تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     25-12-2024

تعلیمی ایمرجنسی: پھر وہی خواب‘ وہی سراب

پاکستان کو تعلیم کے میدان میں چند اہم چیلنجوں کا سامنا ہے‘ جن میں سرِفہرست سکولوں تک رسائی ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن کی تازہ رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں دو کروڑ 60 لاکھ سے زائد بچوں کو سکولوں تک رسائی نہیں۔ یہ کسی بھی ملک میں سکول سے باہر بچوں کی ایک کثیر تعداد ہے۔ اس تعداد میں کمی کے بجا ئے روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے جڑا ایک اور مسئلہ ڈراپ آئوٹ کا ہے۔ تازہ اعداد وشمار کے مطابق 38 فیصد طلبہ آٹھویں جماعت میں پہنچنے تک سکول چھوڑ جاتے ہیں۔ پاکستانی نظامِ تعلیم کو درپیش ایک اور چیلنج معیار کے حوالے سے درپیش ہے اور اس سے جڑا ہوا ایک مسئلہ Relevance کا ہے۔ پاکستاں میں بیشتر تعلیمی اداروں میں جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے‘ اس کا اکیسویں صدی کے عصری تقاضوں سے کوئی واسطہ نہیں۔ ایک طرف تو تعلیم کو یہ سنجیدہ چیلنجز درپیش ہیں اور دوسری طرف ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے حکومتی سطح پر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق تعلیم پر پچھلے برس جی ڈی پی کا محض 1.5فیصد صرف کیا گیا جبکہ بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق تعلیم کیلئے جی ڈی پی کا کم از کم چار فیصد حصہ مختص ہونا چاہیے۔
پاکستان میں تعلیمی اصلاحات کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں متعدد پالیسیاں نظر آتی ہیں جن میں بلندوبالا دعوے کیے گئے۔ ان دعووں کی تکمیل کیلئے متعدد تاریخیں (Deadlines) بھی دی گئیں لیکن ہر بار ان خوشنما خوابوں کو تعبیر نہ ملی۔ اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ تعلیمی اصلاحات کا سارا سفر ایک سراب کی مانند تھا۔ حکومتی سطح پر تازہ ترین خواب ملک میں 'تعلیمی ایمرجنسی‘ کے نفاذ کا اعلان ہے۔ یہ اعلان وزیراعظم نے 30اپریل 2024ء کو تعلیمی ایمرجنسی پر ہونے والی ایک کانفرنس میں کیا تھا۔ اس سے پہلے کہ ہم اس اعلان کی تفصیلات کے بارے میں بات کریں‘ آئیے دیکھتے ہیں کہ ایمرجنسی سے کیا مراد ہے؟ آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق ''ایمرجنسی ایک خطرناک‘ سنگین اور اچانک پیش آنے والی صورتحال یا واقعہ ہے‘ جس کے لیے فوری اقدام کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔ اس لحاظ سے ایمرجنسی سے نپٹنے کے لیے فوری اقدام کی ضرورت ہے۔ ایمرجنسی کے اس پہلو یعنی ''فوری اقدام‘‘ کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب ہم وزیراعظم کی اعلان کردہ ایمر جنسی کے نوٹیفکیشن میں کیے گئے وعدوں اور ان وعدوں پر عملدرآمد کی رفتار کا جائزہ لیتے ہیں۔
تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان 30 اپریل کو کیا گیا تھا لیکن اس کا نوٹیفکیشن ایک ہفتے بعد 7 مئی کو جاری ہوا۔ نوٹیفکیشن کی اس دستاویز میں چودہ اقدامات کا اعلان کیا گیا اور ان پر عملدرآمد کی تکمیل کیلئے مختلف ڈیڈ لائنز مقرر کی گئی تھیں۔ اب جبکہ تعلیمی ایمرجنسی کے رسمی اعلان کو آٹھ ماہ گزر چکے ہیں اور کچھ ہی دنوں میں نیا سال طلوع ہو جائے گا‘ آئیے ہم ان اقدامات پر عملدرآمد کی پیشرفت کا جائزہ لیں جن پر فوری اقدام کا وعدہ کیا گیا تھا:
ٹاسک1: اس ٹاسک کے مطابق وفاقی وزارتِ تعلیم کو سکول سے باہر بچوں کا مکمل جائزہ لینا تھا اور ان کیلئے خاص مداخلتی منصوبے (Interventions) تیار کرنا تھے اور اس سارے پروگرام کو وزیراعظم کو پیش کیا جانا تھا۔ اس کام کیلئے پندرہ دن کا وقت مقرر کیا گیا تھا لیکن آج‘ آٹھ ماہ بعد بھی کوئی منصوبہ تیار یا پیش نہیں کیا گیا۔ ٹاسک2: سکول سے باہر بچوں کی مدد کیلئے ایک فنڈ قائم کیا جانا تھا‘ جس کے تحت ایسے اختراعی (Innovative) طریقے وضع کیے جانے تھے جن کے ذریعے سکول سے باہر بچوں کی تعداد میں کمی کی جا سکے۔ اس منصوبے کیلئے پانچ سال میں کم ازکم 25 ارب روپے مختص کیے جانے تھے۔ یہ کام ایک ماہ میں مکمل ہونا تھا۔ تاہم دو سال پہلے تیار کیا گیا پی سی ون ابھی تک شروع نہیں کیا جا سکا۔
ٹاسک3: وفاقی وزارتِ تعلیم وپیشہ ورانہ تربیت کو ایک ٹاسک فورس تشکیل دینا تھی‘ جو قومی اور صوبائی سطح پر تعلیمی بحران کے حل کیلئے حکمت عملی تیار کرے۔ یہ ٹاسک فورس وزیراعظم کو براہِ راست رپورٹ کرے گی۔ ٹاسک فورس کے قیام کیلئے پندرہ دن کا وقت دیا گیا تھا لیکن یہ ٹاسک فورس 48دن بعد‘ 25 جون 2024ء کو تشکیل دی گئی۔ ٹاسک4: تعلیم کیلئے بجٹ (وفاقی؍ صوبائی) کو جی ڈی پی کے چار فیصد تک بڑھانے کی کوشش کی جانی تھی۔ تعلیمی ایمر جنسی کے فوراً بعد نئے سال کا بجٹ پیش کیا گیا۔ تاہم اس بجٹ میں بھی تعلیم کی مد میں کوئی نمایاں اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا اور تعلیم کیلئے مختص بجٹ اب بھی جی ڈی پی کے دو فیصد سے کم ہے‘ جو بین الاقوامی تنظیموں کے مقررکردہ کم ترین معیار(جی ڈی پی کا چار فیصد) سے بھی کم ہے۔
ٹاسک5: تعلیمی اداروں میں اعلیٰ معیار کے اساتذہ کی تیزی سے بھرتی کی جانی تھی۔ اس ٹاسک پر فوری عمل درآمد کرنا تھا۔ اس سلسلے میں سوائے وفاقی دارالحکومت کے‘ کہیں اور کوئی قابلِ ذکر پیش رفت نہیں ہوئی۔
ٹاسک6 کے تحت ایک جامع قومی غذائی پروگرام شروع کیا جائے گا تاکہ سکول جانے والے بچوں کی صحت کو بہتر بنایا جا سکے اور ان کی تعلیمی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جا سکے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو یہ ہدایت کی گئی کہ تمام پسماندہ اضلاع میں ترجیحی بنیادوں پر سکول کے کھانے کی فراہمی کے اقدامات کرے۔ اس کام کیلئے دو ہفتے کا وقت دیا گیا تھا لیکن اس پروگرام کے اثرات صرف وفاقی دارالحکومت اور پنجاب اور بلوچستان کے کچھ حصوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ٹاسک7: اس ٹاسک کے مطابق کمیونٹی بیسڈ ٹیچنگ کو فروغ دینا تھا‘ وفاقی دارالحکومت میں محدود پیمانے پر یہ کام نظر آتا ہے لیکن ابھی تک اس کیلئے کوئی باضابطہ پالیسی نہیں بنائی گئی۔ ٹاسک8: اس ٹاسک کے تحت پاکستان ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ کا قیام عمل میں لانا تھا لیکن ایسا کوئی فنڈ ابھی تک نہیں بنایا گیا۔ ٹاسک 9: اس ٹاسک کے مطابق دانش سکول سسٹم باقی صوبوں میں پھیلایا جانا تھا لیکن ابھی تک صرف چک شہزاد‘ اسلام آباد میں ایک سکول کی Earth Breaking تقریب منعقد کی گئی ہے۔ ٹاسک10: اس ٹاسک کے مطابق 60 ہزار طلبہ کی تربیت کیلئے ایک قومی سِکل ڈویلپمنٹ پروگرام شروع کرنا تھا‘ لیکن اس پر تاحال کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔
ٹاسک11: ایجوکیشنل ریسورسز‘ تعلیمی مواد اور ورچوئل لرننگ کیلئے ایک آن لائن پورٹل تیار کیا جانا تھا۔ اس کام کیلئے ایک مہینہ مقرر کیا گیا تھا۔ ورلڈ بینک کی فنڈنگ کی مدد سے یہ پورٹل تو بن گیا لیکن اسے ابھی تک باقاعدہ لانچ نہیں کیا گیا۔ ٹاسک 12: اس ٹاسک کی رو سے محکمہ تعلیم وپیشہ ورانہ تربیت نے دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر وسیلۂ تعلیم فنڈ کو مالی لحاظ سے مستحق طلبہ تک پھیلانے کیلئے اقدامات کرنا تھے اور ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ کے فنڈز کی مدد سے ملک کے آفت زدہ علاقوں میں سہولتیں مہیا کرنا تھیں۔ اس ٹاسک پر عملدرآمد کیلئے ایک ماہ کا وقت دیا گیا تھا۔ اس حوالے سے کوئی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ ٹاسک13: مالیاتی خواندگی کو تمام صوبوں تک پھیلانے کیلئے ایک پروگرام شروع کرنا تھا‘ لیکن یہ پروگرام ابھی تک وفاقی دارالحکومت اور گلگت بلتستان تک محدود ہے۔ ٹاسک14: تعلیم میں جدید معیارات کے مطابق اختراعی اقدامات اور STEAM (سائنس‘ ٹیکنالوجی‘ انجینئرنگ‘ آرٹس اور ریاضی) کیلئے مربوط طریقہ کار کو فروغ دینا تھا لیکن یہ صرف اسلام آباد میں جزوی طور پر نافذ کیا گیا ہے۔
ٹاسک فورس کے قیام کو سات ماہ ہو چکے ہیں‘ اس دوران اس کا صرف ایک اجلاس ہوا‘ اس میں بھی ٹاسک فورس کے صدر نشین‘ جناب وزیراعظم اپنی مصروفیات کی بنا پر شرکت نہ کر سکے۔ یہ صورتحال ایمرجنسی کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتی۔ محسوس ہوتا ہے کہ تعلیمی ایمرجنسی کا یہ ا علان بھی ماضی کے اُن خوشنما سرابوں کی مانند ہے جن کے پیچھے چلتے چلتے ہم تھک چکے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved