تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     29-12-2024

سرحد پار دہشت گردوں کے خلاف کارروائی

پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کا سنگین مسئلہ طویل عرصہ سے ایک چیلنج کی صورت میں موجود ہے۔ پاکستان نے بارہا افغانستان کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ دہشت گردی دونوں ملکوں کیلئے خطرہ ہے اور اس مسئلے کا حل مشترکہ کوششوں سے ہی ممکن ہے۔ اس مقصد کیلئے کابل میں مذاکرات کے کئی دور بھی ہوئے۔ پاکستانی علما کا وفود بھی افغانستان بھیجا گیا تاہم افغانستان اپنی سرزمین پر موجود دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس کارروائی سے انکاری رہا۔ یہ عناصر پاکستان میں دہشت گردی کرکے افغانستان میں اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں جا چھپتے ہیں اور یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی۔ پاکستان کی خواہش تھی کہ افغان عبوری حکومت کے تعاون سے اس مشترکہ مسئلے کو پُرامن طریقے سے حل کیا جائے۔ اس مقصد کیلئے پاکستان کی طرف سے افغان عبوری حکومت کو افغانستان میں دہشت گردوں کی موجودگی اور ان کی سرگرمیوں سے آگاہ کیا گیا اور ان کے خلاف کارروائی کی درخواست کی گئی لیکن افغانستان کی طرف سے ان کوششوں کا کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔ اس سے واضح ہو گیا کہ افغان حکومت ان دہشت گردوں کی حامی ہے۔ اس کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ امن پسند پالیسی پر عمل کیا اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا لیکن حالیہ دنوں جب بات حد سے بڑھنے لگی اور دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان کی سلامتی اور عوام کی جانوں کو خطرہ لاحق ہوا تو پاکستان کو مجبوراً اپنے دفاع کیلئے اقدامات کرنا پڑے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ سرحد کے قریب حالیہ برسوں میں شدت پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی اور داعش خراسان جیسے خطرناک گروہوں نے اس خطے کو اپنا اڈا بنایا ہوا ہے‘ جہاں سے پاکستان کے اندر حملے کیے جاتے ہیں۔ افغان قیادت یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ داعش خراسان افغانستان اور پاکستان کیلئے یکساں خطرہ ہے کیونکہ اس کے حملوں کا دائرہ دونوں ملکوں تک پھیلا ہوا ہے۔ یہاں داعش خراسان سے واقفیت بھی ضروری ہے۔ افغان طالبان‘ القاعدہ اور ٹی ٹی پی کے منحرف اراکین نے 2015ء میں داعش خراسان تشکیل دی تھی جو دنیا بھر میں متعدد علاقائی شاخوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ داعش نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کیلئے مقامی دہشت گرد گروہوں کو نظریاتی طور پر متاثر کیا اور ان کے اختلافات کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کرتے ہوئے مختلف علاقوں میں جڑیں مضبوط کیں۔ 2013ء میں حکیم اللہ محسود کے مارے جانے کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی کے ذیلی گروہ متحد نہ رہ سکے‘ صرف چند گروہ اُس وقت کے ٹی ٹی پی رہنما فضل اللہ کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ اورکزئی ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ٹی ٹی پی کمانڈر دہشت گرد سعید خان کا فضل اللہ کے ساتھ قیادت اور پیسوں کے معاملات پر اختلاف تھا۔ اس اختلاف کی بنا پر سعید خان نے ٹی ٹی پی چھوڑ دی اور داعش خراسان میں شامل ہو کر داعش کے رہنما ابوبکر بغدادی کی بیعت کر لی۔ یوں کالعدم ٹی ٹی پی کے ایک دھڑے کا داعش کے ساتھ گٹھ جوڑ ہو گیا۔
حالیہ کچھ عرصہ میں پاکستان میں شدت پسندوں کی بڑھتی کارروائیوں کے پیشِ نظر ضروری تھا کہ انہیں مؤثر جواب دیا جائے‘ سو پاکستان نے ان شدت پسند گروہوں کے مذموم عزائم کو خاک میں ملانے کیلئے افغانستان میں کارروائی کی۔ یہ آپریشن انتہائی درستگی اور ہم آہنگی کے ساتھ انجام دیا گیا۔ اس سے کالعدم ٹی ٹی پی اور داعش خراسان جیسے خطرناک گروہوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ جنوبی وزیرستان کے سراروغہ علاقے میں بھی پاک فوج نے ایک اہم آپریشن میں خطے میں حالیہ حملوں میں ملوث درجنوں شدت پسندوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ یہ آپریشنز ماضی سے مختلف تھے کیونکہ اس سے قبل جب پاکستان میں شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائی ہوتی تھی تو وہ افغانستان کے ملحقہ علاقوں میں جا کر پناہ لے لیتے تھے۔ اس بار جب پاکستان میں آپریشن شروع ہوا تو ساتھ ہی یہ بندوبست بھی کیا گیا کہ جب شدت پسند عناصر افغانستان کے ملحقہ علاقوں میں چھپیں گے تو وہاں بھی انہیں نشانہ بنایا جائے گا‘ اس لیے افغانستان میں سرجیکل سٹرائیک کی گئی۔ ان حملوں میں پکتیا‘پکتیکا اور دیگر قریبی علاقوں میں واقع شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ان آپریشنز کے نتیجے میں درجنوں شدت پسند مارے گئے جو بنیادی طور پر ٹی ٹی پی اور داعش خراسان سے وابستہ تھے۔ یہ آپریشنز پاکستان کی جانب سے شدت پسندی کے خلاف جاری جنگ میں اہم سنگ میل ہیں۔ ان آپریشنز کے ذریعے پاکستان نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنی سرحدوں میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ ان آپریشنز کے نتیجے میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آنے کی امید ہے۔
ان آپریشنز سے متعدد اہم شدت پسند شخصیات اور ان کے آپریشنل مراکز کو تباہ کیا گیاہے۔ غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق اس آپریشن میں مرنے والا شیر زمان عرف مخلص یار ٹی ٹی پی کا ایک سینئر کمانڈر تھا جو خودکش بمباروں کی تربیت کرتا تھا۔ یہ پشاور پولیس لائنز مسجد پر حملے کا ماسٹرمائنڈ بھی تھا۔ اس حملے میں ہلاک ہونے والا ابو حمزہ پاکستانی اور افغان نوجوانوں کی دہشت گردی کی سرگرمیوں کیلئے بھرتی اور انہیں سخت گیر بنانے کیلئے جانا جاتا تھا۔ یہ بنوں چھاؤنی پر حملے کا منصوبہ ساز تھا جس میں سکیورٹی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اسی طرح اختر محمد عرف خلیل چند دن پہلے جنوبی وزیرستان میں چیک پوسٹ پر ہونے والے حملے کا منصوبہ ساز تھا۔ شعیب اقبال ٹی ٹی پی کیلئے عمر میڈیا پروپیگنڈا نیٹ ورک چلانے والا میڈیا ماہر تھا جو انتہا پسندانہ مذہبی نظریات پھیلانے اور بھرتی مہموں کا ذمہ دار تھا۔
حالیہ کارروائی میں جب پکتیکا صوبے میں دہشت گردوں کے بڑے ٹھکانے کو نشانہ بنایا گیا تو وہاں ذخیرہ شدہ دھماکہ خیز مواد اور اسلحے کی وجہ سے متعدد دھماکے ہوئے۔ یہ کیمپ خودکش بمباروں کی تیاری اور تربیت کیلئے جانا جاتا تھا اور پاکستان کی قومی سلامتی کیلئے براہِ راست خطرہ تھا۔ عام شہریوں کے جان و مال کے نقصان کو کم سے کم رکھنے کیلئے یہ آپریشن انتہائی درستگی سے انجام دیا گیا۔ پاکستان اور افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں شدت پسند عناصر کے خلاف حملوں سے پاکستان کی اپنی خودمختاری کی حفاظت اور دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کا عزم ظاہر ہوتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف سکیورٹی فورسز کی یہ نئی حکمت عملی ہے جس کے ذریعے سرحدوں کے اندر اور باہر شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے سے پاکستان نے علاقائی استحکام کو یقینی بنانے کے اپنے عزم کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان اقدامات سے دہشت گردی کی حالیہ لہر کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے کیلئے انٹیلی جنس اور محاذ پر موجود فوج کے درمیان ہم آہنگی کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ آپریشنز پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں اور سرحد پار شدت پسندی کا مقابلہ کرنے کیلئے فعال اقدامات کی طرف ایک تبدیلی کو ظاہر کرتے ہیں‘ تاہم ان سے افغان طالبان کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔ اس کارروائی سے قبل پاکستان کی طرف سے افغان طالبان پر اپنی سرزمین سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرنے والے شدت پسند گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی درخواست کی جاتی رہی ہے لیکن اس ضمن میں کوئی عملی کارروائی نہیں کی گئی جس کے بعد پاکستان کو یہ اقدام کرنا پڑا۔ آنے والے دن ان آپریشنز کے وسیع جیو پولیٹکل اثرات اور دونوں پڑوسیوں کے درمیان سفارتی تعامل کے امکان کا تعین کرنے کے حوالے سے انتہائی اہم ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved