تین جنوری 2024ء کو پاکستان کے قومی ہیرو ایئر کموڈور (ر) سید سجاد حیدر اپنے ابدی سفر پر روانہ ہو گئے۔ ان کی عمر 92 سال تھی‘ اور وہ اسلام آباد میں رہائش پذیر تھے۔ آخری دم تک انہوں نے چاق وچوبند زندگی گزاری۔ میری انکل سجاد سے آخری ملاقات گزشتہ برس ہوئی تھی اور وہ اس عمر میں بھی ہشاش بشاش نظر آئے تھے۔ مجھ سے وہ ارشد شریف مرحوم کی باتیں کرتے رہے اور پھر میں نے ان کی زبانی ہوابازی کی تاریخ بھی سنی۔ ان سے 1965ء اور 1971ء کی جنگ میں پاک فضائیہ کے شاہینوں کے کارناموں پر بات ہوئی۔ میرے اور میری فیملی کے دیگر افراد کے ساتھ ان کی نشست کوئی تین گھنٹے جاری رہی اور ہمیں ماضی کے بہت سے عسکری اور سیاسی حقائق معلوم ہوئے۔ ارشد شریف کی ناگہانی وفات نے ان کو بہت رنجیدہ کیا تھا‘ وہ اکثر مجھ سے اس کی باتیں کیا کرتے تھے۔
ایئر کموڈور (ر) سید سجاد حیدر کو ''Saviour of Lahore‘‘ یعنی لاہور کے محافظ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایئر مارشل (ر) اصغر خان مرحوم کہا کرتے تھے کہ سجاد ان بہادر مردوں میں سے ہے جنہوں نے 1965ء کی جنگ میں ملک کے دفاع میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ایئر مارشل (ر) رحیم خان مرحوم نے کہا تھا کہ سجاد حیدر 1965ء کی جنگ میں ایک نمایاں کمانڈر کی حیثیت سے ابھرے‘ ان کے جیسی فتوحات کی کوئی اور مثال ملنا ناممکن ہے۔ سید سجاد حیدر 1932ء میں سرگودھا میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم گرامر سکول اور ایف سی کالج سے حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے پی اے ایف اکیڈمی اور سٹاف کالج سے تعلیم حاصل کی جبکہ جرمنی اور امریکہ سے بھی ہوابازی کی تربیت حاصل کی۔ 1965ء کی جنگ میں وہ پاک فضائیہ کے سکواڈرن نمبر 19 کی قیادت کر رہے تھے اور6 ستمبر سکواڈرن نمبر 19کا دن تھا۔ اس سکواڈرن کو جب یہ خبر ملی کہ بھارت نے لاہور پر حملہ کر دیا ہے تو اس کا اولین مقصد لاہور کا دفاع تھا۔ سکواڈرن نمبر 19 نے لاہور شہر پر نچلی پروازیں کیں اور سرحد کے پاس ٹارگٹ کو تلاش کیا۔ واہگہ پار کر کے آنے والے دشمن کے قافلوں اور بھارتی ٹینکوں پر انہوں نے بمباری کی۔ اس حملے میں سکواڈرن لیڈر سجاد کو سکواڈرن لیڈر مڈل کوٹ نے لڑاکا طیارے F104 کے ساتھ معاونت دی۔ اس فارمیشن نے بھارتی جہازوں‘ ٹینکوں‘ چوکیوں اور تنصیبات کو شدید نقصان پہنچایا۔ یہ حملہ اتنا زوردار تھا کہ بھارتی فوج کی لاہور کی طرف پیش قدمی رک گئی۔ اس حملے میں بھارت کے اسلحہ ڈپو‘ ٹینک اور فوجی گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ اس مشن سے کامیاب واپسی کے بعد ری فیولنگ کی گئی اور پھر ہدایت ملی کہ 8 سیبر طیاروں کے ساتھ پٹھانکوٹ پر کھڑے طیاروں پر حملہ کیا جائے۔ سجاد حیدر اس وقت سکوڈران لیڈر تھے‘ انہوں نے حکم کی تعمیل کی اور مشن پر جاتے وقت انہوں نے اپنے تمام پائلٹس کو پرفیوم میں بھیگے رومال دیے اور کہا: شاید ہم واپس نہ آ سکیں‘ لہٰذا جب ہم اپنے اللہ کے حضور پیش ہوں تو ہم سے خوشبو آ رہی ہو۔ اس فارمیشن نے پشاور سے اڑان بھری اور اس کی منزل بھارت کی پٹھانکوٹ ایئربیس تھی۔ پاکستانی پائلٹس سیبر طیاروں میں تھے مگر پٹھانکوٹ بیس پر بہت سے جنگی جہاز موجود تھے‘ جن میں مِگ بھی شامل تھے۔ کوئی پروا نہ کرتے ہوئے انہوں اتنا شدید حملہ کیا کہ بھارتی بیس پر موجود سٹاف کو اپنی جان بچا کر بھاگنا پڑا اور اس حملے کا ذکر بھارتی ایئر فورس کے اہلکاروں نے اپنی متعدد کتابوں میں کیا ہے کہ کس طرح انہیں بنکر میں چھپ کر اپنی جان بچانا پڑی۔ سجاد حیدر کی قیادت میں اس حملے میں پاک فضائیہ نے بھارتی فضائیہ کے 10سے زائد طیارے تباہ کیے۔ سکواڈرن 31کے دو طیارے‘ چھ طیارے مسٹریز‘ دو مِگ 21 اور ایک فیئر چائلڈ پیکٹ تباہ کیے۔ سجاد حیدر کی قیادت میں سکواڈرن نمبر 19 نے 1965ء کی جنگ میں پانچ تمغہ جرأت حاصل کیے۔ اس سکواڈرن نے 706 گھنٹے پرواز کی اور بھارت کے 14 جہاز اور 74 ٹینک تباہ کیے۔ فوجی گاڑیاں‘ مشین گنیں اور اسلحہ ڈپو اس کے علاوہ ہیں۔ سجاد حیدر نے ذاتی طور پر چار بھارتی طیارے اور 11 ٹینک تباہ کیے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے انہیں ستارۂ جرأت سے نوازا گیا۔
سید سجاد حیدر ملک میں حقیقی جمہوریت دیکھنے کے خواہش مند تھے اور آمریت کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ جنرل ضیا کے زمانے میں ایک تقریب میں سب کے سامنے انہوں نے صدر ضیا سے سخت سوالات کیے اور بطور صدر ان کے کردار پر تنقید کی‘ جس کے بعد انہیں حکمرانوں کے عتاب اور شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ حکمرانوں کو ان کی غلطیاں واشگاف انداز میں یاد دلاتے تھے اور ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرانے کا مشورہ دیتے تھے۔ گزشہ چند برسوں میں‘ جب بولنے اور لکھنے کی آزادی بہت کم ہو گئی‘ تب بھی وہ علی الاعلان کلمہ حق بیان کرتے رہے۔ انہوں نے ہوا بازی کی تاریخ پر ''فلائٹ آف دی فالکن‘‘ سمیت متعدد کتابیں اور آرٹیکلز لکھے۔ ایئر فورس سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ملک کے لیے ان کی خدمات جاری رہیں اور انہوں نے متعدد انتظامی عہدوں پر کام کیا۔
سید سجاد حیدر بہت بہادر‘ اصول پسند اور انقلابی طبیعت کے مالک تھے۔ وہ کبھی بھی کلمہ حق کہنے سے گھبرائے نہیں۔ زندگی کے آخری سالوں میں وہ تحریک انصاف کو کھل کر سپورٹ کرتے رہے اور ان کے جلسوں‘ دھرنوں میں بھی شریک ہوئے۔ دو سال قبل اسلام آباد پولیس کے ایک اہلکار کی ان سے بدتمیزی کی وڈیو وائرل ہوئی تھی جس پر سوشل میڈیا صارفین اور عوام نے شدید غصے اور تاسف کا اظہار کیا۔ اس کے باوجود ان کی ہمت اور جوش میں کمی نہیں آئی۔ گزشتہ سال فروری میں 91سال کی عمر میں وہ اپنی ایئرفورس کی وردی پہن کر ووٹ دینے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ شاید یہ میری زندگی کا آخری ووٹ ہے۔ الیکشن کے بعد وہ قدرے غمزدہ تھے کیونکہ فارم 45 پر فارم 47 غالب آ گیا تھا۔ آنکھوں میں جمہور کی حکمرانی کا خواب لیے وہ اس جہان سے چلے گئے‘ تاہم ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
سید سجاد حیدر قائداعظم کے افکار سے بہت متاثر تھے۔ ہماری آخری نشست میں انہوں نے جہاں مجھے ایئر فورس کی تابناک تاریخ کے بارے میں بتایا‘ وہیں ملکی سیاست پر بھی گفتگو ہوتی رہی۔ ان کو آمریت اور کرپشن سے سخت نفرت تھی۔ وہ این آر او اور ڈیل کے بھی مخالف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ قومی مفاد کی آڑ لے کر وائٹ کالر کرائم کو تحفظ دینا ریاست اور عوام کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی کتاب دی فلائٹ آف دی فالکن (شاہین کی پرواز) میں بہت سے حقائق درج کیے ہیں جو نئی نسل کو پڑھنے چاہئیں۔ وہ ایک شاندار شخصیت کے مالک تھے‘ آواز میں گھن گرج تھی۔ ان کے کوٹ پر لگا جے ایف 17 تھنڈر کا بروچ مجھے آج بھی یاد ہے۔ انہوں نے ایک طویل اور بھرپور زندگی گزاری اور پسماندگان میں دو بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑی ہے۔
ایئر کموڈور (ر) سید سجاد حیدر کے انتقال کے بعد سوشل میڈیا تعزیتی پیغامات سے بھرا ہوا تھا۔ کوئی ان کی جرأت کی تعریف کر رہا تھا تو کوئی ان کی جمہوری جدوجہد کو سراہ رہا تھا۔ کوئی اس بات پر تاسف کا اظہار کر رہا تھا کہ آخری عمر میں ایک قومی ہیرو کے ساتھ اسلام آباد پولیس کے اہلکار نے بدتمیزی کی۔ حالانکہ انہوں نے اپنا تعارف بھی کرایا اور ساتھ موجود لوگوں نے بھی بتایا کہ یہ کون ہیں‘ اس کے باوجود پولیس کا رویہ درشت ہی رہا۔ ہم بحیثیت قوم اپنے ہیروز کی قدر نہیں کرتے‘ تاریخ نہیں پڑھتے‘ اپنے اسلاف کے شاندار کارناموں سے آگاہی نہیں رکھتے۔ یہی ناقدری میرے اس آرٹیکل کی تحریک بنی کہ میں بتا سکوں کہ منوں مٹی تلے چلے جانے والا شخص کوئی عام آدمی نہیں تھا‘ وہ لاہور کو بچانے والا پائلٹ سید سجاد حیدر تھا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی تقصیروں سے درگزر فرما کر انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے‘ آمین۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved