یہ معاملہ صرف گزشتہ کالم کا نہیں ہے۔ میں جب بھی اپنے معاشرے اور اداروں میں پیدا ہونے والے اخلاقی اور مالی معاملات میں انحطاط اور تنزلی کا تذکرہ اپنے کالموں میں کرتا ہوں دوچار مصلح قسم کے قاری مجھے بری طرح رگیدنے کے بعد احساسِ کمتری کا شکار اور مایوسی پھیلانے والا قرار دے کر نہ صرف پاکستانی معاشرے میں بتدریج پیدا ہونے والی اخلاقی اور مالی کرپشن کو کلی طور پر رَد کرتے ہیں بلکہ اس کو نہایت اعلیٰ و ارفع اور شاندار معاشرہ قرار دیتے ہیں۔ تاہم جب ان سے اس سڑے بسے معاشرے میں پیدا ہونے والی نامعلوم اور اَن دیکھی بہتری اور ترقی کے بارے میں کوئی ثبوت یا مثال مانگی جائے تو وہ کوئی مثال یا ثبوت دینے کے بجائے ادھر ادھر کی باتیں شروع کر دیتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا لوگ بینک‘ اس کے منیجر اور عملے پر اندھا اعتبار کرتے ہوئے انہیں اپنی رقوم دے کر چلے جایا کرتے تھے اور اگلے دن اسکی رسید وصولی لے لیا کرتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ یہ اعتبار بھی نمک کی کان میں نمک بن گیا۔ ملتان میں ایک بینک کی بہت بڑی برانچ میں نشتر ہسپتال و میڈیکل کالج کے پروفیسروں اور ڈاکٹروں نے ڈالر اکاؤنٹ کھول رکھے تھے۔ منیجر نہایت اعلیٰ اخلاق کا مالک ہونے کیساتھ ساتھ خاصا چرب زبان اور خوشگوار طبیعت کا حامل اور اپنے ان خاص اکاؤنٹ ہولڈرز کی خدمت کرنے میں بڑا نیک نام تھا۔ ڈاکٹر اور پروفیسر‘ جو ہمہ وقت اپنے پرائیویٹ مریض دیکھنے کی ہڑک میں مبتلا ہونے کے سبب ہمیشہ جلدی میں ہوتے تھے‘ اپنے ڈالر بینک منیجر کو دستی پکڑا دیتے۔ بینک منیجر ان سے ڈالر پکڑ کر دراز میں رکھ لیتا اور ڈیپازٹ سلپ بھر کر دستخط کرکے ان کے ہاتھ میں پکڑا دیتا۔ اگر کوئی ڈاکٹر اس کے پاس اپنے اکاؤنٹ میں سے ڈالر نکلوانے آتا تو وہ ان سے چیک پکڑتا اور دراز میں سے ڈالر نکال کر ان کے ہاتھ میں پکڑا دیتا۔ تمام اکاؤنٹ ہولڈر پروفیسر اور ڈاکٹر صاحبان اپنی اس پذیرائی‘ خصوصی سروس اور پروٹوکول پر بڑے نازاں ہوتے تاوقتیکہ ایک روز کسی ڈاکٹر نے اپنا اکاؤنٹ چیک کیا تو اس میں بیس پچیس ہزار ڈالر کے بجائے دو چار سو ڈالر تھے۔ اس نے رولا مچایا تو باقی ڈاکٹروں کے کان بھی کھڑے ہوئے۔ سب ڈاکٹروں نے اپنے اپنے اکاؤنٹ چیک کرنے کیلئے بینک پر دھاوا بول دیا‘ سب کے اکاؤنٹس پر جھاڑو پھرا ہوا تھا۔ بینک منیجر اندر ہو گیا لیکن حاصل وصول کچھ نہ ہوا اور سب کچھ غتربود ہو گیا۔ ڈاکٹروں نے بھی زیادہ پیروی نہ کی کہ ان کے اصل غبن شدہ ڈالر ان کی انکم ٹیکس ریٹرن سے میچ نہیں کرتے تھے۔ معاملہ ٹھپ ہو گیا‘ لیکن یہ صرف ایک واقعہ ہے اب یہ واقعات عام ہیں۔ بینک آفیسروں کا اعتبار رخصت ہو چکا ہے اور اب آپ کے پیسے بینکوں میں بھی محفوظ نہیں۔
کل کے اخبار میں خبر تھی کہ تھانہ تاندلیانوالہ کی حوالات میں بند تین سگے بھائیوں کو‘ جو گزشتہ پچاسی روز سے پولیس کی ناجائز تحویل میں تھے‘ مخالفین نے تھانے کے اندر آکر حوالات میں ان کوسوتے میں گولیاں مار کر قتل کردیا۔ مقتولین کے ورثا کا کہنا ہے کہ قاتلوں نے پولیس اہلکاروں کے تعاون سے یہ واردات کی اور حوالات کے اندر بند تینوں بھائیوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ پولیس پر اس قسم کے واقعات میں قاتلوں کی سہولت کاری کے پہلے بھی الزامات ہیں۔ تھانے کبھی مجرموں کیلئے جائے عبرت اور مظلوموں کیلئے جائے پناہ ہوا کرتے تھے۔ لیکن اب محافظ خود لیٹرے بن چکے ہیں اور ہم معاشرے کی اخلاقی بہتری کے گن گا رہے ہیں۔
ادھر کل ہی کراچی سے خبر آئی کہ سی ٹی ڈی یعنی کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے انچارج راجہ عمر خطاب کو شہری اغوا کرکے اس سے بھتہ لینے کے جرم میں معطل کر دیا گیا ہے اور اس کام میں اس کے معاون رشتہ دار پولیس افسر ڈی ایس پی راجہ فرخ یونس کو بھی فارغ کر دیا گیا ہے۔ مذکورہ پولیس افسران اپنے سرکل کی پولیس موبائلیں اس قسم کی وارداتوں میں استعمال کرتے تھے۔ آپ اندازہ لگالیں کہ عوام کی حفاظت کیلئے بنائے گئے سرکاری محکموں کے افسران پستی کی کس حد تک گر چکے ہیں اور انہیں جس کام کی روک تھام کیلئے سرکار تنخواہ دیتی ہے وہ اُسی کام میں خود حصہ لے رہے ہیں۔
ماہِ ستمبر میں اس عاجز نے ملتان ٹریفک پولیس کی لوٹ مار پر ایک کالم لکھا تھا کہ کس طرح سرکاری اور پرائیویٹ لفٹروں کے ذریعے روزانہ پچیس چالان فی لفٹر کے مقرر کردہ ٹارگٹ کے مطابق نو لفٹروں سے چار لاکھ پچاس ہزار روپے کی دیہاڑی لگائی جا رہی ہے۔ اس کالم پر تھوڑی سی ہلچل ہوئی اور پانچ عدد پرائیویٹ لفٹروں میں سے دو لفٹر کم کر دیے گئے مگر جیسے ہی ذرا گرد بیٹھی‘ وہ فارغ شدہ دو لفٹر دوبارہ شہریوں کو گاڑی بند کرنے کی محض دھمکی دے کر دو ہزار روپے فی چالان وصول کرکے افسران کی جیبوں میں ڈال رہے ہیں۔ اس جگا گیری کے لیے ہائی کورٹ کے ایک حکم کو آڑ بنایا گیا ہے۔ملتان شہر میں وی آئی پی موومنٹ کے دوران سڑکوں سے گاڑیاں ہٹانے اور اٹھانے کی غرض سے چار عدد لفٹر ٹریفک پولیس کو دیے گئے جو عرصہ دراز تک صرف یہی کام کرتے رہے تاوقتیکہ ملتان پولیس کے موجودہ سربراہ کو ان لفٹروں سے نوٹ چھاپنے کا اچھوتا خیال آ گیا۔ انہوں نے پہلے ان چار لفٹروں کو استعمال کیا اور پھر دکانداری میں تیزی دیکھ کر مزید پانچ عدد لفٹر کرائے پر حاصل کر لیے تاکہ زیادہ سے زیادہ چالان کرکے رقم کھری کی جائے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے اے بی سی سپر سٹور یا ایکس وائی زیڈ سپر مارکیٹ کا مالک گاہکی زیادہ ہونے پر اپنے سیلز مین بڑھا لے۔
مجھے علم ہوا کہ ٹریفک پولیس کا انچارج یعنی سی ٹی او بہتر آدمی ہے اور اس سارے کام میں شاید مجبورِ محض ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیں کہ وہ غنڈوں میں پھنسی ہوئی ایسی رضیہ ہے جو اَب واویلا مچانا بند کر چکی ہے۔ عالم یہ ہے موٹرسائیکل کے دو سو روپے کے چالان کی رقم موبائل ایپ کے ذریعے سرکاری اکاؤنٹ میں جاتی ہے مگر لفٹر کا دو ہزار روپے کا چالان آر پی او کے نام والی رسید بک پر وصول کیا جاتا ہے جس کا نہ کوئی حساب ہے اور نہ آڈٹ۔ اس آمدنی کا سرکار کے کھاتے میں ایک پیسہ بھی جمع نہیں ہو رہا۔ یہ ساری رقم نام نہاد پولیس ویلفیئر فنڈ میں جا رہی ہے۔ بندہ پوچھے اگر ویلفیئر کرنی ہے تو اپنی تنخواہ سے عطیہ کریں نہ کہ عوام کی جیب کاٹیں۔ یا پھر اس چالان کی رقم بھی فون ایپ کے ذریعے سرکاری اکاؤنٹ میں جمع کرائیں تاکہ عوام سے چالان کی مد میں حاصل کی گئی رقم پولیس افسران کی جیب میں جانے کے بجائے کم از کم سرکار کے کھاتے میں تو جائے۔ ایک طرف سرکار 190 ملین پاؤنڈ کی رقم سرکاری کھاتے میں جانے کے بجائے سپریم کورٹ کے جرمانے والی مد میں جمع کرانے کو رو رہی ہے‘ دوسری طرف ایک نام نہاد ویلفیئر فنڈ کی آڑ میں پولیس افسران عوام سے پیسے لوٹ کراپنی جیبوں میں ڈال رہے ہیں اور کسی کو رتی برابر فکر نہیں کہ ملتان میں کیا ہو رہا ہے۔ گزشتہ کالم میں اخلاقی انحطاط کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ پہلے لوگ رشوت وغیرہ کے معاملے میں پردہ رکھتے تھے‘ اور بات پھیلنے پر دائیں بائیں ہو جاتے تھے۔ کبھی سرکاری افسر اخباری خبر سے ڈر کر ہاتھ ہلکا کر لیتے تھے مگر اب دیدہ دلیری کا عالم یہ ہے کہ خبر اور کالم پڑھ کر سرکاری افسر میز پر ہاتھ مار کر کہتا ہے کہ ''اچھا جو کرنا ہے کر لو‘‘۔ ملتان کے اعلیٰ پولیس افسرنے ہمارے ایک دوست سے فرمائشی تعریفی کالم تو لکھوا لیا جس میں کارکردگی کی ڈینگیں ماری گئی ہیں مگر اس فرمائشی کالم میں لفٹروں کی لوٹ مار کا کوئی ذکر نہیں۔ مجھے یقین ہے اس کالم کے بعد بھی ملتان پولیس کے توپ افسر اپنی میز پر ہاتھ مار کر کہیں گے: ''لکھ لو جو لکھنا ہے اور کر لو جو کرنا ہے‘‘ ہمارے لفٹر چلتے رہیں گے۔
اللہ جانے اب اس کالم پر معاشرے کی اعلیٰ اخلاقی روایات اور مالی معاملات کے تقدس کے ثناخوان کیا کہتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved