جج نے قرآنی آیات کا حوالہ دے کر بہن کو بھائیوں سے جائداد میں حصہ دلوایا۔ جج نے سورۃ النساء کی گیارہویں آیت پڑھ کر سنائی۔ جج نے کہا کہ اسلام نے وراثت کی تقسیم کے بہت واضح اصول اور قوانین بتائے ہیں۔ اس نے یہ بھی سمجھایا کہ لڑکوں کو لڑکیوں سے دُگنا ملتا ہے اس لیے کہ مردوں پر بیوی بچوں اور ماں باپ کی کفالت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ انصاف مملکتِ خدادداد میں نہیں ہوا۔ یہ بھارت میں ہوا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی ایک مسلمان عورت تھی۔ بھائیوں نے اس کا حصہ ہڑپ کر لیا۔ وہ عدالت میں گئی۔ مقدمے نے طول کھینچا۔ ایسا طول کہ وہ مر ہی گئی۔ اس کے بعد اس کے بڑے بیٹے نے یہ مقدمہ سنبھالا۔ وہ بھی رزقِ خاک ہو گیا۔ عورت کے چھوٹے بیٹے نے یہ جنگ جاری رکھی اور آخرکار کئی دہائیوں کے بعد انصاف حاصل کر لیا۔ اس عورت کی بہادری کی داد دینا پڑتی ہے کہ اس نے کسی ہچکچاہٹ اور کمپلیکس کے بغیر قانون کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ مقدمے کی طوالت اس کا حوصلہ توڑنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ پھر اس کے بیٹوں نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ یہ ایک ہندو جج تھا جس نے قرآنی آیات پڑھ کر سنائیں۔ اور یہ وضاحت بھی کر دی کہ مرد کا حصہ دو گنا کیوں ہے۔
اس امر کی تحقیق ہونی چاہیے کہ پاکستان میں جہاں ہر وقت‘ ہر طرف‘ اسلام زندہ باد کے نعرے لگتے ہیں‘ ایسے کتنے مقدمے دائر کیے گئے اور کتنی عورتوں کو وراثت میں ان کا حق ملا؟ لطیفہ یہ ہے کہ عورتوں کے حقوق کی نام نہاد نگہبانی کرنے والے خود اپنے گھروں میں ان حقوق کو خوب خوب پامال کرتے ہیں۔ عورت کے حقوق کی اس پامالی میں خود عورت کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ بیٹی وراثت کی بات بھی کرے تو سب سے پہلے ماں ہی اسے ڈائن اور بھائیوں کی دشمن قرار دیتی ہے۔ اولاد ہونے میں ذرا سی دیر ہو جائے یا بیٹی پیدا ہو تو ساس سب سے پہلے چیخ وپکار شروع کرتی ہے۔ بیٹے کی پسلیوں میں کچوکے دیتی ہے۔ اسے دوسری شادی پر مسلسل اُکساتی ہے۔ بیٹی کی پیدائش کی خبر دینے والی نرس کو پہلا تھپڑ‘ نوزائیدہ بچی کی دادی ہی رسید کرتی ہے۔ رہے مرد تو مردوں کی اکثریت بھی بیٹی کی پیدائش کو اچھا نہیں سمجھتی۔ آنکھوں دیکھا یہ واقعہ پہلے بھی لکھا تھا کہ وفاقی دارالحکومت میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ بلکہ اعلیٰ ترین تعلیم یافتہ جوڑے کے ہاں دوسری بیٹی پیدا ہوئی۔ دونوں میاں بیوی بہت خوش تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کا حلقۂ احباب بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل تھا۔ اس بات میں رتی بھر مبالغہ نہیں کہ ان کے ملنے والوں میں اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو انہیں تسلی دے رہے تھے کہ کوئی بات نہیں‘ اگلی بار بیٹا ہوگا۔ وہ بیچارے مٹھائی پیش کر رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ وہ دوسری بیٹی کی پیدائش پر خوش ہیں مگر افسوس کرنے والے مٹھائی بھی کھا رہے تھے اور مسلسل افسوس بھی کر رہے تھے۔ ابھی یہ داستانِ حیرت ختم نہیں ہوئی۔ نوزائیدہ بیٹی کا باپ جس ادارے میں کام کر رہا تھا وہاں اکثریت سائنس دانوں کی اور انجینئروں کی تھی! اس کا باس بہت بڑے گریڈ کا مالک تھا‘ با ریش تھا اور بظاہر کٹر مذہبی! اس نے بھی افسوس کا اظہار کیا۔ نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ اُس نے کوئی آیت بھی بتائی کہ اسے پڑھنے سے بیٹا پیدا ہوگا۔ یعنی جس قرآن میں یہ فرمایا گیا ہے کہ ''جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خوشخبری دی جائے تو اس کا منہ سیاہ ہو جاتا ہے‘‘ اور ''لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے‘‘۔ موصوف اُسی قرآن سے اولادِ نرینہ کا نسخہ نکال رہے تھے۔ جب سائنس دانوں کا یہ حال ہوگا تو عام آدمی کا بیٹی یا بیٹیوں کے ضمن میں جو رویہ ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں!
کسی اجنبی کو پاکستان میں لائیے۔ وہ کچھ عرصہ رہ کر دیکھے کہ بیٹی‘ بہن‘ بہو اور بیوی کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جا رہا ہے اور کیسا رویہ ہے تو وہ کبھی نہیں مانے گا کہ یہ اسلامی ملک ہے یا اسلامی نہ بھی سہی‘ مسلمانوں کا ملک ہے!! عورت یہاں‘ الّا ماشاء اللہ‘ ایک جنس ہے۔ اسی ایک بات سے اندازہ لگائیے کہ لڑکے والے لڑکی کو ''دیکھنے‘‘ اس انداز میں جاتے ہیں جیسے لڑکی انسان نہیں‘ فرنیچر کا پیس ہے۔ لڑکی چائے کی ٹرے لے کر آتی ہے تو لڑکا‘ اس کی ماں‘ اس کی بہن‘ اس کا باپ لڑکی کا اس طرح جائزہ لیتے ہیں جیسے مویشیوں کی منڈی میں قربانی کا جانور دیکھا جاتا ہے۔ لعنت ہے اس رواج پر‘ اس تکبر پر اور بیٹیوں کی اس توہین پر!! پُرتکلف چائے پی کر اور مرغن کھانا جانوروں کی طرح تنورِ شکم میں اتار کر‘ لڑکی کو ناپسند کر دیا جاتا ہے! انسانیت کی اس سے زیادہ کیا تذلیل ہو گی!! اہلِ مغرب میں لاکھ برائیاں ہیں مگر عورت کی یہ تذلیل انہوں نے ختم کر دی۔ عرب معاشرے میں‘ جہاں حضرت خدیجہؓ نے خود شادی کا پیغام بھیجا تھا‘ آج بھی عورت خود پروپوز کرتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں لڑکی والا گھرانا مجرم کی طرح ہوتا ہے۔ وہ مسلسل اس ٹینشن میں رہتا ہے کہ لڑکے والے کسی بات پر ناراض نہ ہو جائیں۔ کہیں منگنی نہ توڑ دیں۔ کوئی اعتراض نہ کر دیں۔ جہیز کی فہرست باقاعدہ ایک قیمتی دستاویز کی طرح لڑکی والوں کے حوالے کی جاتی ہے۔ ہر موقع پر لڑکی والوں سے مٹھائی کی توقع کی جاتی ہے۔ لڑکے کی ماں کو سونے کا کوئی نہ کوئی زیور پیش کیا جاتا ہے۔ لڑکے کے ماں باپ‘ بہنوں بھائیوں کو ملبوسات پیش کیے جاتے ہیں۔ پھر ایک اور مکروہ رسم کہ پہلی صبح کا ناشتہ لڑکی والے لے کر آئیں! یہ کہاں کی تہذیب ہے؟ یہ کیسا کلچر ہے؟ یہ کیسا معاشرہ ہے! کیا وہ لڑکے والوں کے ملازم ہیں! شرم آنی چاہیے ایسا ناشتہ منہ میں ٹھونسنے پر!! لڑکی والے نہ ہوئے‘ محکوم اور مغضوب ہوئے! جہالت اور جاہلیت کی آخری حد ہے! دفتروں اور کام کرنے کی دوسری جگہوں میں جو خواتین ملازمت کرتی ہیں‘ ان کے مرد رفقائے کار ان کی غیر حاضری میں ان کا مذاق اڑاتے ہیں‘ ناشائستہ گفتگو کرتے ہیں اور انہیں مختلف طریقوں سے ہراساں کرتے ہیں۔ بہت کم مرد‘ آٹے میں نمک کے برابر‘ اس ضمن میں شرافت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ساتھ کام کرنے والی خواتین کی دل سے عزت کرتے ہیں!
بھائی ماں باپ کی موجودگی میں‘ ماں باپ کی زندگی میں‘ بہنوں پر رُعب جھاڑتا ہے۔ اس کے آنے جانے پر‘ اس کی زندگی کے معمولات پر‘ اس کے حصولِ تعلیم پر اعتراضات کرتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو برتر سمجھتا ہے۔ ماں باپ بھی بیٹی سے توقع کرتے ہیں کہ بھائی کے سارے کام کرے۔ اسے چائے بنا کر دے‘ اس کا لباس استری کرے! وہ اپنا لباس خود کیوں نہیں استری کرتا؟ کیا اس نے بھی کبھی بہن کو چائے بنا کر دی؟ ہر روز سنتے اور سناتے ہیں اور پڑھتے اور پڑھاتے ہیں کہ آقائے دو جہانﷺ گھر کا کام اپنے ہاتھوں سے کرتے تھے اور ازواجِ مطہراتؓ کا ہاتھ بٹاتے تھے مگر اس پر عمل کی توفیق نہیں ہوتی! بیٹا دنیا جہان کی بدمعاشیاں کرے‘ غنڈہ گردیاں کرے‘ نشہ کرے‘ تعلیم حاصل کرنے میں ناکام ہو‘ جیل یاترا بھی کر آئے پھر بھی پوتّر ہے! اس کے کسی کرتوت سے خاندان کی عزت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ مگر بیٹی کسی سے بات بھی کر لے تو حرمت آلودہ ہو جاتی ہے اور خراٹے لیتی غیرت جاگ اُٹھتی ہے!! کیسا دُہرا معیار ہے! اور کیسی پرلے درجے کی منافقت ہے! شادی کے بعد جو کچھ لڑکی کے ساتھ سسرال والے کرتے ہیں‘ وہ تو بعد کی بات ہے۔ شادی سے پہلے اس کے اپنے ماں باپ اور بھائی اس کے ساتھ جو رویہ اختیار کرتے ہیں‘ اس پر بھی غور کرنا چاہیے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved