اللہ تعالیٰ کا آخری کلام آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ پر نازل ہوا۔ اس آخری کلام یعنی قرآن مجید‘‘ کا ایک نام ''فرقان حمید‘‘ بھی ہے۔ اسی ''فرقان حمید‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے غزوۂ بدر کے دن کو ''یوم الفرقان‘‘ قرار دیا ہے۔ یعنی بدر کی جنگ میں فیصلہ ہو گیا تھا‘ فرق واضح ہو گیا تھا کہ مستقبل کس کا ہے؟ مکہ کے بت پرست مشرکوں کا مستقبل تاریک ہو گیا تھا جبکہ مدینہ منورہ کی ریاست کا مستقبل روشن اور تابناک ہو کر عرب کی سرزمین پر ہر ایک کو دکھائی دینے لگ گیا تھا۔ بدر میں دو صف بندیاں بیک وقت دکھائی دیتی ہیں۔ زمین پر حضور کریمﷺ کی قائم کردہ صف بندی تھی تو آسمان پر حضرت جبریل علیہ السلام فرشتوں کی صف بندی کرنے میں مصروف تھے۔ یوں آسمان اور زمین کی صف بندی آپس میں مل کر ایک صف بندی ہو گئی تھی۔ جب ایک صف بندی ہوئی تو فتح آگے بڑھی اور اس نے حضور محمد کریمﷺ کے قدم مبارک چوم لیے۔
لوگو! پاکستان چونکہ ''لا الہ لا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کے کلمہ کی بنیاد پر بنا ہے لہٰذا بعض انسانی اور بشری کمزوریوں کے باوجود مجھے دکھائی دے رہا ہے کہ آسمان کی صف بندی اور پاک سرزمین پر صف بندی ایک لائن میں ہے۔ اس کی اہم ترین وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان انسانیت کی بھلائی کی بات کرتا ہے۔ مظلوم مسلمانوں کی بات کرتا ہے۔ مظلوم انسانیت کی بات کرتا ہے۔ یہ بات انسانیت کے خالق اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ اس کے پیارے حبیبﷺ کا اسوہ بھی یہی ہے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے قرار اور ثبات حاصل ہے۔
''فرقان حمید‘‘ میں دو سورتیں ہیں جن کے نام '' الصف‘‘ اور ''الصفافات‘‘ ہیں۔ پہلی سورت کے آغاز میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ''اس حقیقت میں معمولی شک کی بھی گنجائش نہیں کہ اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کے راستے میں اس طرح کی صف بندی کرکے لڑتے ہیں جسے وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی عمارت (یا مضبوط آہنی دیوار) ہوں‘‘ (الصف: 4)۔ اسی طرح آسمانی صف بندی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ''قسم ہے ان (لشکروں اور جماعتوں) کی جو انتہائی مضبوط اور منظم صف بندی کرکے صف باندھنے والے ہیں۔ پھر ان (صف بند فرشتوں) کی بھی قسم جو زبردست طریقے سے (دشمنوں کو) ڈانٹنے والے ہیں۔ پھر ان کی بھی قسم جو ذکر (آیاتِ قرآن) کی تلاوت کرنے والے ہیں۔ خبردار ہو جائو تم سب کا رب ایک ہی ہے‘‘ (الصفات: 1 تا 4)۔
قارئین کرام! آج سے کئی سال قبل جب حسینہ واجد پہلی بار بنگلہ دیش کی وزیراعظم بنی تھیں تو میں بنگلہ دیش گیا تھا۔ مختلف طبقہ ہائے فکر کے عمائدین سے ملا تھا اور عام لوگوں سے بھی ملاقاتیں کی تھیں۔ واپس آکر میں نے بنگلہ دیش کا سفر نامہ لکھا اور اس کا نام رکھا ''اور انڈیا سینڈوچ بن گیا‘‘۔ لوگ مجھے کہتے تھے کہ حمزہ صاحب! آپ نے یہ نام کیوں اور کیسے رکھ دیا جبکہ حقائق اس عنوان کے برعکس ہیں۔ بھارت اور بنگلہ دیش باہم ایک ہیں‘ دونوں پاکستان سے دشمنی کا اظہار کر رہے ہیں۔ میں انہیں کہتا تھا کہ بنگلہ دیش کے لوگ دشمن نہیں ہیں‘ وہ آج بھی پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ حسینہ واجد کی رعونت اور بھارت کا تکبر ایک دن اپنے انجام کو پہنچے گا اور وہ دن پاکستان اور بنگلہ دیش کی صف بندی کا دن ہوگا اور تب بھارت بیچ میں سینڈوچ بن جائے گا۔ بحمدللہ! آج اس منظر کو میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں اور میڈیا میں اس خبر کو پڑھ رہی ہیں کہ پاک فوج بنگلہ دیش کی فوج کو تربیت دے گی۔ میں کہتا ہوں ہم اہلِ پاکستان امن والے ہیں۔ بھارت امن کے ساتھ آگے بڑھے تو خطے میں خیر‘ بھلائی اور علم کے چشمے پھوٹیں گے۔ وہ پاکستان کے خلاف زیادتیوں سے باز نہ آیا تو سینڈوچ کا سامان تیاری کے مرحلے میں تو بہرحال آ ہی چکا ہے‘ آگے اس کی مرضی ہے۔ امن کی فاختہ کو سامنے رکھنا یا سینڈوچ بننا‘ دونوں فیصلے اس کے اختیار میں ہیں۔ اور جو سینڈوچ کا دم چھلا بنے گا وہ بھی نقصان اٹھائے گا‘ ان شاء اللہ۔
پاکستان اپنے چینی مہمانوں کی جان اور عزت وآبرو کی حفاظت کا ذمہ دار ہے۔ جو لوگ دہشت گردی کے ذریعے ہماری حفاظتی چھتری میں چھید کرتے ہیں وہ اہلِ پاکستان کی معیشت‘ عزت اور دلوں میں چھید کرتے ہیں کیونکہ ہمارے چینی مہمان ہمارے محسن ہیں۔ پاکستان کی صف بند قوت نے بڑے حوصلوں کے ساتھ سالہا سال برداشت کیا مگر اس برداشت کی اہانت کی گئی۔ اس اہانت کا صف بند قوت نے اب جواب دینا شروع کر دیا ہے۔ پاکستان کا یہ حق ہے۔ لازم ہے کہ اہلِ پاکستان صرف اور صرف پاکستانی بنیں اور صف بند قوت کے ساتھ کندھے سے اس طرح کندھا ملا کر کھڑے ہو جائیں کہ 25 کروڑ کی صف بندی میں کوئی رخنہ نظر نہ آئے۔ دشمن رخنوں اور درزوں سے جھانکتا ہے۔ اسے جھانکنے کا موقع بھی نہیں دینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی عنایت پر یقین کامل رکھتے ہوئے میں اپنے دیس پاکستان کو ایک معاشی‘ عسکری‘ اخلاقی اور فلاحی قوت بنتا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ آئیے! 50 کروڑ ہاتھوں کو ایک دوسرے میں تھما کر آگے بڑھیں۔
قارئین کرام! پاکستان کی صف بند قوت ایک عرصہ سے دہشت گردی کے خلاف برسر پیکار ہے۔ ہمارے ننھے اور ہونہار بچوں کو آرمی پبلک سکول میں شہید کیا گیا۔ باچا جان یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات کو شہید کیا گیا۔ مسجدوں کو بم دھماکوں سے اڑایا گیا۔ امام بارگاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ چوکوں‘ چوراہوں اور مارکیٹوں تک کو نہ بخشا گیا۔ گرجوں اور سکھ کمیونٹی کے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان میں علما اور صحافیوں کو شہید کیا گیا‘ وہ علما جو دہشت گردی کو خارجی فتنہ قرار دیتے تھے۔ حکومت نے اس فتنے کو ختم کرنے کے لیے راہِ نجات‘ ضربِ عضب اور رد الفساد جیسے آپریشن کیے۔ آج حکومت پاکستان نے کھل کر ''فتنہ الخوارج‘‘ کے عنوان سے دہشت گردی کو ختم کرنے کا چیلنج قبول کر رکھا ہے۔ اس نام کے پیچھے وہ تاریخ ہے جس کا آغاز حیدر کرار حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تکفیر (نعوذ باللہ) سے ہوا تھا۔ وہ حیدر کرارؓ کہ جن کی تلوار بدر میں چل رہی تھی تو ساتھ ساتھ حضرت جبریل علیہ السلام کی تلوار بھی چل رہی تھی۔ جی ہاں! آج آسمان اور پاک سرزمین کی صف بندی ایک لائن میں آ چکی ہے‘ ان شاء اللہ!
قارئین ''سورۃ الصافات‘‘ کا اختتام ایک وارننگ اور انتباہ سے اللہ تعالیٰ یوں کرتے ہیں‘ فرمایا: ''پھر جب (صف بند لشکر) ان (دہشت گردوں) کے ٹھکانے میں اترے گا تو جن کو وارننگ دی گئی تھی ان کی صبح برباد کن ہو گی۔ (میرے رسولﷺ) ایک وقت تک ان سے بے رخی کا رویہ اختیار کریں۔ ان کا جائزہ لیتے رہیں۔ جلد ہی ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ آپ کا رب‘ جو بڑی عزت والا ہے‘ ان عیبوں سے پاک ہے جو یہ بیان کرتے رہتے ہیں‘ سلام ان پر جو رسول بنا کر بھیجے گئے اور سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے‘‘ (الصافات: 177 تا 182)۔ پاکستان زندہ باد!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved