تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     10-01-2025

اَج او منزل نیڑے دِسدی‘ کل سی جیہڑی دور … (1)

''پرچی ڈالتے وقت آپ کے پاس خدا کے سوا کوئی نہیں ہو گا‘‘۔ یہ الفاظ بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظم کی ہم راز اور ہم سفر بہن ڈاکٹر فاطمہ جناح کے ہیں‘ جو آمریت کے خوف کا بت توڑنے کے لیے صدارتی الیکشن میں اُتری تھیں۔ محترمہ فاطمہ جناح نے یکم جنوری 1967ء کے روز کراچی کے آخری انتخابی جلسے میں آ کے فرمایا: ووٹ دیتے وقت اللہ تعالیٰ پر پورا بھروسہ رکھیں۔ صدارتی انتخاب کے لیے اپنا ووٹ ڈالتے وقت آپ کسی لالچ‘ دھاندلی اور دباؤ سے متاثر ہوئے بغیر اپنے ضمیر کے مطابق پوری جرأت سے پرچی پر نشان لگائیں۔ درج بالا الفاظ قیامِ پاکستان کے بعد اقتدار پر قابض سول سرونٹس اور مارشلائی حکمرانوں کے خلاف جمہوریت کی بحالی کی اولین تحریک کا نقطۂ عروج تھے۔
پاکستان ان دنوں سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی طور پر جس درجے کے ہچکولے کھا رہا ہے‘ اس پہ ملک کے اندر نہ کوئی تجزیہ کرنے والا یا بولنے والا تھِنک ٹینک ہے‘ نہ ہی وہ ماحول جس میں لوگوں کو کھل کر اپنے حق کے لیے بولنے‘ اپنی مرضی کا لکھنے اور ریاستی جبر کے خلاف اظہار کی آزادی حاصل ہے۔ مگر دنیا کا آزاد میڈیا ہمارے پیش آمدہ جمہوری خطرات کو ہمارے ماضی کے تناظرمیں مسلسل کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ ہم سانحۂ مشرقی پاکستان اور جمہوریت کے مسلسل قتلِ عام سے کوئی سبق سیکھیں یا نہ سیکھیں‘ عالمی برادری ہماری یہ ناپسندیدہ تاریخ ہمیں مسلسل یاد کراتی رہتی ہے۔ اسی تناظر میں بی بی سی نے ایک تحقیقی کاوش کی‘ جسے فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضے کے بعد پاکستان میں بحالیٔ جمہوریت کی پہلی کوشش کے آغاز کا عنوان دیا گیا۔ اس موضوع پر 1967ء کے روزنامہ نوائے وقت کے آرکائیو سمیت نواب زادہ نصراللہ خان کی تحریریں‘ ازہر منیر کی کتاب مادرِ ملت کا جمہوری سفر‘ وکیل انجم کی تصنیف شمع جمہوریت‘ عالمی پریس‘ ڈاکٹر روبینہ سہگل کا ریسرچ پیپر‘ الطاف گوہر کی کتاب 'فوجی راج کے پہلے 10 سال‘، احسن علی باجوہ کی تحریر مادرِ ملت‘ فخر ملت‘ عبداللہ ملک کی کتاب داستانِ خانوادہ‘ میاں محمود علی قصوری‘ مصطفی ملک کا تحقیقی مقالہ بعنوان کون کہاں کھڑا تھا‘ سابق آئی جی پولیس حافظ مصباح الدین جامی کی یادداشتیں: پولیس‘ کرائم اینڈ پالیٹکس‘ لیاقت علی خان کے بعد کے پاکستان میں بحالیٔ جمہوریت کی پہلی تحریک سے متعلق اچھاخاصا میٹریل موجودہ ہے۔ علاوہ ازیں اُس دور کے اخبارات میں 1964ء تا1967ء کے آرکائیو اور عالمی پریس میں چھپنے والی واقعاتی خبریں اور تجزیے بھی ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے موجود ہیں۔ آئیے اس تاریخ کے کچھ صفحات کی جھلکیاں ملاحظہ کریں۔
المناک تاریخ کی پہلی جھلکی: سال 1964ء میں 71 سالہ ڈاکٹر فاطمہ جناح فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن لڑنے کے لیے پانچ جماعتی متحدہ اپوزیشن کی متفقہ امیدوار بن گئیں۔ اُس دور کے وزیر قانون نے دعویٰ کیا تھا کہ اپوزیشن صدارتی الیکشن میں کوئی امیدوار ہی نہیں لا سکے گی۔ حزبِ اختلاف کی کمبائنڈ اپوزیشن کے نام سے سیاسی اتحاد بنایا گیا جس کے پہلے سربراہی اجلاس میں مسلم لیگ کونسل کے صدر خواجہ ناظم الدین‘ نظام اسلام پارٹی کے صدر چودھری محمد علی‘ نیشنل عوامی پارٹی کے صدر مولانا عبدالحمید بھاشانی اور میاں محمود علی قصوری‘ عوامی لیگ کے نمائندے شیخ مجیب الرحمن اور جماعت اسلامی کے رہنما چودھری رحمت الٰہی شریک ہوئے۔ اپوزیشن کے اصرار پر قائداعظم کی ہمشیرہ نے الیکشن لڑنے کے فیصلہ کیا اور انتخابی مہم میں اُتر آئیں۔
30 اکتوبر 1964ء کے دن ٹائم میگزین میں ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں لکھا تھا کہ جب فاطمہ جناح ڈھاکہ میں پہلی بار انتخابی مہم کے لیے باہر نکلیں تو تقریباً اڑھائی لاکھ لوگ انہیں دیکھنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ اپوزیشن کا اگلا پروگرام ڈھاکہ سے چٹاگانگ تک 293 میل (471.5 کلومیٹر) کا روڈ مارچ تھا۔ اس طویل اور مشکل راستے پر جو ٹرین چلائی گئی اُسے فریڈم سپیشل کا نام دیا گیا۔ ٹائم میگزین کا کہنا تھا کہ تقریباً 10لاکھ لوگوں نے ڈھاکہ سے چٹاگانگ کے راستے پر اس ٹرین کا ستقبال کیا جو بار بار رکنے کی وجہ سے 22 گھنٹے کی تاخیر سے چٹاگانگ پہنچ پائی۔ آٹھ نومبر 1964ء کی اشاعت میں نیو یارک ٹائمز نے فاطمہ جناح کی مقبولیت پر رپورٹ میں کہا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان میں فاطمہ جناح کا سفید لباس میں ملبوس دبلا پتلا بدن‘ ان کا بارعب چہرہ لوگوں کے دلوں میں گھر کر گیا۔ الیکشن مہم میں چٹاگانگ سے تلہ گنگ تک ایک ہی نعرہ لگتا رہا ''مادرِ ملت‘ مادرِ ملت‘‘۔ جب فاطمہ جناح ہجوم سے پوچھتیں کہ کیا آپ میرے ساتھ ہیں؟ تو فاطمہ جناح کے منہ سے نکلے یہ الفاظ سن کر لوگ جذبات میں دیوانہ ہو جاتے۔ جیل سے رہائی کے بعد جماعت اسلامی کے امیر مولانا مودودی صاحب بھی اس انتخابی مہم میں شریک ہو گئے۔
المناک تاریخ کی دوسری جھلکی: نواب زادہ نصراللہ خان نے محترمہ فاطمہ جناح‘ جن کا انتخابی نشان ''لالٹین‘‘ تھا‘ کی انتخابی مہم کے بارے میں یہ لکھا کہ وہ جہاں بھی گئیں بچے‘ جوان‘ بوڑھے مرد و خواتین اُن کا انتخابی نشان ''لالٹین‘‘ ہاتھوں میں لیے شاہراہوں پر استقبال کے لیے موجود تھے۔ مشرقی پاکستان کے دورے میں لاکھوں لوگ ہر سٹیشن پر اصرار کرتے تھے کہ محترمہ ہم سے خطاب کریں۔ لوگ فاطمہ جناح سے خطاب کرنے کامطالبہ منوانے کے لیے ٹرین کے آگے لیٹ جاتے تھے۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں پہلی بار طالب علموں کی اکثریت فاطمہ جناح کی حمایت میں باہر نکل آئی۔ آمریت کی حکومت نے اپنے ہی تعلیم یافتہ بچوں کو شر پسند کا خطاب دے دیا۔ طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے محترمہ فاطمہ جناح نے کہا کہ یہ کس قسم کی جمہوریت ہے‘ ایک شخص کی جمہوریت یا پچاس لوگوں کی جمہوریت؟ محترمہ فاطمہ جناح غربت کو تنقیدکا نشانہ بناتی تھیں اور بدعنوانی کے خلاف آواز اٹھاتی تھیں۔ اس دور میں مولانا مودودی کا یہ جملہ بڑا مقبول ہوا کہ ایوب خان میں اس کے سوا کوئی خوبی نہیں کہ وہ مرد ہیں‘ اور فاطمہ جناح میں اس کے سوا کوئی کمی نہیں کہ وہ عورت ہیں۔ محترمہ فاطمہ جناح کے انتخابی میدان میں اُترنے سے نئی شاعری اور ادب نے بھی جنم لیا۔ ایک پنجابی شاعر کے یہ اشعار بہت مشہور ہوئے:
جاگ پئے تیرے شیر سپاہی
جاگ پئے جمہور
اَج او منزل نیڑے دِسدی
کل سی جیہڑی دور
تیری سرداری وِچ آئے
دیس تیرے دے جائے
پاک وطن دیے مائے (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved