تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     28-12-2024

تحریک انصاف خطرناک وادی میں؟

تحریک انصاف نے ایک خطرناک وادی میں قدم رکھ دیا ہے۔ یہ آ گ کی وادی ہے جس میں سب کچھ جل کر راکھ ہو سکتا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی باگ اب بیرونِ ملک مقیم ان لوگوں کے ہاتھ میں چلی گئی ہے جو خان صاحب کی محبت میں ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں۔ ایک فرد ان کے لیے ملک سے اہم تر ہے۔ وہ قومی مفاد کا ادراک رکھتے ہیں اور نہ ہی ملک کی سیاسی حرکیات سے واقف ہیں۔ سوشل میڈیا ان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ چونکہ پیسے کمانے کا آسان ذریعہ ہے‘ اس لیے یہاں بسنے والے کچھ مفاد پرست بھی ان کے ساتھ شریک ہیں جو ان کوغیرمصدقہ خبریں دیتے اور ان کی نفسیاتی کیفیت سے فائدہ اٹھاکر ڈالر کشید کرتے ہیں۔ پاکستان میں تحریک انصاف کی قیادت‘ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہے۔ اسے مگر اس قید سے نکل کر قیادت اپنے ہاتھ میں لینا اور پارٹی کو مزید مشکلات سے بچانا ہو گا۔ اسی میں ان کی سلامتی اور پاکستان کے لیے خیر ہے۔
بیرونِ ملک مقیم اس گروہ نے یہ طے کر لیا ہے کہ پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ اب واشنگٹن میں ہو گا۔ تمام امیدیں ٹرمپ اور ان کی ٹیم سے باندھ لی گئی ہیں۔ پاکستان کا مفاد ان کے لیے غیراہم ہو چکا۔ قومی اداروں کی تذلیل اب ان کا وتیرہ ہے۔ اگر خان صاحب حکمران نہیں تو پاکستان کا وجود ان کے لیے بے معنی ہے۔ میرا احساس ہے کہ کلٹ کی نفسیات خطرناک صورت اختیارکر چکی ہے۔ اس غیرمتوازن ذہنی کیفیت کے ساتھ وہ نادانستگی میں ملک کے مفاد کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ میں اس صورتحال کو تبدیل نہیں کر سکتا مگر یہ خواہش کر سکتا ہوں کہ تحریک انصاف کے مقامی وابستگان اس سوال پر غور ضرور کریں۔
مجھے پاکستان تحریک انصاف کی مشکلات کا اندازہ ہے۔ ان کے تنظیمی مسائل ہیں۔ اس وقت پالیسی سازی کا کوئی فورم ہے اور نہ طریقہ کار۔ سب سے بڑھ کر خان صاحب کی افتادِ طبع ہے جسے وہی پالیسی سازگار لگتی ہے جو بیرونِ ملک رہنے والوں نے اپنائی ہے۔ وہ کسی دوسرے کو فیصلے کا حق دینے کے لیے بھی تیار نہیں۔ ان مشکلات کے باوصف تحریک انصاف کو اگر بطور سیاسی جماعت زندہ رہنا ہے تو اسے اپنی حکمت عملی میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ سب سے اہم تبدیلی یہ کہ اس کے فیصلے پاکستان میں ہوں‘ اس ادراک کے ساتھ کہ اداروں کے ساتھ اختلاف کے باجود انہیں بہرحال ان ہی کے ساتھ معاملات کو طے کرنا ہے۔
اس سے بڑھ کر کوئی سوچ احمقانہ نہیں ہو سکتی کہ پاکستان کے اداروں کی تذلیل کر کے‘ انہیں امریکی صدر کے سامنے جھکا کر‘ ان کے ہاتھوں سے اقتدار لیا جا سکتا ہے۔ جو یہ سوچتا ہے وہ سیاست کے ابجد سے بھی واقف نہیں ہے۔ امریکہ زیادہ سے زیادہ وہی کچھ کر سکتا ہے جو اس نے مشرف صاحب اور بینظیر صاحبہ کے معاملے میں کیا تھا۔ آج بھی وہ ڈیل ہی کرا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ڈیل ہی سے اقتدار میں آنا ہے تو براہِ راست کیوں نہیں‘ امریکی ثالثی سے کیوں؟ فی الحال میں اس تضاد سے دانستہ صرفِ نظر کر رہا ہوں کہ جس نے رجیم چینج کرایا‘ اسی سے ایک بار پھر رجیم چینج کی بھیک کیسے مانگی جا سکتی ہے؟ جس کی غلامی سے نجات حاصل کرنی ہے‘ اس سے انصاف کی درخواست کا کیا جواز ہے؟ کلٹ کی نفسیات میں یہ سوالات بے معنی ہیں۔ اس میں لیڈر ہی حق ہوتا ہے۔ اس کے اقدامات کی حکمت کو ایک عامی نہیں سمجھ سکتا۔ یہ نفسیات تحریک انصاف کے لیے سب راستے بند کر رہی ہے‘ جس کا کوئی ادراک بیرونِ ملک مقیم محبانِ خان کو نہیں ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو اس معاملے میں سنجیدگی دکھانا ہو گی۔ انہیں ملک میں پارٹی کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ ایک بڑے ووٹ بینک کے باوجود اگر اس کی سیاست بے نتیجہ رہتی ہے تو یہ اس کی بڑی ناکامی ہوگی۔ پارٹی مفاد کے ساتھ انہیں پاکستان کے مفاد کو بھی دیکھنا ہو گا۔ انہیں کلٹ بن کر نہیں‘ سیاسی جماعت بن کر سوچنا ہو گا۔ سیاست راستہ نکالنے کا نام ہے۔ یہ اپنی قوت کو مزید نقصان سے بچانا ہے۔ بیرونِ پاکستان سے سوشل میڈیا کے ذریعے جو کچھ آ رہا ہے اور پاکستان میں رہنے والے محبانِ خان اسے جس طرح بغیر سوچے سمجھے پھیلا رہے ہیں‘ یہ پاکستان کے مفاد میں ہے نہ تحریک انصاف کے مفاد میں۔ پارٹی کی قیادت کو ٹھہر کر اس کا جائزہ لینا چاہیے۔
نفرتوں کو انتہا تک لے جانا آسان ہوتا ہے مگر پھر واپس آنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ الطاف حسین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہ لیڈر سے مرشد بنے اور پھر ان پر سب دروازے بند ہوتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ وہ مخبوط الحواس ہو گئے۔ یہ تحریک انصاف سے اخلاص کا تقاضا ہے کہ عمران خان کو الطاف حسین بننے سے بچایا جائے۔ سیاست میں غلط اور صحیح کی بنیاد پر فیصلے نہیں ہوتے۔ یوں بھی غلط اور صحیح کا تعین موضوعی معاملہ ہے‘ اِلا یہ کہ کسی کے حق میں خدا کی طرف سے کوئی برہان آجائے۔ ختمِ نبوت کے بعد یہ دروازہ بند ہو چکا۔ سیاست طاقت کا کھیل ہے جس میں حکمت سے راستہ نکالا جاتا ہے۔ اس ہنر کو سیکھنا ہی سیاست ہے۔
عالمی طاقتوں کو ملکی معاملات میں مداخلت کی دعوت دینا یا اس پر خوشی کا اظہار ایک خطرناک کھیل ہے۔ امریکہ کوئی بنانا ریاست نہیں کہ بائیڈن اور ٹرمپ کی حکمت عملی میں جوہری فرق ہو۔ جو لوگ عمران خان صاحب کے حق میں بول رہے ہیں انہیں انسانی حقوق سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ایسا ہوتا تو غزہ میں ہونے والے مظالم پر وہ سب سے بلند آہنگ ہوتے۔ جو اسرائیلی مظالم کے معاملے میں خاموش رہے اور پاکستان کے 'مظالم‘ پر دن میں تین تین بار واویلا کرے‘ اس کے بارے میں متنبہ ہونا چاہیے کہ اسے انسانوں سے نہیں‘ کسی اور سے محبت ہے۔ اس کا مقصد انسانی حقوق کا تحفظ نہیں‘ کچھ اور ہے۔ پاکستانی جو گرمجوشی‘ اب خان صاحب کے لیے دکھا رہے ہیں‘ اگر اس کا اظہار پاکستان کے لیے کیا جاتا تو آج امریکہ میں بھارتی لابی اتنی توانا نہ ہوتی۔ پاکستان کے مفادات مجروح ہوتے رہے مگر کسی کے جذبات میں اُبال نہیں آیا۔ اسے بھی گوارا کیا جا سکتا ہے مگر یہ اُبال اگر پاکستان کو امریکہ میں بدنام کر نے کا باعث بن رہا ہے تو یہ سب سے زیادہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے پریشان کن ہونا چاہیے۔
پاکستان تحریک انصاف قیادت کے لیے یہ اہم گھڑی ہے۔ اسے فیصلہ کرنا ہے کہ اس نے اپنا مقدمہ اسلام آباد میں لڑنا ہے یا واشنگٹن میں؟ بارِ دگر گزارش ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلے بھی ایسے لوگ آئے ہیں جن کی روشن مثالوں سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ مولانا مودودی ایوب خان کے عہدِ آمریت میں اس کے ظلم سے ستائے ہوئے سعودی عرب کے دورے پر گئے تو اہلِ صحافت نے ان سے پاکستان کے بارے میں سوال کیا۔ جواب دیا: 'میں پاکستان کے مسائل پاکستان چھوڑ آیا ہوں‘۔ عمران خان صاحب کے سامنے بھی دو مثالیں ہیں: الطاف حسین اور مولانا مودودی۔ پاکستان تحریک انصاف کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ اس نے عمران خان کو کیا بنانا ہے؟ اس فیصلے کے لیے ناگزیر ہے کہ فیصلہ سازی کی باگ اس کے ہاتھ میں ہو۔
تحریک انصاف کو کچھ ہاتھ ایک خطرناک وادی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ اس کی قیادت کو ہوش کے ساتھ معاملات کو سنبھالنا ہوگا۔ وہ کہیں اس بوڑھی عورت کی طرح نہ ہو جائے جس کے بارے میں قرآن مجید نے بتایا کہ وہ برسوں سوت کاتتی رہی اور پھر اسے خود اپنے ہی ہاتھوں سے ریزہ ریزہ کر دیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved