیا تو تم نے صفوان سے کہا: اگر میرے اوپر قرض کا بوجھ اور اہل و عیال کی ذمہ داری نہ ہوتی تو میں جاکر محمد کا کام تمام کر دیتا۔ تمہاری بات سن کر صفوان نے تمہارا قرض بھی اپنے ذمے لے لیا اور تمہارے اہل و عیال کی دیکھ بھال کا وعدہ بھی کیا۔ تم مجھے قتل کرنے کے لیے آئے ہو‘ مگر میرے اور تمہارے ارادے کے درمیان اللہ تعالیٰ حائل ہے‘‘۔
عمیر نے کہا: ''میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں ! یارسول اللہﷺ ! آپ ہمیں جو آسمان کی خبریں بتایا کرتے تھے اور آپ پر جو وحی نازل ہوا کرتی تھی ہم اسے جھٹلاتے تھے۔ اب یہ معاملہ جس کی آپ مجھے خبر دے رہے ہیں‘ اس کا علم میرے اور صفوان کے سوا اور کسی کو بھی نہ تھا۔ خدا کی قسم میں اچھی طرح جان گیا ہوں کہ اس کی خبر سوائے اللہ کے آپﷺ کو کسی نے نہیں دی۔ پس حمد و ثنا اس اللہ کی جس نے مجھے اسلام کی طرف ہدایت دی اور مجھے چلا کر یہاں تک پہنچایا اور حقیقت حال میرے اوپر واضح ہو گئی‘‘۔ اس کے بعد عمیر نے کلمہ شہادت پڑھا۔ نبی اکرمﷺ اس کے قبولِ اسلام پر بہت خوش ہوئے اور آپ نے صحابہ کرامؓ سے کہا: ''اپنے بھائی کو دین سمجھاؤ اور اسے قرآن مجید پڑھاؤ۔ نیز اس کے قیدی کو آزاد کر دو‘‘۔ صحابہ کرام نے آنحضورﷺ کے حکم کی تعمیل کی۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved