اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت عمیرؓ نے آنحضرتﷺ سے عرض کیا: ''یا رسول اللہ! میں حالت کفر میں اللہ کے مومن بندوں کو شدید تکلیفیں پہنچایا کرتا تھا اور اللہ کی روشنی کو بجھانے میں کوشاں تھا۔ آپﷺ مجھے اجازت دیں کہ میں مکہ جاؤں اور اہلِ مکہ کو اللہ اور اس کے رسول اور دین حق کی طرف دعوت دوں۔ شاید اللہ انہیں ہدایت دے دے۔ اگر انہوں نے اسلام قبول نہ کیا تو جس طرح میں اہلِ حق کو تکلیفیں پہنچایا کرتا تھا‘ اسی طرح دشمنانِ حق کو بھی ایذائیں پہنچاؤں گا‘‘۔ آنحضورﷺ نے حضرت عمیرؓ کو اجازت دے دی اور وہ مکہ چلے گئے۔
دوسری طرف مکہ میں صفوان بن امیہ امید لگائے بیٹھا تھا کہ عمیر بن وہب جلد ہی کوئی خوشخبری لائے گا۔ وہ اہلِ مکہ کو ہر روز بتاتا کہ عنقریب تمہیں ایک خوشخبری سناؤں گا جس کے بعد تم بدر کے غم کو بھول جاؤ گے۔ صفوان ہر قافلے سے عمیر بن وہب کے بارے میں پوچھتا رہتا۔ ایک دن ایک سوار آیا اور اس نے صفوان کو بتایا کہ عمیر تو مسلمان ہوگیا ہے۔ صفوان کو بہت افسوس ہوا اور اس نے قسم کھائی کہ وہ نہ تو عمیر سے کبھی کلام کرے گا اور نہ اسے کوئی نفع پہنچائے گا۔
ابنِ اسحاق لکھتے ہیں کہ حضرت عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ جب مکہ پہنچے تو لوگوں کو کھلے عام اسلام کی دعوت دینے لگے۔ اگر کوئی آپؓ کی مخالفت کرتا تو آپؓ اسے آڑے ہاتھوں لیتے۔ آپؓ کو کسی کا ڈر خوف نہ تھا۔ آپؓ کے ہاتھ پر کثیر تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ یہ ہے اصل انقلاب جو زندگیوں کو بدل دیتا ہے!
یہ واقعہ بھی جنگ بدر سے متعلق ہے اور ولید الاعظمی نے اسے ''المعجزات المحمدیہ‘‘ میں مستند حوالوں سے نقل کیا ہے۔ یہاں کتاب کے اردو ترجمے معجزاتِ سرور عالمﷺ ص: 115تا 116 سے ہم یہ واقعہ من وعن نقل کر رہے ہیں۔ ''واقدی نے بیان کیا ہے کہ ان سے محمد بن ابی حمید نے اور ان سے عبداللہ بن عمر و بن امیہ نے بیان کیا کہ ان کے والد عمرو بن امیہ کو جنگ بدر میں شکست کھا جانے والے مشرکین میں سے ایک شخص نے بتایا کہ اس شکست پر انہیں از حد تعجب ہوا۔ وہ شکست کھا کر مکے کی جانب بھاگ رہے تھے اور دل میں کہہ رہے تھے کہ ایسی ہزیمت تو عورتیں ہی اٹھا سکتی ہیں‘‘۔
ایک اور شخص قباث ابن اشیم الکنانی بھی کہا کرتا تھا کہ اس نے جنگ بدر میں مشرکین کے ساتھ شرکت کی۔ اس کا بیان ہے: میں نے دیکھا محمدﷺکے ساتھی بہت کم ہیں اور ہماری فوج پیادہ اور گھڑ سوار بہت زیادہ اور طاقتور ہے۔ پھر میں نے شکست کا منظر دیکھا اور بھاگنے والوں کے ساتھ میں بھی بھاگ نکلا۔ میں نے مشرکین میں سے ہر ایک کے چہرے کی طرف دیکھا اور اپنے دل میں کہا: ''ایسی شکست تو میں نے کبھی نہیں دیکھی یوں تو عورتیں ہی بھاگتی ہیں‘‘۔
میں بھاگتا جا رہا تھا اور ڈر رہا تھا کہ کہیں پکڑا نہ جاؤں۔ عام راستہ چھوڑ کر میں نے غیر معروف راہ لے لی۔ غیقہ کے مقام پر مجھے اپنی قوم کا ایک شخص ملا اور اس نے مجھ سے حال واحوال پوچھا۔ میں نے کہا: ''کیا پوچھتے ہو؟ ہمارے بہت سے لوگ تہِ تیغ ہوئے ہیں اور بہت گرفتار کر لیے گئے ہیں اور ہم نے بہت بری طرح شکست کھائی ہے۔ کیا تم مجھے سواری پر بٹھا لو گے؟‘‘ اس نے مجھے سواری پر بٹھا لیا اور زادِ راہ بھی دیا۔ ہم جُحفہ پہنچ گئے۔ پھر میں مکہ میں داخل ہوا۔ مکہ میں داخل ہونے سے قبل میں نے غمیم کے مقام پر حیسمان ابن حابس الخزاعی کو دیکھا۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ جلد مکہ پہنچ کر قتل عام کی اطلاع دے گا۔ میں نے سوچا کہ اچھا ہے‘ یہ بری خبر مجھ سے پہلے مکہ کے لوگ اس کی زبان سے سن لیں۔ میں رک گیا اور وہ مجھ سے پہلے مکہ میں داخل ہوگیا۔ اس نے اہلِ مکہ کو ان کے مقتولین کی خبر سنائی۔ وہ رونے پیٹنے لگے اور ساتھ ہی خزاعی کو گالیاں دینے لگے کہ اس نے انہیں خیر کی کوئی خبر سنانے کے بجائے ان کی کمر توڑ دینے والی خبر سنائی ہے‘‘۔
قباث بیان کرتے ہیں کہ جنگ خندق کے بعد میرے دل میں کچھ تبدیلی پیدا ہوئی۔ میں نے سوچا کہ مدینہ جاؤں اور دیکھوں کہ محمدﷺ کیا کہتے ہیں۔ میرے دل میں اسلام کی جانب میلان پیدا ہو گیا تھا۔ میں نے وہاں پہنچ کر آنحضورﷺ کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے مجھے بتایا کہ آپﷺ مسجد کی دیوار کے سائے میں بیٹھے ہیں۔ آپ کے ساتھ صحابہؓ کی جماعت بھی تھی۔ میں وہاں پہنچ گیا۔ میں صحابہ کرام کے درمیان آپﷺ کو پہچان نہ سکا۔ سلام کیا تو آنحضورﷺ نے فرمایا: ''اے اشیم کے بیٹے قباث تُو نے بدر کے دن کہا تھا کہ ''ایسی شکست تو میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ یوں تو عورتیں ہی بھاگتی ہیں‘‘۔ میں نے آپﷺ کی زبان سے یہ جملہ سنتے ہی کلمہ شہادت پڑھا اور کہا: ''میں نے یہ بات دل ہی دل میں کہی تھی اور کسی کے سامنے کبھی اس کا اظہار نہیں کیا تھا۔ اگر آپ اللہ کے نبی نہ ہوتے تو اس واقعہ کی اطلاع آپ کو ہرگز نہ ملتی۔ آپ کو یہ اللہ ہی نے بتایا ہے۔ آپ اپنا ہاتھ بڑھائیں تاکہ میں بیعت کروں۔ چنانچہ آپﷺ نے میرے سامنے اسلام کے بنیادی اصول و تعلیمات پیش فرمائیں اور میں داخلِ اسلام ہو گیا۔‘‘ (تفصیلات کے لیے دیکھیے: سیرۃ ابن ہشام‘ القسم الاول‘ ص: 661 تا 662)
جنگ بدر کے متعلق قرآن پاک میں مکی دور میں بھی اللہ نے معجزات کا ذکر کیا ہے۔ اس وقت ان بشارتوں پر مسلمان خوش تو ہوتے تھے اور انہیں یقین بھی تھا کہ یہ ہو کر رہے گا‘ مگر سوچتے تھے کہ یہ کب اور کیسے ہوگا۔ البتہ کفار تو قرآنی آیات کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ سورۂ روم آنحضورﷺ کی نبوت کے پانچویں سال نازل ہوئی۔ اس وقت اہلِ فارس نے رومیوں کو بدترین شکست سے دوچار کیا تھا۔ سورۂ روم میں فرمایا گیا کہ رومی چند سالوں میں اپنی شکست کا بدلہ لے کر اہلِ فارس پر غالب آ جائیں گے۔ ساتھ ہی فرمایا کہ اور وہ دن وہی ہوگا جب کہ اللہ کی بخشی ہوئی فتح پر مسلمان خوشیاں منائیں گے۔ یہ پیشین گوئی حرف بحرف پوری ہوئی۔ 2 ہجری میں رومی شہنشاہ ہرقل نے فارسیوں کو ذلت آمیز شکست دی اور ان کا آتش کدہ بجھا دیا جس کی وہ پوجا کرتے تھے۔ عین انہی دنوں بدر کے مقام پر اہل ایمان کو بے مثال فتح نصیب ہوئی۔ کفر ساری قوت کے باوجود دم دبا کر بھاگا اور اسلام کی حقانیت رقم ہو گئی جسے دوست اور دشمن سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔
سورۂ قمر بھی دورِ نبوت کے ابتدائی سالوں میں نازل ہوئی۔ اس میں ارشاد فرمایا گیا ہے: ''عنقریب یہ بڑی جماعت شکست کھا جائے گی اور یہ سب (متکبرین) پیٹھ پھیر کر بھاگتے نظر آئیں گے‘‘ (القمر: 45)۔ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہؓ کی روایت ہے‘ آپؓ فرماتی ہیں: ''جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں مکہ میں چھوٹی سی عمر میں کھلونوں سے کھیلا کرتی تھی۔ اسی زمانے میں ہمیں یقین تھا کہ کفار کے لشکر شکست کھا جائیں گے۔ بدر کی لڑائی ہوئی تو آیت کی تفسیر سامنے آ گئی‘‘۔ حضرت عمرؓ نے بھی بیان کیا ہے کہ جب آنحضورﷺ نے بدر سے پہلے اپنی زرہ پہنی تو مجھے یقین ہو گیا کہ اس آیت کا مفہوم کفار کی شکست اور اہلِ ایمان کی فتح ہے۔ (صحیح بخاری‘ عن عبداللہ بن عباسؓ)
سورۂ صٓ بھی مکی زندگی کی ابتدائی سورتوں میں سے ہے۔ اس میں اللہ نے خوش خبری سنائی : یہ جتھوں میں سے ایک جتھا ہے جو اس جگہ شکست کھانے والا ہے (سورۂ صٓ: 11)۔ امام ابن کثیر نے اس آیت کے بارے میں بھی لکھا کہ یہ جنگ بدر کی فتح کی خوش خبری پر مشتمل ہے۔ گویا اللہ رب العالمین نے واضح طور پر بتا دیا تھا کہ کفر مٹ جانے والا ہے اور رسولِ برحقﷺ اپنے دین کو غالب کرنے میں چند سالوں میں کامیاب ہونے والے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved