تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     10-01-2025

ڈنکی‘ غربت اور شریکا

یونانی ساحلوں پر جب بھی تارکینِ وطن کی کوئی کشتی ڈوبتی ہے تو ہم سب کا دھیان اس طرف جاتا ہے کہ ان میں بیچارے کتنے پاکستانی ہوں گے جو اپنے والدین‘ گھر اور یار دوست چھوڑ کر پردیس میں اچھی زندگی کی تلاش میں مارے گئے۔ ایسے ہر واقعے کے بعد سوگ کی ایک کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور ٹی وی شوز سے لے کر سوشل میڈیا تک‘ خبروں اور تبصروں میں مرنے والوں کے لواحقین کے انٹرویوز چلتے ہیں۔ لوگ یہ سوچ کر مزید افسردہ اور دکھی ہو جاتے ہیں کہ ایک تو انسانی جان چلی گئی‘ دوسرے مرنے والوں کے والدین کے خواب بھی مغربی پانیوں میں ڈوب گئے۔ اوپر سے یہ احساس کہ ملک میں غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے پتا نہیں کتنی ایسی مزید ٹریجڈیز ہوں گی۔ یہاں یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیا یہ لوگ صرف غربت سے تنگ آ کر غیرقانونی طور پر یورپ جاتے ہیں یا اس لیے کہ پاکستان اب انکے خوابوں کو تعبیر نہیں دے سکتا؟ غیرقانونی تارکین وطن کی افسوسناک اموات سے حکومتیں اور ادارے بھی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں کہ انکی غلط پالیسیوں کی وجہ سے لوگ اچھے مستقبل کی تلاش میں مارے گئے۔
چند روز قبل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا ایک اجلاس ہوا جس میں یہی موضوع زیر بحث تھا۔ وہاں تین لوگوں ‘ جن میں پیپلز پارٹی کے ایم این اے عبدالقادر پٹیل‘ صاحبزادہ حامد رضا اور ڈی جی ایف آئی اے اسحاق جہانگیر شامل ہیں‘ نے کافی اہم باتیں کیں۔ان تینوں کی باتیں سن کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے کہ لوگ پردیس جانے کیلئے کیسے اپنی جانیں دے رہے ہیں۔ اور یہ سب کچھ غربت کی وجہ سے نہیں ہو رہا۔ ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ غیرقانونی طور پر یورپ جانے والے سب لوگ غریب تھے اور اپنی غربت مٹانے کیلئے وہ پاکستان چھوڑ کر یورپ جانے کی کوشش میں مارے گئے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ ایف آئی اے نے ان واقعات کے بعد جو تفتیش کی ہے اس سے پتا چلتا ہے اکثر لوگ‘ جو غیرقانونی طریقوں سے یورپ جارہے تھے‘ ان کی پچیس‘ پچیس ایکڑ تک زمین ہے۔ اتنی زمین والا بندہ غریب نہیں ہوتا۔ ڈی جی ایف آئی اے کی بات میں اس لیے بھی وزن ہے کہ ایجنٹ غیرقانونی طور پر یورپ بھجوانے کیلئے لوگوں سے 20 سے 50 لاکھ روپے فی بندہ تک لیتے ہیں۔ کیا کوئی غریب بندہ‘ جو ہمارے خیال میں روٹی تک کا محتاج ہو‘ وہ اتنے پیسے ایجنٹ کو دینا افورڈ کر سکتا ہے؟ ڈی جی ایف آئی اے نے ایک اور سوال اٹھایا کہ ایک بات ہم سب کیلئے حیران کُن ہے کہ پورے ملک میں سے صرف چار اضلاع ایسے ہیں جہاں کے لوگ سب سے زیادہ غیرقانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ باقی ملک کے لوگ اس طرح باہر جانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ انہوں نے جہلم‘ گوجرانوالہ‘ سیالکوٹ‘ پنڈی بھٹیاں‘ منڈی بہائو الدین اور دیگر قریبی علاقوں کا نام لیا جہاں سے نوجوان غیرقانونی طور پر باہر جانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ صاحبزادہ حامد رضا کا کہنا تھا کہ پہلے یہ کام جی ٹی روڈ کے ارد گرد موجود اضلاع میں ہو رہا تھا لیکن اب فیصل آباد اور جھنگ تک اس کا دائرہ پھیل رہا ہے اور وہاں کے نوجوانوں میں بھی یہ رجحان تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔
ڈی جی ایف آئی اے کے انکشافات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں شریکے کا حسد کس خطرناک حد تک پھیل چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں سے دراصل کافی عرصہ پہلے جو لوگ غیرقانونی طریقوں سے یورپ گئے‘ انہوں نے اب اپنے علاقوں میں بڑی بڑی کوٹھیاں بنا رکھی ہیں۔ وہ اپنے گھر والوں کو لاکھوں روپے بھیجتے ہیں۔ یہ دیکھ کر اب تو یہ حالت ہو چکی ہے خود والدین اپنے بچوں کو طعنے دیتے ہیں کہ تم نکھٹو گھر بیٹھے ہو‘ کچھ نہیں کرتے‘ فلاں کا بیٹا یورپ چلا گیا ہے۔ فلاں نے کوٹھی بنا لی ہے۔ فلاں کے بیٹے نے شادی پر ہیلی کاپٹر سے نوٹ پھنکوائے۔ یوں والدین ہی شریکے کے چکر میں اپنے بچوں کو باہر جانے پر مجبور کرتے ہیں۔ اپنی زمین یا جائیداد بیچ کر خود ہی ایجنٹ کو پیسے دیتے ہیں اور یوں قسمت کے سہارے وہ بچے یورپ کو چل پڑتے ہیں۔ ڈی جی ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ اگر یہ سارا مسئلہ غربت کا ہے تو پھر پاکستان کے دوسرے علاقوں سے لوگ اس طرح یورپ کا رخ کیوں نہیں کر رہے؟ ڈی جی ایف آئی اے کا ماننا ہے کہ اس رجحان کا تعلق غربت سے نہیں بلکہ سوشل سٹیٹس اور شریکے سے ہے‘ جس کی وجہ سے نوجوان یہ خطرات مول لے رہے ہیں۔ پھر غیرقانونی طور پر یورپ جانے والے وہاں پہنچ کر سیاسی پناہ لے لیتے ہیں جس وجہ سے ان تک رسائی بھی نہیں ہو پاتی۔
صاحبزادہ حامد رضا نے جو ہوشربا انکشافات کیے وہ سن کر بندہ دنگ رہ جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ نوجوان نسل ٹک ٹاک پر جو کام کر رہی ہے‘ اس سے معاشرے میں اب وہی لوگ رول ماڈل بن رہے ہیں جنہوں نے گلے میں سونے کے زیوارت پہنے ہوئے ہیں۔ شادیوں پرنوٹوں کی بارش کرائی جاتی ہے۔ اور تو اور ایک ٹک ٹاکر کوتو پنجاب پولیس کی گاڑیاں اسکارٹ کرتی ہیں۔ کئی پولیس والے اس کیساتھ ہوتے ہیں۔ کسی نے اس کی عینک تو کسی نے ڈائری‘ تو کسی نے اس کا فون اٹھایا ہوتا ہے۔ جب آج کی نوجوان نسل یہ سب کچھ دیکھتی ہے تو اسے لگتا ہے کہ اصل رول ماڈل یہ ٹک ٹاکرز ہیں اور یوں نوجوان نسل سب کچھ چھوڑ کر اس کام پر لگ جاتی ہے کہ ڈالر کمانے ہیں اور اپنا سوشل سٹیٹس ایسا بنانا ہے کہ پولیس والے آپ کی ڈائریاں اٹھا کر آپ کے پیچھے پھریں۔ فیصل آباد اور جھنگ میں بالخصوص یہ کلچر نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ انہوں نے کئی مزید دنگ کر دینے والے انکشافات کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بہت ساری کوٹھیاں دکھا سکتے ہیں جو دیہات میں برسوں سے خالی پڑی ہیں۔ وجہ وہی سوشل سٹیٹس ہے کہ جو لوگ باہر گئے‘ انہوں نے یہاں پیسہ لگا کر محض دکھاوے کیلئے کوٹھیاں بنا رکھی ہیں‘ رہتا ان میں کوئی نہیں۔ جب گاؤں کے دوسرے لوگ وہ کوٹھیاں اور ٹھاٹ باٹ دیکھتے ہیں تو وہ بھی یورپ جانے کے چکر میں پڑ جاتے ہیں‘ چاہے اس میں ان کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔
پی پی پی کے ایم این اے عبدالقادر پٹیل نے کچھ اور انکشافات کیے۔ وہ بتا رہے تھے کہ وہ زیارات کیلئے عراق گئے‘ جہاں انہوں نے دیکھا کہ عراقی ایئر پورٹس پر پاکستانی پاسپورٹ رکھ لیا جاتا ہے۔ وہ اس وقت آپ کو واپس ملتا ہے جب آپ پاکستان واپسی کیلئے دوبارہ ایئرپورٹ پہنچتے ہیں۔ ایسا عراق میں صرف پاکستانی پاسپورٹ کے ساتھ ہی ہو رہا ہے۔ کچھ دن پہلے خبر آئی تھی کہ اس چکر میں پانچ ہزار پاکستانیوں کے پاسپورٹس وہاں گم ہو گئے۔ پٹیل صاحب کا کہنا تھا کہ عراق میں ہوٹل انڈسٹری بہت بڑا بزنس ہے کیونکہ دنیا بھر سے لوگ وہاں مقدس مقامات کی زیارت کیلئے جاتے ہیں مگر انہیں اس وقت بہت حیرانی ہوئی جب وہاں ہوٹلوں میں انہیں زیادہ تر پاکستانی ملے جو وہاں نوکریاں کررہے تھے۔ ان میں اکثریت ان افراد کی ہے جو یورپ جانے کی خواہشمند ہیں۔ یہ بلوچستان سے ایران گئے تو ایرانیوں نے انہیں عراق میں دھکیل دیا اور اب وہ نہ آگے جا سکتے ہیں‘ نہ پیچھے لوٹ سکتے ہیں۔ یوں وہ عراق میں ہوٹلوں کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ پٹیل صاحب کا کہنا تھا کہ وہاں وہ لوگ ڈیڑھ سے ڈھائی‘ تین لاکھ روپے کما رہے ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ عراق میں بہت سارے پاکستانیوں کی قانونی کھپت ہو سکتی ہے اور اس پر کام ہونا چاہیے۔
خیر یہ سب باتیں اپنی جگہ لیکن اس تین گھنٹے طویل اجلاس میں بہت کچھ سننے اور سمجھنے کو ملا۔ نتیجہ یہی نکلا کہ سینٹرل پنجاب کے چار پانچ اضلاع کے نوجوان‘ جو ڈنکی لگانے کے خطرات مول لے رہے ہیں‘ اس کے پیچھے غربت سے زیادہ شریکا‘ پیسے کا رعب و دبدبہ اور سماجی سٹیٹس ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved