تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     05-11-2013

بلبلِ صحرا

یہ جولائی 2001ء کی ایک شام تھی۔میں اپنے آنجہانی دوست پی ڈی مہرہ اورپاکستان کے نامور سپوت رفاقت علی خاں کے ساتھ ممبئی میں بھارتی اداکار رنجیت کے گھر کی چھت پر براجمان تھا۔ رنجیت نے ہمارے اعزاز میں ایک مختصر مگر ُپر تکلف عشائیے کا اہتمام کررکھاتھا۔ہم حسب پروگرام مقررہ وقت پر رنجیت کے بنگلہ پرپہنچے تو اس نے پرتپاک انداز سے ہمارا سواگت کیا اورپھر ہمیں لفٹ کے ذریعے چھت پر لے گیا ۔ ممبئی کی جون اورجولائی کی شامیں لاہور جیسی نہیں ہوتیں۔لاہور میںان دنوں سورج سوانیزے پر آجاتاہے مگر ممبئی میں ان دومہینوں میں خوب بارش ہوتی ہے۔اس شام بھی ہلکی ٗ ہلکی پھوار پڑرہی تھی۔رنجیت نے چھت پر باربی کیو کا اہتمام کررکھاتھا۔باربی کیوتیار کرنے والے چولہوں سے اٹھنے والا دھواں،بارش کی پھواراورسوئمنگ پول پر کی گئی لائٹ عجیب نظارہ پیش کررہی تھی۔یوں لگ رہاتھاکہ رنجیت کی چھت کی لائٹنگ ہدایتکار راج کپور نے کرائی ہو اورلوکیشن پر ان کی فلم ’’ستیم شیوم سندرم ‘‘ کی شوٹنگ ہونے والی ہو۔ مجھے یاد ہے میں نے بھارتی میزبان کے اہتمام کی تعریف کرتے ہوئے کہاتھا : لائٹنگ سے لگتاہے ابھی کچھ دیر میں یہاں زینت امان پر ’’بھوربھئی پنگھٹ پہ موہے نٹ کھٹ ستیام ستائے‘‘عکسبند ہوگا۔ رنجیت نے یہ سنتے ہوئے کھل کر قہقہہ لگایاتھا۔ ہم رنجیت کی چھت پر بہت دیر تک بیٹھے رہے۔ شام رات میں ڈھل گئی اورہم نے بہت سی باتیں کیں ۔اس نشست میں پاکستان اوربھارت کے مابین دوستی اوردشمنی کی بنتی بگڑتی مختلف سچویشنز سے لے کر مہدی حسن، غلام علی ،استا دنصرت فتح علی خاں اورریشماں کے سٹارڈم پر بہت سی باتیں ہوئیں۔مجھے یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی تھی کہ بھارت میں ریشماں کی شہرت کا باعث دلیپ کمار صاحب کا یہ بیان بنا تھا جس میں انہوں نے کہاتھاکہ ’’بلبلِ صحرا ریشماں کی آواز میں صحرا کی اداسی ہے‘‘۔دلیپ کمارصاحب کا یہ خراج ِتحسین ریشماںکے فن کے شایان شان تھا۔ دلیپ کمار صاحب نے ممبئی میں ریشماں کو روبرو سنا تو وہ اس سے متاثر ہوئے ۔دلیپ صاحب نے کھلے دل سے ریشماں کے کھرے فن اورسادہ طبیعت کی تعریف کی تو ریشماں راتوں رات ایک ارب سے زائد آبادی کے ملک بھارت کی فیورٹ گلوکارہ بن چکی تھیں۔ریشماں اوراندرا گاندھی کی دلچسپ ملاقات کی روداد سے پہلے آپ کو وہ دلچسپ بات سناتاہوں جو ریشماں سے متعلق رنجیت نے اس رات مجھے بتائی تھی۔ رنجیت نے بتایاکہ 80ء کی دہائی میں،وہ بہت مصروف تھا اوراسے امیتابھ بچن،ونود کھنہ ،راجیش کھنہ اورششی کپورجیسے مین سٹریم ہیروز کے ولن کے طور پر کاسٹ کیاجارہاتھا۔ان فلموں کی ہیروئین زیادہ تر ریکھا ، پروین بوبی اورزینت امان ہواکرتی تھیں۔ رنجیت نے بتایاکہ شوٹنگ کے دوران ہی ہم سب فنکار پروگرام بنا لیاکرتے تھے کہ آج رات کی پارٹی کس کے ہاں ہوگی ؟ یہ پارٹیاں باری ٗ باری سب کے ہاں ہواکرتی تھیں ۔کسی فنکار نے کہنا کہ کھانے کا بندوبست میں کروں گا ٗ کسی کے ذمے ڈرنک ہوتی اورامیتابھ بچن اکثر یہ پیشکش کیاکرتے کہ ریشماں میری طرف سے ہوگی۔اس بات پرمیں نے رنجیت سے پوچھا کہ صرف ایک دن میں امیتابھ بچن ، ریشماں کو پارٹی میں کیسے مدعو کیا کرتے تھے؟مجھے آج بھی یاد ہے رنجیت نے میری بات سن کر قہقہہ لگاتے ہوئے کہاتھاکہ ’’پاپے …پاگل ہوگئے ہو…ریشماں کو کہاں سے مدعو کرنا تھا،وہ تو پاکستان میں ہوتی تھی ہم سب فنکار ریشماں کی کیسٹ سننے کے لئے پارٹی پر اکٹھا ہواکرتے تھے۔سارے فنکار ریشماں کے فینز (پرستار) تھے۔امیت جی (امیتابھ بچن)کے پاس ریشماں کی ساری کیسٹزہوتی تھیں ۔یہ پاکستان اوردبئی سے ریشماں کی کیسٹیں منگواتے رہتے تھے اورہم سب مل کر پارٹی کرتے جس میں ریشماں کو سنتے اورسر دھنتے تھے‘‘۔ بھارتی فلم انڈسٹری میں آنجہانی پرتھوی راج کپور نے محفل موسیقی سجانے کا رواج ڈالاتھا۔ان کے ہاں استاد بڑے غلام علی خاں،استاد مبارک علی خاں استاد فتح علی خاںاوراستاد نزاکت علی خاں استاد سلامت علی خاں سمیت دوسرے بڑے اساتذۂ فن نغمہ سرا ہوتے رہے۔ استاد مبار ک فتح علی خاں، استاد مبارک علی خاں اوراستاد سلامت استاد نزاکت خاں کی جوڑی کو خصوصی طور پر پاکستان سے بھارت بلایا گیاتھا۔ اس روایت کو ان کے فرزند راج کپور نے بھی جاری رکھا۔دلیپ کمار صاحب کے ہاں محفل موسیقی کے ساتھ ساتھ شاعروں اورادیبوں کو بھی مدعو کیاجاتاتھا۔دلیپ کمارصاحب کی طرف سے پاکستان سے فیض صاحب کو دعوت دی جاتی رہی۔دلیپ صاحب کے چھوٹے بھائی احسن خان نے مجھے بتایا تھاکہ پچاس سے لے کر 80ء کی دہائی تک ہمارے ہاں رت جگے ہوتے رہے جن میں بڑے بڑے گویّوں ،موسیقاروں، شاعروں ، ادیبوں اوردانشوروں کے ساتھ بھائی صاحب(دلیپ کمار) محافل جمایا کرتے تھے اورہم انتظامیہ اورنگران کے طور پر ان کے ساتھ جاگتے رہتے تھے۔80ء کی دہائی کے آغاز میں دلیپ کمار صاحب نے ریشماں کو اپنے ہاں مدعو کیاجہاں پر بلبل ِ صحرا کو بھارتی فلم انڈسٹری کے کیری پیکروں نے سنا۔اس محفل میں دلیپ صاحب نے ریشماں کے لئے کہاتھاکہ ’’بلبلِ صحرا ریشماں کی آواز میں صحراکی اداسی ہے‘‘۔ریشماں کی اداسی میں لپٹی خالص صحرائی آواز کی تشہیربھارتی میڈیا نے دلیپ صاحب کے کہے جملے سے کی تو ریشماں راتوں رات سٹار بن گئیں۔ پاکستانی میڈیا میں ریشماں ساٹھ کی دہائی کے آخر میں متعارف ہوئیں۔اس عظیم فنکارہ کا تعلق بھارت کے صوبہ راجستھان کی تحصیل رتن گڑھ کے چھوٹے سے گائوں لونایا لوہاسے تھا۔گلوکار مہدی حسن کے گاوں کانام بھی لونا تھا۔ ریشماں کے آبائو اجداد خانہ بدوش ڈھاڑی تھے،گانا بجانا، ناچ ، نوٹینکی اورمنڈوا سجانا ان کا پیشہ تھا۔ بیان کیاجاتاہے کہ ریشماں کے آبائواجداد مسلمان صوفیائے کرام کی تبلیغ اورحسن سلوک سے متاثر ہوکرمسلمان ہوئے اورقیام پاکستان کے وقت بھارت سے کراچی آکر آباد ہوگئے۔ ریشماں نے اپنی خاندانی روایات کے مطابق چھوٹی عمرمیں ہی درباروں ،درگاہوں اورآستانوں پر صوفیاکاکلام گانا شروع کردیا۔ سیون شریف حضرت لعل شہباز قلندر ؒ کے عرس کے موقع پر ریشماں قلندر کے حضور معروف لوک صوفی کلام ’’دما دم مست قلندر‘‘ گاتے ہوئے نذرانہ ء عقیدت پیش کررہی تھیں،وہیں ریڈیو پاکستان کے اس زمانے کے جنرل مینجر سلیم گیلانی کی نگاہ انتخاب بنیں۔ریشماں پیدائشی گلوکارہ تھیں ان کی کھلی آواز ، راجستھانی لہجے اوردیسی سٹائل نے سننے والوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔اس پر کمال یہ ہوا کہ کیرئیر کے آغاز میں ریشماں کو استاد نتھو خاں اور تصدق علی خاں جیسے موسیقاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ۔استا دنتھو خاں نے ریشماں سے منظور حسین جھلّا (مرحوم) کا گیت ’’ہائے ربا،نئیں او لگدا دل میر ا،سجناں باجھ ہویا ہنیرا‘‘ گوایا۔یہ ریشماں کا Debutگیت تھا جس نے برصغیر کی موسیقی میں دھوم مچادی تھی۔اس کے بعد تصدق علی خاں نے ریشماں اورپرویز مہدی کی آوازوں میں ’’گورئیے، میں جاناپردیس ‘‘ تیار کیاتو اس دوگانے نے ریشماں کی لوک گائیکی کو سند جاری کردی تھی۔ریشماں سے قبل ہمارے ہاں پنجاب کی لو ک گائیکی کے میدان میں طفیل نیازی، سائیں ظہور، عنایت حسین بھٹی، بالی جٹی،بڈھا شیخ اورعالم لوہار جیسے سٹار سنگرز چھائے ہوئے تھے مگر ریشماں نے ان سب کی موجودگی میں اپنا نام کمایا۔ریشماں کا شمار ان خوش نصیب فنکاروں میں ہوتا ہے جسے عوام کے ساتھ ساتھ حکمرانوں نے بھی پسند کیا۔پاکستان کے فیلڈمارشل اور صدر ایوب خان سے لے کر بھارتی وزیر اعظم اندراگاندھی تک ریشماںکے پرستاروں میں شامل رہے۔ریشماں نے پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے ساری دنیا گھومی ۔ایک اندازے کے مطابق اسرائیل کے علاوہ ریشماں نے دنیا کے ہر قابل ذکر ملک میں درجنوں مرتبہ پرفارم کیا… لیکن اس کے باوجود مرحومہ بہت سادہ طبیعت کی تھیں۔اندراگاندھی سے ملاقات میں ریشماں بھارتی وزیر اعظم کو ساراوقت …بہن جی …آپا جی… اورباجی اندرا گاندھی کہہ کرمخاطب کرتی رہیں۔ریشماں ایسی فنکارہ تھیں جسے بھارت اورپاکستان کے لئے ہمیشہ دوستی کا استعارہ سمجھا گیا۔لاہور سے دہلی کی جانب چلنے والی پہلی دوستی بس میں ریشماں نے پاکستان کی نمائندگی کی تھی …پروردگار !ریشماں کو غریقِ رحمت کرے…آمین۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved