تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     09-01-2025

غارت گر

جنوری 2020ء کے اواخر میں جب میرے بیٹے کی شادی تھی تو ابتدائی خبریں آ رہی تھیں کہ چین میں ایک مہلک وائرس نے اپنے بازو پھیلانے شروع کیے ہیں۔ گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا‘ ان خبروں کی طرف کسی نے توجہ بھی نہیں کی۔ اندازہ ہی نہیں تھا کہ دنیا کتنے بھیانک دور سے گزرنے والی ہے۔ کسی معمولی سے وائرس پر توجہ کی فرصت بھلا کس کو ہو سکتی ہے۔ بالآخر شادی نمٹی اور مہمان خیر وعافیت کے ساتھ رخصت ہوئے لیکن چند ہی دنوں میں یہ بن بلایا مہمان وائرس پاکستان پہنچ گیا۔ پاکستان سے پہلے دنیا کے دوسرے ملکوں خاص طور پر ہمسایہ ممالک چین‘ بھارت اور ایران میں اس کی تباہ کاریاں شروع ہوئیں۔ اس وقت شاید ہی کسی کو ادراک ہوگا کہ اس وائرس کے بازو اور ٹانگیں کتنی لمبی ہیں اور کرۂ ارض اس کیلئے ایک چھوٹی سی گیند سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔
صرف پانچ سال پہلے کا تصور کریں‘ یعنی 2020ء کا‘ تو یقین ہی نہیں آتا کہ دنیا کووِڈ 19 کے کتنے بڑے آشوب سے گزری تھی۔ اب کیا کسی کو یاد آتا ہے کہ پوری دنیا خوف وہراس کے کمروں میں مقید ہو چکی تھی۔ اپنے کمرے سے قدم نکالتے ڈر لگتا تھا۔ باہر کے لوگوں کا تو ذکر ہی کیا‘ اپنے گھر میں کوئی بیمار ہو جاتا تو خواہ اسے کووِڈ نہ بھی ہو‘ کوڑھیوں کی طرح اس سے پرہیز شروع ہو جاتا تھا۔ ہر روز بھیانک سے بھیانک خبریں آنکھوں تک آ پہنچتی تھیں۔ دکانیں‘ مارکیٹیں‘ طعام گاہیں سب سختی سے بند۔ طیارے زمین پر خاموش کھڑے تھے۔ ایئر پورٹس پر موت کا سناٹا۔ شادی بیاہ‘ تقریبات‘ یونیورسٹیاں‘ کالج‘ سکول سب مقفل۔ عبادت گاہوں کے دروازے بند۔ مسجدوں میں داخلہ ممنوع یا کڑی شرائط کے ساتھ۔ گھروں کو یہ فکر کہ کھانے پینے کی چیزیں کہاں سے لائیں۔ پوری دنیا میں کوئی علاج‘ کوئی ویکسین موجود نہیں۔ مریضوں کا کیا ذکر‘ ڈاکٹر خود بڑی تعداد میں مر رہے تھے۔ جلد ہی انسان کو اپنی بے بسی کا احساس ہونے لگا۔ علاج صرف یہ تھا کہ کسی سے نہ ملیں‘ سارے شہر روپوش‘ ساری دنیا نقاب پوش۔ اور افواہیں‘ خدا کی پناہ! ایسی ایسی افواہیں کہ عام حالات میں ان کا کوئی یقین نہ کرے لیکن اُس وقت ہر انسان یقین کر رہا تھا۔ بڑے بڑے عقلمند یہ کہتے پائے گئے کہ یہ سب جھوٹ ہے‘ ایسا کوئی وائرس ہے ہی نہیں۔ اس نظریے پر بے حساب دلیلیں پیش کی جاتی تھیں۔ میں نے زندگی میں اس طرح کا خوف وہراس کبھی نہیں دیکھا‘ جس میں عوام کی ایک بڑی تعداد یقین کرتی ہو کہ ڈاکٹر جان بوجھ کر لوگوں کو مار رہے ہیں اور حکومت کی ہدایات پر یہ سب ہو رہا ہے۔ خود مجھ سے کتنے لوگوں نے بڑے یقین سے کہا کہ حکومت کو ہر لاش کے بدلے مغربی ملکوں سے ڈالر ملتے ہیں‘ اسی لیے لاشیں ورثا کے حوالے نہیں کی جا رہیں۔ حکومتیں اس ناگہانی کیلئے تیار نہیں تھیں‘ ہسپتالوں کو ایسی صورتحال کا سامنا کبھی کرنا ہی نہیں پڑا تھا اس لیے دوا تو ایک طرف‘ بنیادی ساز وسامان بھی موجود نہیں تھا۔ حکومتیں خود بوکھلاہٹ کا شکار تھیں۔ خوفزدہ حکام افواہوں کی تردید کم ہی کرتے تھے‘ سو افواہیں مزید زور پکڑ لیتی تھیں۔ اگر سوشل میڈیا نہ ہوتا اور دنیا کے ہر ملک کی وہ بھیانک وڈیوز نہ پہنچ رہی ہوتیں جن میں ہسپتالوں میں گنجائش ختم ہونے پر لوگ سڑکوں پر آخری سانسیں لے رہے تھے تو مزید یقین آنے لگتا کہ یہ سب ایک عالمی ڈرامہ ہے۔ امریکہ اور یورپ بدترین صورتحال کا شکار تھے۔ تجوریاں بھری ہونے کے باوجود بے بس تھے۔ ان ملکوں کا پوچھنا ہی کیا جن کی جیبیں ہمیشہ سے خالی چلی آتی تھیں۔
70 لاکھ 10 ہزار 681 اموات۔ یہ وہ تعداد ہے جو کووڈ 19 کے عالمی وائرس کا شکار ہوئی۔ صر ف پاکستان میں 30 ہزار 664 اموات ہوئیں اور کہا جاتا ہے کہ 15لاکھ 38 ہزار 679 لوگ اس کا شکار ہو کر صحت یاب ہوئے۔ یہ بھی کہنے کو صحت یاب ہوئے‘ کتنے ہی لوگ اس کے اثرات سے اب تک نکل نہیں پائے اور پہلے سے بیمار کتنے ہی لوگ ایسی پیچیدگیوں کا شکار ہوئے کہ زیادہ دیر زندہ نہ رہ سکے۔ سو اموات کی تعداد درحقیقت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ کتابوں اور کہانیوں میں پہلے زمانوں میں طاعون کا ذکر پڑھا تھا لیکن اس عالمی وبانے ہر کہانی بھلا دی۔
انسان سے زیادہ بھلکڑ مخلوق شاید اور کوئی نہیں۔ صرف چار‘ پانچ سال پہلے کے اس آشوب کو بھول کر اس طرح زندگی رواں دواں ہے جیسے کبھی یہ دور آیا ہی نہیں تھا۔ کووڈ کے اثرات اب تک بیشمار ملک بھگت رہے ہیں۔ ٹریولنگ اور ایئر لائنز کا شعبہ اب تک سنبھل نہیں پایا۔ کئی ممالک میں افراطِ زر کا جو طوفان اسکے نتیجے میں بپا ہوا‘ اس نے اب تک زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں۔ لیکن بحیثیت مجموعی اب کوئی پلٹ کر نہیں دیکھتا کہ یہ قریبی دور بھی ہماری زندگیوں سے ایک طوفان کی طرح گزرا تھا۔ لوگ یہ بنیادی سوال بھی بھول چکے ہیں کہ یہ وائرس تھا کیا؟ یہ کیسے شروع ہوا اور کیا یہ انسان کا تخلیق کردہ وائرس تھا یا قدرتی؟ اگر یہ انسانی بائیولوجیکل ہتھیاروں میں سے تھا تو کیسے باہر نکلا اور کون ذمہ دار ہے؟ یاد کیجیے کہ امریکی FBI کے ڈائریکٹر جنرل کرسٹوفر رائے نے کہا تھا کہ شواہد یہ ہیں کہ یہ چینی لیبارٹری سے شروع ہوا۔ جواب میں چینی حکومت نے اسے امریکی سیاسی ہتھکنڈا قرار دیا۔ میں نے اس معاملے پر کچھ رپورٹس پڑھیں مثلاً ڈاکٹر ڈیوڈ رابرٹسن‘ صدر شعبہ وائرل جینومکس اینڈ بائیو انفور میٹکس کہتے ہیں کہ ایسے کوئی شواہد نہیں کہ یہ انسانی تخلیق تھا۔ پروفیسر جیمس ووڈ‘ جو کیمبرج یونیورسٹی کے شعبہ Infectious disease سے متعلق ہیں‘ بھی اسی خیال کے حامی ہیں۔ دیگر ماہرین بھی سمجھتے ہیں کہ چمگادڑوں کی ایک قسم سے یہ وائرس قدرتی طور پر پھیلا اور انسان کا اس میں عمل دخل نہیں تھا لیکن کئی دیگر ماہرین کے شبہات بہرحال موجود ہیں۔ یہ ایک الگ بحث ہے جس کیلئے طویل تحریر درکار ہے۔
میں 2022ء میں امریکہ کے سفر پر تھا اور ایک پاکستانی ڈاکٹر دوست کا مہمان تھا۔ وہ اسی شعبے سے متعلق نامور ڈاکٹر ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کا کیا خیال ہے‘ یہ وائرس انسانی تخلیق تھا اور جن غلطی سے بوتل سے نکل آیا؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں دورانِ تعلیم بائیو لوجیکل ہتھیاروں کے ایک کورس میں بتایا گیا تھا کہ ایسے ہتھیار میں کیا کیا خصوصیات ہونی چاہئیں اور اس کا پھیلائو کس حد تک رہنا چاہیے۔ جو خصوصیات بتائی گئی تھیں‘ کم وبیش وہ سب کووڈ 19 میں پائی جاتی ہیں اس لیے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اس میں انسانی عمل دخل تھا‘ بہرحال یہ بات یقینی نہیں۔ لیکن اسکے بعد جو بات انہوں نے کی وہ رونگٹے کھڑے کر دینے والی تھی۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ انسان نے بائیو لوجیکل ہتھیار بنائے ہیں اور روز اسکے نت نئے گوشے دریافت ہو رہے ہیں۔ اب وہ ہتھیار بنائے جا رہے ہیں‘ یا شاید بنائے جا چکے ہیں جو ڈی این اے کی بنیاد پر ہلاکتیں کر سکتے ہیں۔ وہ مخصوص ڈی این اے کے علاوہ باقی افراد کیلئے مہلک نہیں ہوں گے۔ اس خوفناک صورتحال کو اس طرح سمجھیں کہ ایک خطے یا ایک ملک یا ایک شہر میں کسی خاص نسل کے افراد کو ہلاک کرنا مقصود ہو تو یہ وائرس وہاں پھیلا دیا جائے‘ یہ وائرس چن چن کر اُس نسل کے لوگوں کو ختم کر دے گا اور باقی افراد محفوظ رہیں گے۔ دنیا کا مہلک ترین بم بھی نسل‘ زبان‘ قومیت‘ خاندان‘ انسان اور غیر انسان میں فرق سے محروم ہے۔ وہ بلاتمیز سب کو ختم کرتا ہے لیکن ایسے وائرس صرف ناپسندیدہ افراد کو ختم کریں گے۔ باقی لوگوں‘ عمارتوں اور تنصیبات وغیرہ کو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ میں تو اس کا تصور کرکے ہی تھرا جاتا ہوں۔
انسان اس بے کنار کائنات میں کتنا تنہا ہے۔ کھربوں ستاروں میں اگر کہیں زندگی نے سر اٹھایا ہے تو اس نیلے سیارے پر۔ اور یہاں زندگی خود اپنے ہی وجود کے درپے مہلک ہتھیار بنانے میں مصروف ہے۔ جب اس سیارے پرغلبے کی خواہش ایسے جنون کی شکل اختیار کر جائے‘ جو ہر رو ز نئی شکل میں ہمارے سامنے ہے‘ اور یہ وحشی اقوم کے بیچ نہیں‘ متمدن اور انسانی ترقی میں پوری انسانی تاریخ پر فائق اقوام کے درمیان ہو تو کیا ہم سکندر‘ چنگیز اور ہلاکو کو غارت گر کہہ سکتے ہیں؟ ہم سے بڑا غارت گر کون ہے بھئی؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved