ڈرون حملے میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد دائیں بازو اور مذہبی سیاسی پارٹیوں کو ایک بار پھر ملکی سالمیت کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔نہ صرف امریکی سامراج کو آنکھیں دکھائی جارہی ہیں بلکہ نیٹو سپلائی لائن بند کرنے کی دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں۔ فی الحقیقت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کے اتحادی امریکہ اور پاکستان خود داخلی طور پر شدید تضادات، تنازعات اور تقسیم کا شکار ہیں۔ عمران خان کی تمام ’’بڑھک بازی‘‘ کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ ان علاقوں میں نہ صرف یہ کہ پختونخوا حکومت کی سرے سے کوئی رٹ موجود نہیں بلکہ تاریخی طور پر پاکستان کبھی ان علاقوں کو اپنے کنٹرول میں نہیں لاسکا۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں کے آگے کاسۂ گدائی اٹھائے ہوئے یہ شاہی فقیر اب ان اداروں کی اصل سربراہ سامراجی قوتوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں جن کے بینکوں میں ان کی لوٹ مارکی تمام تر ’’جمع پونجی‘‘ پڑی ہے اور جہاں انہوں نے پاکستانی عوام کا خون پسینہ نچوڑکر اثاثوں اورجائیدادوں کے انبار لگا رکھے ہیں۔پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری کے ان ٹھیکیدار وں کواس ملک کی معیشت اور سیاست پر اتنا اعتبار بھی نہیں ہے کہ اقتدار میں رہ کر بھی اپنی دولت کو یہاں محفوظ سمجھ سکیں۔پرانی کہانیوں میں دیو کی جان کسی طوطے میں ہواکرتی تھی۔ موجودہ اور سابق پاکستانی حکمرانوں کی جان فرینکفرٹ، زیورچ، نیویارک اور لندن کے بینکوں کی تجوریوں میں ہے۔سامراجی آقائوں کو اس حقیقت کا مکمل ادراک ہے اور وہ بدعنوانی، استحصال اور کرپشن سے حاصل کردہ دولت کو اپنے بینکوں میں تحفظ دے کر حکمرانوں کی زندگی اورموت کے مالک بنے ہوئے ہیں۔نوازحکومت کے اس بیان کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ امریکی ڈرون حملوں پر ظاہری احتجاج اور خفیہ اتفاق کی پالیسی ترک کر دی گئی ہے۔ایسی بیان بازی دراصل چور کی داڑھی میں تنکے کے مترادف ہے۔حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ایک طرف ڈرون حملے اور سامراجی استحصال جاری ہے تو دوسری طرف یو ایس ایڈ کا بڑا چرچا ہے ۔ جو حکمران اپنے سر درد کا علاج بھی سامراجی ممالک کے مہنگے ترین ہسپتالوں میں کرواتے ہیں وہ اس ملک کے عوام کو علاج کی سہولتیںکیسے فراہم کر سکتے ہیں؟ جن کے اپنے بچے یورپ اور امریکہ میں پڑھتے ہیں وہ غریبوں کے بچوں کو تعلیم کا حق کیسے دے سکتے ہیں؟ جن حکمرانوں کی بیگمات شاپنگ کے لئے اپنے نجی جیٹ طیاروں میں ہر صبح دبئی جاتی ہیں اور شام کو پر تعیش اشیاکے انبار لئے اپنے پاکستانی محلات میں واپس لوٹتی ہیں وہ ملک کے غریب لوگوں کے لئے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کیسے کریں گے۔اس ملک کے حکمرانوں اور عوام کی زندگیوں میں اتنا فرق ہے کہ حکمران کسی اور سیارے کی مخلوق معلوم ہوتے ہیں۔یہاں ایک نہیں دو پاکستان ہیں۔ امیر کسی اور پاکستان میں رہتے ہیں اور غریبوں کا پاکستان کوئی اور ہے۔ان دونوں طبقات کے مفادات متضاد اور اقدار مختلف ہیں۔بعض اوقات جوش خطابت میں حکمرانوں کے منہ سے بھی سچ نکل جاتا ہے۔حال ہی میں ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے شہباز شریف یہ فرما گئے کہ ’’اس ملک میں دو قومیں بستی ہیں۔ ایک غریبوں کی قوم ہے اور دوسری امیروں کی قوم ہے‘‘۔ تقاریر میں ’’جوش خطابت‘‘میں دیے گئے اپنے بعض دوسرے بیانات کی طرح اس بیان پر بھی چھوٹے میاں صاحب بعد میں پشیمان تو ہوئے ہوں گے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ ایک بہت بڑا سچ ہے ۔ مذہبی شدت پسندوں کے لئے ڈرون حملوں سے زیادہ اچھی خبر کوئی نہیں ہوسکتی۔ ان کی تمام تر سیاست آج کل ڈرون حملوں کے گرد ہی گھوم رہی ہے۔ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی موت بھی کالے دھن کی معیشت پر پلنے والے بنیاد پرست عناصر کے لئے اپنا کاروبار چمکانے کا سنہری موقع ہے۔ ’’امت مسلمہ‘‘ اور ’’اسلامی مملکت‘‘ کا نعرہ لگانے والے مذہبی سیاستدانوں اوردانش وروں پر یہ حقیقت شاید ابھی تک آشکار نہیں ہوپائی کہ پاکستان تاریخ کی سب سے زیادہ خون ریز فرقہ واریت کی لپیٹ میں ہے۔ فرقے ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ایک فرقے کا مولوی دوسرے فرقے کو کافر اور قابل گردن زنی قرار دے رہا ہے۔گلی محلوں کی دیواروں پر کفر کے فتوے لکھنے کے لئے جگہ کم پڑ چکی ہے ۔قوم پرست سیاستدان دوسری قومیتوں کے خلاف نفرت اور دشمنی کے جذبات ابھارکر سیاست چمکاتے ہیں۔یہ کدورتیں، یہ عناد، یہ نفرتیں کراچی سے لے کر پشاور تک اپنا اظہار ملکی تاریخ کی بدترین قتل و غارت گری اور خونریزی کی شکل میں کر رہی ہیں۔جہاں یہ خونی تضادات اور فرقہ وارانہ فسادات اس ملک کی سماجی بنیادوں میں گہری دراڑیں ڈالتے چلے جارہے ہیں وہاں حکمران عوام کو ان تنازعات اور لڑائیوں میں الجھا کر تقسیم در تقسیم کے ذریعے محنت کشوں کی طبقاتی یکجہتی کو توڑنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔جب تک محنت کش آپس میں دست بہ گریبان رہیں گے حکمرانوں کا اقتدار قائم رہے گا اور وہ اپنی تجوریاں بھرتے رہیں گے، چاہے پورا سماج ہی بربریت کی گہری کھائیوں میں غرق ہوجائے۔ حکمران طبقات ذرائع ابلاغ اور ریاست کے دوسرے اداروں کے ذریعے عوام کو مسلسل قوم، قومی سلامتی، خود مختاری اور ملکی سالمیت جیسی اصطلاحات کے ذریعے گمراہ یا کنفیوز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔حکمرانوں کے لئے ’’قوم‘‘ سے مراد حکمران طبقہ ہوتا ہے اور تمام تر ’’قومی مفادات‘‘ اسی بالادست طبقے کے مفادات ہوتے ہیں۔ پاکستان کے حکمران طبقات پچھلے 66برسوں میں ایک یکجا قوم اور جدید قومی ریاست کی تشکیل میں ناکام رہے ہیں۔آج بھی خیبرپختونخوا، سندھ، بلوچستان ،کشمیر اور کئی دوسرے خطوں میں قومی محرومی کا احساس شدت سے موجود ہے۔یہ قومی سوال سلگ سلگ کر ایک رستا ہوا زخم بن چکا ہے جو بھرنے کی بجائے گہرا ہوتا چلا جارہا ہے۔محنت کش عوام کو غربت، استحصال اور بیروزگاری کے عذابوں میں ڈال کر ’’قومی وقار‘‘ اور ’’ملکی سلامتی‘‘ کے بھاشن دینا ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ یہ درست ہے کہ امریکی سامراج کو چھوٹی اور غیر ترقی یافتہ قوموں کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہونا پڑا ہے۔حالیہ تاریخ کی سب سے عبرتناک شکست سامراجیوں کو ویت نام میں ہوئی تھی لیکن شہباز شریف کے الفاظ میں وہاں ’’غریبوں کی قوم‘‘ سامراج کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ویت نام کے حکمران طبقات بھی امریکی سامراج کے گماشتے تھے جنہیں امریکہ نے جنوبی ویت نام میں الگ ریاست بنا کر دے رکھی تھی۔ویت کانگ گوریلا فوج محنت کشوں اور استحصال زدہ طبقات کے انقلابی نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ویت نام میں امریکی سامراج کی شکست میں امریکی محنت کشوں اور نوجوانوں نے بھی فیصلہ کن کردار کیا تھا اور 1968ء میں واشنگٹن، نیویارک، شکاگو، سان فرانسسکو اور دوسرے شہروں میں جنگ مخالف احتجاجی مظاہروں کی صورت میں عظیم عوام تحریک برپا کی تھی۔ اگر ہم اُس دور کی امریکی اور برطانوی سفارتی دستاویزات کا مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں 1968-69ء کی انقلابی تحریک سے سامراج بہت خوفزدہ تھا۔جائیداد اور ملکیت کے رشتوں کو چیلنج کرنے والی اس تحریک سے سامراجی اثاثوں، سرمائے، مفادات اور استحصال کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا۔آج پاکستان کے عوام حکمرانوں کے ’’سالمیت بھرے درس‘‘ سن کر سامراج دشمن تحریک برپا نہیں کریں گے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حکمرانوں کی ’’ملکی سالمیت‘‘ ایک دھوکہ، فریب اور سراب ہے۔پاکستان کے محنت کش عوام جب طبقاتی بنیادوں پر سامراجی جبرکے خلاف اٹھیں گے تو ان کا ہدف صرف سامراج نہیں ہوگا، وہ مقامی حکمرانوں کے اقتدار اوراستحصال کو بھی پاش پاش کر دیںگے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved