تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     29-12-2024

مذاکرات سے اُمیدیں

یہ سال 2024ء‘ جو گزرنے والا ہے‘ جاتے جاتے پاکستان تحریک انصاف اور حکومتی اتحاد کے درمیان مذاکرات کی میز سجا گیا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایار صادق کے زیر نگرانی فریقین کی مذاکراتی ٹیمیں پہلی بیٹھک کر بھی چکی ہیں۔ اعلان ہے کہ دو جنوری سے یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہو گا اور کسی وقفے کے بغیر جاری رہے گا۔ عمران خان صاحب سے یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ جنوری کے آخر تک اسے کسی نتیجے تک پہنچ جانا چاہیے۔ جو حضرات کمیٹیوں میں شامل ہیں‘ اُن کی طرف سے بڑی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ وہ کوئی غیرمحتاط بات کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔ حکومتی اتحاد کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی ہیں تو جنابِ خان نے صاحبزادہ حامد رضا کو یہ ذمہ داری سونپی ہے۔ دونوں اینکروں اور رپورٹروں کی زد میں ہیں‘ سوالات نما تیروں کی بوچھاڑ ہو رہی ہے لیکن وہ پہلو بچاتے پائے جاتے ہیں‘ گویا اُمید کا چراغ بجھانے کی ذمہ داری لینے پر تیار نہیں ہیں۔ جو لوگ مذاکرات میں شریک نہیں ہیں‘ وہ البتہ حسبِ معمول گرجتے برستے نظر آتے ہیں۔ ان کی بلا سے: کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے۔
دو جنوری کو پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم اپنے مطالبات کو تحریری صورت میں پیش کرے گی۔ یہ مطالبات جو بھی ہوں اور انہیں جن الفاظ میں بھی لکھا جائے‘ بنیادی بات یہ ہے کہ انگریزی محاورے کے مطابق: ''جہاں ارادہ ہو‘ وہاں راستہ نکل آتا ہے‘‘۔ عمران خان کا بڑا واضح اور شدید موقف رہا ہے کہ وہ اپنے حریف سیاستدانوں سے بات چیت کو کارِ لاحاصل سمجھتے ہیں۔ ان کا بار بار کہنا تھا کہ وہ انہی سے بات کریں گے جن کے ہاتھ میں اختیار ہے اور اختیار ان کے خیال میں ''مقتدرہ‘‘ کے پاس ہے۔ ان کے نزدیک موجودہ حکومت کی حیثیت ایک کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں۔ لگاتار اس نقطہ نظر کے اظہار اور اس پر اصرار کے باوجود‘ جب 26نومبر کو وہ کچھ نہیں ہو سکا جس کا خواب دیکھا جا رہا تھا تو ایک مثبت ''یوٹرن‘‘ لے لیا گیا۔ حکومتی اتحاد سے مذاکرات کے لیے پیش قدمی یوں کی کہ یکطرفہ طور پر مذاکراتی کمیٹی تشکیل دے دی۔ اس کے جواب میں حکومت کو بھی قدم بڑھانا پڑا اور اس نے طوعاً و کرہاً اپنی کمیٹی بھی اناؤنس کر دی۔ اس میں مسلم لیگ(ن) تنہا نہیں ہے‘ اس کے تمام اتحادیوں کے نمائندے شامل ہیں‘ گویا معاملہ پھیل گیا ہے۔ اب جو بھی نتیجہ نکلے گا اس کی ذمہ داری کسی ایک کے سر پر نہیں ہو گی‘ تمام جماعتوں کو اس کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔
عدم اعتماد کی تحریک منظور ہونے کے بعد عمران خان کے سامنے ایک راستہ تو یہ تھا کہ وہ اپنے اعصاب قابو میں رکھتے اور کڑوا گھونٹ پی کر آئندہ انتخابات کی تیاری شروع کر دیتے۔ حالات معمول پر رہتے تو سفر ہموار رہتا اور وہ آئندہ انتخابات میں قسمت آزمائی کا منصفانہ موقع حاصل کر لیتے۔ انہوں نے یہ راستہ نہیں اپنایا‘ احتجاجی سیاست پر توجہ مرکوز کر لی۔ قومی اسمبلی سے استعفے دے کر سڑکوں پر نکل آئے۔ احتجاجی سیاست نو مئی تک لے گئی‘ جب فوجی اور قومی تنصیبات پر حملے ہوئے تو قومی سیاست اندھا موڑ مڑ گئی۔ نو مئی کو جو کچھ ہوا‘ وہ ہماری تاریخ کا ایک انتہائی سیاہ باب ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں کسی سیاسی عنصر نے اس طرح کی حرکت نہیں کی تھی۔ مارشل لاؤں کے طویل ادوار میں بھی فوجی تنصیبات کا رُخ نہیں کیا گیا‘ ان پر حملہ آور ہونے کی کوشش نہیں کی گئی۔ نو مئی کو جو کچھ ہوا‘ اگر اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا جاتا تو اس کے نتیجے میں جو ہوتا چلا جاتا‘ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بھی دل لرز جاتا ہے۔ جو نقصان ہوا تھا اس کا ازالہ کرنے کے لیے فوری طور پر اس سے اعلانِ لاتعلقی کیا جاتا اور جن غیر ذمہ دار عناصر نے اس کا ارتکاب کیا تھا‘ ان کے خلاف کارروائی کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کی جاتی تو پھر بھی معاملہ سنبھالا جا سکتا تھا‘ نقصان کو کم کرنے کی کوشش کی جا سکتی تھی لیکن بدقسمتی سے اسے ''فالس فلیگ آپریشن‘‘ کا نام دیا گیا‘ گویا تحریک انصاف کو پھنسانے کے لیے خفیہ اداروں نے خود ہی یہ سب حرکات کر ڈالی تھیں۔
یہ الزام ایسا تھا جس نے فضا میں مزید تلخی گھولی اور قومی سیاست داغدار ہوتی چلی گئی۔ آٹھ فروری کے انتخابات اور 26نومبر کے واقعات سب اس سے آلودہ ہو گئے۔ بہت کچھ ایسا ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی ہی کو نہیں‘ جسدِقومی کو نقصان اٹھانا پڑا۔ نو مئی کے ملزموں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کا فیصلہ ہوا‘ انہیں اب سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔ عمران خان اور ان کے کئی رفقا جیل میں ہیں‘ ان پر اَن گنت مقدمات قائم ہیں‘ اتنی بڑی تعداد میں مقدمات کی نظیر ڈھونڈی نہیں جا سکتی۔ اس سے ماحول مزید تلخ ہوا ہے‘ خان صاحب اور ان کے رفقا انتقامی کارروائیوں کی دہائی مچا رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حالات پیچیدہ ہو چکے ہیں‘ فریقین کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات نے بگاڑ کو بڑھاوا دیا ہے۔ کس نے کس مقام پر کیا غلطی کی‘ اپنا اور دوسروں کا کیا نقصان کیا‘ اس کا جائزہ لینے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے جو کچھ ہو چکا ہے‘ اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ تمام تر خرابی کے باوجود اس حقیقت کا انکار ممکن نہیں کہ عمران خان آج بھی ایک بڑی سیاسی قوت ہیں۔ قومی اسمبلی میں ان کی جماعت حزبِ اختلاف کا کردار ادا کر رہی ہے تو خیبرپختونخوا میں حکومت اس کے پاس ہے اور اسے وہاں کے عوام کی وسیع تر حمایت حاصل ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کی بھاری تعداد بھی خان سے جڑی ہوئی ہے اور ان کے حق میں مہم چلا رہی ہے۔ امریکہ‘ برطانیہ اور یورپی یونین سے ان کے حق میں جو آوازیں بلند ہو رہی ہیں‘ ان کے پیچھے وہاں کے پاکستانی نژاد شہریوں کی سرگرمیاں ہیں۔ نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ سے توقعات قائم کر لی گئی ہیں کہ وہ عمران خان کی رہائی کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔ ان کے خصوصی ایلچی رچرڈ گرینیل تو باقاعدہ مہم کا آغاز کیے ہوئے ہیں‘ اُٹھتے بیٹھتے عمران خان کی مالا جپ رہے ہیں جیسے پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے ہوں۔ خان کے دیوانے پاکستانی امریکیوں سے انہیں دامے‘ درمے‘ سخنے داد مل رہی ہے۔ ایسے ماحول میں پاکستانی ریاست اور سیاست کے جملہ ذمہ داروں کو سنجیدگی سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
تحریک انصاف اور حکومتی اتحاد کو اپنے اپنے طور پر جائزہ لینا چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کیلئے کیا آسانی پیدا کر سکتے ہیں جو معاملات عدالتوں میں طے ہونے ہیں انہیں عدالتوں پر چھوڑ دیا جائے تو بھی جہاں انتظامی اقدامات سے ماحول بہتر بنایا جا سکتا ہے وہاں ایسے اقدامات کر گزرنے چاہئیں۔ خان صاحب اگر احتجاجی سیاست کو خیرباد کہہ دیں تو پھر ان کیلئے آسانیاں فراہم کرنے میں تنگ دلی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ ماضی کے بجائے مستقبل پر نظر رکھی جائے تو حالات کو سنبھالنے میں مدد ملے گی۔ دھرنا سیاست کا بہرقیمت سدِباب ہونا چاہیے۔ جو شخص یا جماعت جب چاہے‘ جہاں چاہے اور جس طرح چاہے دھرنا دے کر بیٹھ جائے یا ملک بھر سے اپنے کارکن اکٹھے کر کے اسلام آباد پر دھاوا بول دے‘ یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے یا اسے کسی نظم و ضبط کا پابند بنانا چاہیے۔ بے لگام احتجاج‘ جس سے اجتماعی زندگی میں خلل پڑے اور معیشت کو نقصان اٹھانا پڑے‘ وہ جمہوریت کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔ آئندہ انتخابات کے انتظامات پر اگر فریقین اتفاق کر لیں‘ انکا منصفانہ انعقاد یقینی بنا لیا جائے‘ ایک دوسرے کی شکایات کو مدِنظر رکھ کر اقدامات پر اتفاق کر لیا جائے تو حالات کو ساز گار بنایا جا سکتا ہے۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور زندہ رہنے کا حق دینے کا نام ہی جمہوریت ہے‘ اس کی بہرطور حفاظت کی جانی چاہیے۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دُنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved